کراچی کے ساحلی تفریح گاہوں میں جس طرح سے رش بڑھتا جارہا ہے. اور ان ساحلی تفریح گاہ میں جہالت کا بھی اُس ہی تیزی سے اپنی جگہ بنارہی ہے. صفائی کے لیے اداروں کے وورکرز دن رات بڑی جانفشانی سے لگے رہتے ہیں . مگر اس عوام کے سروں پر جوں تک بھی نہیں رینگتی . اس سے کراچی کا پڑھا لکھا طبقہ نے کراچی کے ساحلی علاقوں سے اب دوری اختیار کیے جارہے ہیں. مگر کراچی کے لوگوں نے اس کا نعم البدل اب بلوچستان کی ساحلی پٹیوں کو اپنا تفریح گاہ کا مسکن بنالیا ہے. جو نیشنل ہائی وے سے نکلنے کے لیے ماڑی پورانٹرچینج سے حب کی جانب رواں ہوں تو N-25 پہ کچھ فاصلہ طے کرتے ہی ٹریفک کا رش اور عوام کا رش چھٹنے لگتا ہے۔ مگر آج کل حب اوور ہیڈ برج حالیہ بارش میں زمین بوس ہونے کی وجہ سے ہیوی گاڑیوں کا بے ترتیب رش ہمیں پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتی نظر آئیگی اور ہمارے ٹریفک کنٹرول ادارے حسب معمول اپنی ڈیوٹی پر موجود ہونے باوجود ان کے آگے بےبس ولاچار تصویر بنے ایک دوسرے کو رکتے رہتے ہیں . کاش ٹریفک کے ادارے مکہ اور مدینہ کے ٹریفک کنٹرول سے ہی کچھ کلاسیں لے لیں. کراچی کے معمر لوگ اب بھی حب کو حب چوکی کہتے ہیں . اس کی وجہ یہ کہا جاتا ہے. کسی زمانے میں یہاں پولیس اور کسٹم کی چیک پوسٹ کا ہوا کرتی تھی. جسے مقامی زبان میں نکاہی کہا جاتا تھا۔۔۔لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ حالت کے اُتار چڑھاؤ اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ شہر صنعتوں اور فیکٹریوں کا مرکز بن گیا. حب چوکی سے حب ہی بن گیا اکثر یہاں کے مقامی لوگ حب کو بلوچستان کا کراچی کہتے ہیں کیونکہ ۔وہی بے تربیتی ہجوم ، وہی بے تربیتی ٹریفک ،وہی فٹ پاتھوں پر تھیلوں کا ازدہام ، بے ترتیب دوکانیں ، کشادہ سڑکیں مگر گُھس بیٹھے ہیوی گاڑیوں وغیرہ کا ڈیرہ غرض کراچی کا سھراب گوٹھ تو کبھی شیریں جناح کالونی کا گمشدہ بھائی لگتا ہے۔ شہر قائد سے 50 کلومیٹرز کی دوری پر یہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر ۔ 34300 ایکڑ رقبے پہ محیط حب ڈیم ہے۔جو پاکستان کا تیسرا بڑا ڈیم ہے۔۔ اور حب دریا، جسے عرف عام میں شورنگ نالہ ( نلہ ) بھی کہتے ہیں، پر واقع ہے۔۔۔جو کراچی اور حب کے مکینوں کی آبی ضروریات کے علاوہ تفریحی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔۔۔کراچی سے فقط آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع حب جھیل تیراکی، کشتی رانی اور مچھلی کے شکاریوں کی جنت ہے! اکثر کراچی سے ہفتہ وار چھٹیوں پر شکار کے شوقین ادھر کا راستہ اختیار کرتے ہیں. مگر ادھر بھی عوامی ٹوائلٹ جو ہیں اُن کا حال تو ایسا ہی جیسے کسی تباہ حال افریقن ملک کی عمارتوں میں سے کوئی دو تین دیواریں صیح نکل آئی ہوں. اگر حب کی شہری حکومت اپنی سربراہی میں بہترین عوامی ٹوائلٹ تعمیر کردے اور ان کی صفائی کے لیے ملازمین رکھ دے تو ہر ہفتہ کراچی سے کثیر تعداد میں ٹورسٹ آکر اس علاقہ میں اچھا خاصہ مقامی افراد کے لیے روزگار کے زرائع ہوسکتے ہیں
