: طیب خان ناکامی:۔ ناکامی زندگی میں کبھی نہ کبھی تو انسان دیکھتا ہی ہے کسی کام کو شدت سے کی اجائے اور اس میں بھی نا کامی کا سامنا ہو تو انسان دل شکستہ ہو جاتا ہے ۔ناکامی انسان کو مایوس کر دیتی ہے ۔یہ انسان کو اندر ہی اندر خود کو کوستے رہنا بھی سکھاتی ہے۔بعض اوقات تو ناکامی کی وجہ سے انسان اس قدر خود کو کوسنے لگتا ہے کہ اس کو سب بے معنی لگتا ہے ۔ کس بھی کام کو کرنا اس کے لیے بے جان لگنا اور پوری طرح سے اس بات کع یقینی بنانا کہ کامیابی آپ کا مقدربنے گی ۔لیکن پھر بھی چوک جانا اس کو اپنی ناکامی نہیں سمجھنا چاہیے۔بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ کہیںنہ کہیں اس میں کوئی بھلائی تھی یا یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ آپ کا صبرآزمارہا ہے اور اس کو آپ کے کام کی شدت اور اس میں آپ کا لگاؤ پسند آ رہا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں اگر ان کو زندگی کے لحاظ سے پرکھا جائے تو وہ بھی کبھی نہ کبھی نا کام ہوئے ہیں زندگی نے انہیں گرا کراٹھنا سکھایا ہے۔ایڈیسن جس نے بلب ایجاد کیا اس کو سکول سے نکالا گیا اور بل گیٹس انہیں نے بھی ناکامی کا سامنا لیکن آج وہ مائیکرو سوفٹ کا بانی ہے ۔ گو دیکھا جائے تو نا کامی انسان کو امید دیتی ہے اور جینے کی شدت بھی ۔ آج کل تو انسان چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کے بھی دل پر لے لیتے ہیں بچوں کے امتحان میںکامیابی نہ ہو تو وہ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ۔نوجوانوں کو محبت میں ناکامی ہو تو وہ نس کاٹ لیتے ہیں اسی طرح کسی کا کوئی اہم کام رک جائے تو وہ اس پر ڈٹنے کی بجائے اور بار بار کرنے کی بجائے دل ہار بیٹھتے ہیں اور دل برداشتہ ہو جاتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کوسوچنا چاہیے کہ ناکامی زندگی میں گرسکھاتی ہے ۔ناکامی جیت کی امید دیتی ہے ۔ناکامی برداشت سکھاتی ہے ناکامی صبر سکھاتی ہے۔اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہی ناکامی انسان کو خدا کے اور قریب کر دیتی ہے ۔کیونکہ ہم اپنی خواہش کو پانے کے جستجو میں خدا سے مانگتے ہیں دعا کرتے ہیں اپنے دل کی پریشانیاں اس سے شئیر کرتے ہیں ۔اور پھر خود کو پر سکون بھی محسوس کرتے ہیں ۔ناکامی زندگی کا حصہ ہے اور اس کو صبر اور کھلے دل سے قبول کرنا ہی ہماری کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے ۔اگر ناکامی کے بعد ہم کامیابی پائیں گے تو ہمیں قدر ہو گی اور ہماری قوت برداشت اور حوصلے بھی بڑھیں گے ۔کبھی بھی کامیابی کو دماغ اور نا کامی کو دل میں جگہ مت دیں کیونکہ کامیبانی دماغ میں تکبر اور ناکامی دل میں مایوسی پیدا کرتی ہے۔
|