حب ٹول پلازہ سے کچھ میٹر پہلے سڑک دو لخت ہوجاتی ہے۔ دائیں ہاتھ والی سپر ہائی وے کی جانب نکلتی ہے جبکہ دوسری ٹول پلازہ کراس کر کے کوئٹہ اور گوادر کی جانب جاتی ہے اسےN-10 اور مکران کوسٹل ہائی وے کے نام سے بھی پہچھانا جاتا ہے۔ 1000 کلومیٹر کی یہ ساحلی پٹی پاکستان سے ایران تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس ساحلی پٹی میں سے 778 کلومیٹر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی ساحلی پٹی کہلاتی ہے۔ جس میں سے178 کلومیٹر لسبیلہ میں اور تقریبا 600 کلومیٹر گوادر میں ہے. اس کی تعمیر میں FWO نے 2002 میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور انتھک محنت سے تین سال سے بھی کم مدت میں 14 دسمبر 2004 کو مکمل ہوئی۔۔۔جب بھی کوسٹل ہائی وے پر سفر شروع کرتے وقت اشیائے خورونوش لے کر چلیں۔ تیل پانی کا ذخیرہ مکمل لے کر نکلیں کیونکہ راستے میں پانی اور پیٹرول نایاب ہے۔ حب سے قریباً آدھے گھنٹے کی مسافت پہ RCDA ہائی وے کے مغرب میں گڈانی ہے۔ گڈانی موڑ سے 700 کلو میٹر اندر چھوٹا سا ساحلی قصبہ ہے. اور کچھ فاصلے پر ایک حسین ساحل ہے۔ کچھ پرانے ہٹس بنے ہیں جن کی مرمت برائے نام ہوتی ہے۔ ایک پہاڑی ہے جو پھکارہ یا پھنکارہ کے نام سے جانی اور بلائی جاتی ہے. جو سمندرکے کنارے اس طرح واقع ہے کہ اس کے نیچے بڑے بڑے غار ہیں۔ جب لہر اٹھتی ہے تو پانی پوری روانی سے اندر جاتا ہے اور پھر اندر کی ہواسے پھوار کی صورت میں ایک خوفناک گونج کے ساتھ وہ پانی چنگھاڑتا ہوا باہر نکلتا ہے۔ چھُٹی کے دن ان پہاڑیوں اور اس ساحل پر زیادہ تر ٹورسٹ کراچی سے آنا شروع ہوجاتے ہیں . جو دوسرے دن تک خوب رونق میلہ کا سماں لگائے رہتے ہیں. اس ہی طرح ۔نہتاس سے آگے جائیں تو گڈانی شپ بریکنگ یارڈ آتا ہے جس کے سبب گڈانی کو جہازوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔اور اس سے آگے ماہی گیروں کی مچھیرا بستی چھپرا آتی ہے۔ایک وقت تھا جب گڈانی شپ یارڈ دنیا کا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ تھا۔۔۔پھر یاروں کی مہربانی اور وقت کی ستم ظریفی سے یہ پہلے سے تیسرے نمبر پہ آگیا اور اب حالات یہ ہیں کہ. اس ساحل پہ سب کچھ ہے جو کراچی جیسے شہر میں بسنے والوں کے ذہن و دل کو سکون ہی سکون دے سکتا ہے۔۔۔ حدِ نظر تک پھیلا نیلگوں سمندر۔۔۔لمبا ریتلا ساحل۔۔۔پہاڑی ٹیلے۔۔۔سمندر میں چلتی کشتیاں۔۔۔کشتی رانی۔۔۔اونٹ ۔۔۔ گھوڑے۔۔۔اور تا حدِ نگاہ پھیلی ردائے سکوں۔۔۔جس میں بیٹھ کے لہروں کے ساتھ ساتھ گھر سے بنا کے لائے کھانے کا لطف دوبالا کیا جا سکتا ہے۔۔۔یہاں ضلعی انتظامیہ کا ایک گیسٹ ہائوس بھی ہے جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے! جبکہ ادہر پرائیوٹ سیکٹر کو بھی گورنمنٹ اجازت دے کہ وہ جدید ہٹس کے ساتھ پبلک ٹوائلٹ لیڈیز اور جینٹس تعمیر کرائے کیونکہ اب جس تیزی سے ٹورسٹ ملک ٹو ملک جاکر اپنا نقطہ نظر پیش کررہے ہیں. گڈانی سے قریبا 45 کلومیٹرز پہ وندر آتا ہے۔ یہ چھوٹا سا ایک کاورباری علاقہ ہے اور کاروبار کے لئے مشہور ہے۔ ہاں زیادہ تر سمندری مخلوق جیسے مچھلی، جھینگے کا کاروبار ہوتا ہے. سمندر نزدیک ہونے کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کا ذریعہ معاش و زیست سمندر اور سمندری مخلوق ہے۔ اگر آپ پکنک بنانے اور وہاں باربی کیو وغیرہ بنانے کا پروگرام ہے تو وندر بازار آخری مقام ہے جہاں سے آپ خریداری کر سکتے ہیں۔ یہاں سے آپ کو ضرورت کی تقریباً ہر چیز آسانی سے اور وافرمقدار میں اور مناسب ریٹ پر مل جائے گی۔ لیکن اس کے بعد گوادر سے پہلے آپ کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہو گی۔ لہٰذا اپنے ساز و سامان کی اپنے قیام کے مطابق، تسلی کر کے نکلیں۔ وندر سے کچھ آگے کنراج ہے۔ کٹی پھٹی چٹانوں کا اک متواتر سلسلہ ہے۔ اور جہاں یہ چٹانیں ختم ہوتی ہیں وہیں نیلگوں سمندر جو ( نیلا ) سمندر کہلاتا ہے. ان کی آغوش میں ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ کنراج کے جنگل اور ساحلوں کا لطف اٹھائیں اور ساتھ ساتھ جھینگے اور مچھلیاں پکڑیں یا قریبی ہلکے گھنے جنگل میں تیتر اور خرگوش کا شکار کھیلیں۔ اکثر کراچی اور اس کے مضافات کے علاقوں کے نوجوان تیتر کا شکار کرنے آتے ہیں. یہاں سے کچھ فاصلے پر بائیں ہاتھ سڑک کنارے سفید سنگ میل پہ سیاہ روشنائی سے رقم ہو گا اُتھل یہ لسبیلہ کا ضلعی صدر مقام ہے، یہ میدانی علاقہ کے ساتھ ادھر فصلیں اور ہریالی کے ساتھ ساتھ کیلے، چیکو اور کھجور کے باغات ہیں . اور یہاں سے 60 کلومیٹرز کی فاصلہ پر تاریخی شہر بیلہ ہے۔ لسبیلہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔۔لس یعنی میدان اور بیلہ کا مفہوم ہے جنگل۔۔۔اور یہ ضلع پہاڑوں اور میدانوں پر مشتمل ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے لسبیلہ ایک الگ ریاست تھی۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد 1948 میں والیَٔ بیلہ جام غلام قادر نے اس کا الحاق پاکستان سے کیا۔اور یوں یہ تاریخی علاقہ پاکستان کا حصہ بنا کچھ مورخین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم لسبیلہ سے سندھ میں داخل ہوئے تھے اور ان کے رفیق جنرل ہارون کا مقبرہ آج بھی اس تاریخی شہر میں موجود ہے۔ادھر یہ بھی ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم یہیں سے واپس گیا تھا۔ اس ہی بیلہ شہر سے ایک سڑک غاروں کے شہر تک جاتی ہے کراچی سے ایک 175کلو میٹرز جبکہ لسبیلہ سے فقط 20 کلومیٹرز کی فاصلہ پر یہ موجود ہے بتاتے ہیں کہ اس شہرِروغاں کو بدھ مت کے پیروکاروں نے آباد کیا تھا اور یہاں عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 1500 کے قریب غاروں کے گھر تھے. جن میں سے اب محض 500 ہی باقی بچے ہیں ۔ شہرِ روغاں سے چند کلو میٹرز کی فاصلہ پر دنیا کے واحد مَڈوولکینوآتے ہیں۔ مٹی کے آتش فشاں۔جن جو ان نام سے پہنچانے جاتے ہیں. ( چندرا گپ ) اور ( گار فشاں ) ۔جہاں ہر سال اپریل کے مہینے میں پاکستان بھر سے ہندو یاتری ہنگلاج ماتا کے مندر سے پا پیادہ 21 کلومیٹرز کی فاصلہ طے کر کے یاترا کرنے آتے ہیں . بیلہ سے آواران روڈ پہ قریباً 30 کلومیٹر کی فاصلہ طے کر کے بائیں ہاتھ شیریں فرہاد کا مزار بھی یہاں واقع ہے۔ اسی شہر میں محبت کی ایک اور عظیم لوک داستان کے لازوال کرداروں سسی پنوں کے مزارمحبت کی موجودگی بھی یہاں سے بتائی جاتی ہے۔ اندازاً 65 کلو میٹر کی فاصلہ پر سسی پنوں کا مزار بھی ادھر بتایا گیا ہے. یہاں سے آگے اگور کا علاقہ آتا ہے ۔ادھر سے ہی ایک کچا راستہ سپٹ بیچ تک جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ جادوئی ساحل ہے. کبھی زندگی میں موقع ملے تو یہاں ضرور رات ضرور گزاریں ۔ ادھر کا یہ سارا علاقہ ہنگول نیشنل پارک کی حدود میں اب شامل کرلیا گیا ہے۔ بائیں ہاتھ پہ سڑک کنارے ایک چھوٹی اور قدرے ہموار پہاڑی کے ساتھ ایک بورڈ آویزاں ہے جس میں انگریزی اور اردو زبان میں تحریر لکھی ہوئی ہے کہ فاتح سندھ محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں 712 ہنگول نیشنل پارک اگور. یہ مقبرے تیرہ سو سال بعد بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ ان مقبروں پر کی گئی کندہ کاری آج بھی دلکشی میں اپنی مثال آپ ہے . دائیں ہاتھ ایک ذیلی سڑک اندر پہاڑوں میں جاتی ہے۔ جو ہنگول دریا سے ہوتے ہوئے ہنگلاج مندر تک جاتی ہے۔ بنگلاج مندر پاکستان کا قدیم ترین مندر بتایا جاتا ہے۔ یہاں مورخین کی کتابوں میں درج ہے کہ دربار اکبری کے ٹوڈرمل اور شاہ عبداللطیف بھٹائی سمیت بے شمار شخصیات آ چکی ہیں۔ ادھر یہ بھی مشہور ہے کہ ہندو عاملوں اور جادوگروں کا علم یہاں کی یاترا کئے بنا مکمل نہیں ہوتا. پاکستان میں بنگول نیشنل پارک جو تقریبا 1650 کلومیٹر کے مربع کے طول و عرض پر یہ پھیلا ہوا ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا پارک ہے ۔جو بلوچستان کے تین اضلاع لسبیلہ ، گوادر اور آواران تک کی سرحدوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پارک میں سمندر، دریا، جنگل، پہاڑ، صحرا، طبی نباتات، معدنی ذخائر، چیتے، آئی بیکس، کوبرا سانپ، مگرمچھ، کچھوے، نایاب پرندے اور لاتعداد جنگلی حیات و نباتات اس پارک میں آتے ہیں . اور یہ تقریبا 653 کلومیٹر طویل شاہکار یہ کوسٹل ہائی وے جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنائی گئی تھی. اس کی وجہ سے ادھر سیاحت کے لیے آنے والوں کے لیے ایک نعمت کا درجہ رکھتی ہے. ۔جس کا اک بڑا حصہ اس ہنگول نیشنل پارک کے ان بولتے پہاڑوں کے دشوار گزار چٹانوں کو کاٹ کے بنایا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف لق و دق ریگستان ہے تو دوسری طرف گہرے اور گرم پانیوں کا بپھرا ہوا سمندر کی طوفانی لہریں اور تیسری طرف پہاڑ ہیں۔
قدرت کا اس سے بڑھ کر بھی حسین امتزاج کیا ہو سکتا ہے..ہنگلاج مندر سے قریباً 15 منٹ کی دوری پر بائیں ہاتھ کنڈ ملیر کا 110 کلو میٹر طویل خوبصورت ساحل اپنی طرف نہ جاتے ہوئے بھی متوجہ کرتا ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک قدرتی پہاڑوں پر ہزاروں سال سے ہوائیں ، بارش ، طوفان ، سورج کی بیکھرتی ہوئی روشنی سے بنی ہوئی ایک سے بڑھ کر ایک قدرتی تراشی ہوئی مورتی وغیرہ جیسے قدرت نے یہاں لگادیں ہیں بے شمار شاہکار سڑک کے ساتھ ساتھ گم ہوتے جاتے ہیں ۔ یک لخت اک موڑ کاٹتے ہی بائیں ہاتھ پر کنڈ ملیر کا نیلگو ( نیلا ) سمندر اپنی جھلک دکھلانے لگتا ہے، ۔سیاہ، سرمئی، سفید اور مٹیالے پہاڑوں کے حصارمیں۔۔۔چاندی جیسی ریت کی گود میں ۔نیلا سمندر، اور کراچی والوں کے لئے یہ بہترین تفریح گاہ کا نمونہ ہے۔ چھٹی کے دن یہاں کافی رش ہوجاتا ہے لوگ اپنی فیملیوں اور دوستوں کی ٹولیوں کے ساتھ ادھر آتے ہیں . یہاں کیمپنگ کے علاوہ ہوٹلوں کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ مگر پبلک واش ادھر بھی روانڈا کے کیمپوں کے پبلک واش رومز کا نظارہ پیش کرتے ہیں . دن میں بھی ان واش رومز میں رات کا نظارہ نمایاں نظر آتا ہے. صفائی ان پبلک واش رومز میں ایسی کہ لگتا ہے کہ گجر نالہ کی چھوٹی برانچ ادھر سے ہی گزرہی ہے. ایک صحت مند آدمی ان نجی پبلک واش رومز میں بیماری لیکر آتا ہے. اس لیے لوکل انتیظامیہ کو چاہیے ادھر بہترین واش رومز بنائے اور ان کی صفائی پر دھیان دے . اور جس طرح کی لوٹ مار ان گندے واش رومز پر بھی بڑی ڈھٹائی سے منہ پھاڑ کے لیتے ہیں. اس پر سوائے افسوس کے کچھ کر بھی نہیں کرسکتے . اگر لوکل انتیظامیہ ان ساحلوں پر عوام کے لیے اچھی اور صحت مند سہولیات فراہم کردے تو لوگ جو پاکستان کے شمالی علاقوں کے دشوار گزار سفر اتنا فاصلہ سفر طے کرکے صرف تفریح کے لیے جاتے ہیں وہ بھی ہر سال اس طرف کا رخ کرنے پر بضد ہونگے. کنڈ ملیر سے نکلتے ہی کچھ فاصلے پر ایک موڑ کراس کرتے ہی بائیں ہاتھ گولڈن بیچ کے نام سے ایک ساحل پٹی اپنی بہترین آب وتاب کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے. یہ ۔سنہرا ساحل اور اس کے سنہرے ساحل کی نیلگوں پانیوں کی سطح پر ڈولفن مچھلیوں کا جب وہ اپنی خوشی کا اظہار اپنے بہترین رقص سے کرتی ہوئی نظر آتیں ہیں . لوگ بے حد سکون سے اپنی فیملی کے ساتھ یہاں جا سکتے ہیں. کنڈ ملیر اور گولڈن بیچ ان دونوں کے ساحل اس وقت دنیا میں محفوظ ساحلوں میں ان کا شمار ہوتا ہے. یعنی یہاں کے ساحلوں پہ کم پانی ہوتا ہے۔ کافی دوور تک سمندر میں چہل قدمی کی جا سکتی ہے۔۔۔بچے بھی پانی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں . کیونکہ گہرے پانی کافی دُور جا کے آتے ہیں
اس علاقے میں دیکھنے والوں کو قدم قدم پہ پہاڑوں کے ساتھ قدرت کی فنکاری نظر آئے گی تو کہیں اطراف میں سربفلق پہاڑ تو کہیں تکونی پہاڑ تو کہیں کچھ مٹی کے اور کچھ ایسے نظر آئیں گے جیسے سیمنٹ سے بنائے ہوئے ہیں ۔ہلکے سرمئی تو کہیں سرمئی رنگ کی تراشی ہوئی قلموں جیسے پہاڑ ، کہیں برگدکی جڑوں کی مانن تو کہیں گھنے برگد جیسے پہاڑ تو کہیں زمین پہ لیٹے ہوئے محوِ استراحت پہاڑ تو کہیں آسمان سے سرگوشیاں کرتے تکونی چوٹیوں والی تراشی ہوئی قلموں جیسے پہاڑ تو کہیں غار نما پہاڑ جیسے مٹی کے بڑے سے پہاڑ میں لاتعداد چھوٹے بڑے سوراخ بنے ہوں۔ سرنگ نما ۔اور کہیں یوں ہو جاتے جیسے کسی نے بہت سی کنکریٹ کی قلمیں تراشی ہوں اور پھر انہیں ایک ساتھ باندھ کے گلدستہ بنا دیا ہو۔ اور اس گلدستے کے پیچھے قلعہ نما پہاڑ۔۔۔جس کی بیرونی دیوار کے پہاڑ یوں نظر آتے ہیں جیسے تراشے ہوئے بت ہوں ، مورتیوں جیسے پہاڑ، کچھ کہتے ہوئے، بولتے ہوئے، کچھ پیغام دیتے ہوئے پہاڑ، یہاں پہاڑوں کے سو روپ ہیں ، پہاڑوں کے ہزار رنگ ہیں یہاں ، مٹیالے، سفید ، سرمئی ، سیاہ ، اور ان پہاڑوں کے بیچ بل کھاتی سڑک ،ہر موڑ ایک گورکھ دھندہ ہے. امریکی اداکارہ انجلینا جولی نے اپنے 2002 کے دورہ پاکستان کے دوران یہاں سے گزرتے ہوئے اس گمنام شہزادی کو نام دیا۔ ( پرنسسز آف ہوپ ) یعنی امید کی شہزادی جو چغہ پہنے کھڑی ہوئی ہے۔ اور اس کے( ساتھ اک چبوترے پرابو الہول ہے. شیرِ بلوچستان ۔جس کا دھڑ شیر کی مانند ہے لیکن سر انسانی شکل کا ہے۔ اور وہ پہاڑوں کے چھوٹے قلعے پہ پوری شان سے بیٹھا ہے۔ چوکس و چوکنا کھڑا پہرے داری پہ مامور ہشیار باش۔۔۔اور تب سے ساری دنیا امید کی اس دیوی کو دیکھنے ہیں. اس شہزادی سے ملنے۔دیوانہ وار یہاں چلی آ رہی ہے۔ سمندری ہوائوں نے صدیوں میں ان پہاڑوں کو تراشا ہے۔ تب جا کے یہ حسن مجسم ہوا ہے ۔ تب کہیں یہ روپ لا وجود سے عالمِ وجود میں آیا ہے۔ یہ جادو نگری صدیوں کی کاری گری ہے ۔دستِ قدرت کا کمال ہے ۔مجسم معجزہ
اوربوزی پاس سے تقریبا گھنٹہ بھر کی نان سٹاپ مسافت پہ کوسٹل یارڈ نیوی کی چیک پوسٹ آتی ہے۔ پاکستان کوسٹ گارڈ، زیرو پوائنٹ اورماڑا چیک پوسٹ سے پہلے سڑک دو رخ پر ہوجاتی ہے۔۔۔دائیں ہاتھ والی گوادر جاتی ہے جبکہ بائیں ہاتھ کو ایک سڑک اورماڑا گائوں کی جانب نکلتی ہے۔ جہاں ساحل کنارے اپنے چند سو گھروں پہ مشتمل چھوٹے سے گائوں کے علاوہ پاک بحریہ کی بیس ہے اور یہاں ایک عدد نیوی کا کیڈٹ کالج بھی ہے. جہاں سمندر کے بیچ ایک جزیرہ ہے ۔جزیرہ ہفت تالار، ۔سات پہاڑیوں کا جزیرہ ، جہاں دو ساحل ملتے ہیں ۔راکی ساحل اور سینڈی ساحل . جہاں سات پتھریلی چوٹیاں ایک قطار میں ہیں۔ جہاں ساحل کنارے پر اسرار غاریں ہیں جن میں نہ جانے کون کون سے راز دفن ہیں۔ اور جس جزیرے پہ درخت نہیں ہیں بلکہ نایاب جھاڑیاں اور بیل بوٹے ہیں۔۔۔گوادر والی شاہراہ پہ سفر جاری رکھیں تو چیک پوسٹ کراس کرتے ہی دائیں ہاتھ اورماڑہ کا حسین ساحل نظر آتا ہے۔ شفاف نیلگوں سمندر۔ساحل پہ پھیلی سفید ریت ۔ اور صاف ستھرا طویل جادوئی ساحل۔۔۔اس ساحل پہ پہلا خیال یہی آتا ہے جیسے آپ آسٹریلیا کے کسی ساحل پہ آگئے ہوں. اورماڑہ ساحل اپنی خوبصورت اور دلفریب دلکش و منفرد محل وقوع سے مشہور ہے. اس شاہراہ کی بہت سی جہتیں ہیں۔ایک جہت سیاحت ہے۔لیکن بہ حیثیت سیاح ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان ساحلوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں اور انتیظامیہ شہری حکومت اور علاقہ کی انتیظامیہ ان ساحلی مقامات پر پبلک واش رومز تعمیر کرائے. اور دیگر لوگ سمندر سے کچرہ اور گندگی کو چننے میں لگے رہے. ساحلی علاقوں کو صاف کرنے کا سہرا ان نوجوانوں کے سر باندھے جو کراچی سے اپنی موٹر بائیک پر ویک اینڈ پر آتے ہی ساحلی مقامات کی صفائی میں لگ جاتے ہیں . اورماڑہ ساحل پر نیوی نے تو اپنے گیسٹ ہاؤس بنائے ہوئے ہیں. مگر عام پبلک کے لیے ان مقامات پر کوئی ایسے ریسٹ ہاؤس نہ ہونے کے برابر ہیں ، ایک عام آدمی ان کو افورڈ کرسکے. اور نہ ہی پبلک مقامات پر خوبصورت واش رومز نہ ہونے کہ برابر ہیں . پھر بھی کراچی کا نوجوان ساحلی مقامات پر ہر اوّل دستہ تیار بیٹھا ہے. کیونکہ کراچی کے ساحلی علاقے اب گندگی کا ڈھیر بنتے جارہے ہیں. اس لیے ان نوجوانوں کو میدان میں لایا گیا کہ. کہیں ان کا حال بھی کراچی کے ساحلوں جیسا ہی نہ ہو جائے. اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اس مجرمانہ غفلت کے لئے کبھی معاف نہیں کر پائیں گی۔
|