مکمل سوانحِ حیات محدث حضرت امام ابو حاتم محمد ابن حبان رضی اللہ عنہ ۲۷۵ھ ۳۵۴ھ تعارف و کنیت: اسم گرامی محمد،کنیت ابو حاتم اور لقب ابن حبان ولادت: آپ کی ولادت تقریباً ۲۷۸ھ میں خراسان کے مشہور شہر بست میں ہوئی یہ سر سبز و شاداب شہر غزنہ و ہرات کے درمیان واقع ہے جو انتہائی زرخیر خطہ ہے یہاں بڑے بڑے علماء و فضلاء پیدا ہوئے- حوالہ: کتاب:جرح و تعدیل،ص:۳۱۶،۳۱۷:مصنف: ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحٰق بسکو ہری،اشاعت،۱۴۲۳ھ،ناشر: الماس کالونی روڈ، مدینہ کالونی شاپ نمبر ۲،کوسہ ممبر،تھانہ ۴۰۰۶۱۲ تحصیلِ علم: امام ابن حبان رضی اللہ عنہ کو قدرت نے علم کے سر چشمے سے بھر دیا اور انہوں نے بست کی درسگاہوں میں حصول علم کا آغاز کیا اور جیسے جیسے آپ علم حاصل کرتے گئے آپ میں علم کی تشنگی بڑھتی گئی علم کے حصول کے خاطر آپ نے ہمیشہ سفر کیا علم میں آپ کی دلچسپی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ آپ اپنا وقت کبھی دوسری چیزوں میں ضائع نہ کرتے تھے آپ چاہے سفر میں ہو کہی بھی علمِ حصول کا شوق کی لگن آپ میں بڑھتی چلی گئی اور آپ نے بہت سے شہروں وغیرہ کا سفر کیا اور آپ نے اپنے مقصد کو ہمیشہ پورا کیا- حوالہ: کتاب:جرح و تعدیل،ص:۳۱۸،مصنف: ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحٰق بسکو ہری،اشاعت،۱۴۲۳ھ،ناشر: الماس کالونی روڈ، مدینہ کالونی شاپ نمبر ۲،کوسہ ممبر،تھانہ ۴۰۰۶۱۲ امام ابنِ حبان کا مسلک: اور امام ابن حبان رضی اللہ عنہ امام شافعی کے ہی مسلک پر تھے یعنی آپ کا مسلک شافعی تھا- فضل و کمال: امام ابن حبان نے علم حصول کے آخر بہت پریشانیوں کا سامنا کیا اور آپ نے بڑے بڑے علماء اور محدثین کرام سے علم حاصل کیا – آپ مختلف علوم میں مہارت رکھتے تھے علم کے میدان میں کوئی آپ جیسا نہ تھا علم الفقہ علوم الحدیث اور دیگر علوم میں آپ ماہر تسلیم کیے جاتے تھے- امام ابنِ حبان رضی اللہ عنہ کے شاگر: امام ابو عبد اللہ حاکم،امام دار قطنی،ابو عبد اللہ بن مندہ، منصور بن عبداللہ،جعفر بن شعیب بن محمد سمرقندی، حسن بن منصور، ابو سلمہ محمد بن داؤد و شافعی وغیرہ جیسے اہل علم و فضل ہیں- تصانیف: کتاب الصحابۃ، کتاب التابعین ، کتاب علل حدیث الزہری، کتاب علل مناقب ابی حنیفہ و مثالبہ، کتاب صحیح ابنِ حبان، کتاب حفظ اللسان، کتاب موقوف مارفع، کتاب الفصل و الوصل، کتاب وصف العلوم و انواعہا- امام ابنِ حبان کی احادیث مبارکہ: حدیث نمبر: ۱۲۴۱-۱۲۴۲ حدیث: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ , قَالَ : أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ ، قَالَتْ : أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ ، حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ عَلَىذ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَتَيَمَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ ، ثُمَّ بَكَى , فَقَالَ : بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ ، أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ : فَأَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَلِّمُ النَّاسَ , فَقَالَ : اجْلِسْ فَأَبَى ، فَقَالَ : اجْلِسْ فَأَبَى ، فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَتَرَكُوا عُمَرَ ، فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ إلى الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144 وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ ، فَمَا يُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا يَتْلُوهَا ترجمہ: ( جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہو گئی ) ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اترتے ہی مسجد میں تشریف لے گئے ۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم ﷺ کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی ) اور نبی کریم ﷺ کی طرف گئے ۔ حضور اکرم ﷺ کو برد حبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیا گیا تھا ۔ پھر آپ نے حضور ﷺ کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے ۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی ! اللہ تعالیٰ دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرے گا ۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سو آپ وفات پا چکے ۔ ابوسلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۔ آخر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہو گیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا ۔ آپ نے فرمایا امابعد ! اگر کوئی شخص تم میں سے محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ باقی رہنے والا ہے ۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں ۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے ” اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں “۔ الشاكرين تک ( آپ نے آیت تلاوت کی ) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے ۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی- حوالہ صحیح ابنِ حبان: حدیث:۶۶۲،ص:۳۸۴،۳۸۵ توضیح: میت کا چہرہ کھولنا جائز ہے جب کہ کوئی نا پسند چیز نہ ہو اسی طرح میت کو بوسا دینا بھی جائز ہے اور اس حدیث میں میت پر رونا بھی ثابت ہے جب کہ آواز بلند نہ ہو- اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا- پہلا جواب: جن لوگوں کا یہ ارادہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم دوبارہ زندہ ہو کر لوگوں کے ہاتھ کاٹ دیں گے اگر یہ بات صحیح ہوتی ہو آپ پر دوسری موت آتی اس لیے اللہ بہت شفقت فرمانے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم پر کہ آپ ہر دو موتوں کو جمع کرے- دوسرا جواب: یہ جو بات کہی جا رہی ہے یہ ان گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں جو جہاد وغیرہ سے اور وبائی امراض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ڈر کے اپنے گھروں سے باہر نکل گئے تو اللہ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے طفیل سے ان کو دوبارہ زندہ کیا اور پھر ان پرموت طاری کر دی- تیسرا جواب: کہ جس طرح لوگوں کو موت کے بعد ان کی قبروں میں سوالات و جوابات کے لیے زندہ کیا جاتا ہے پھر موت طاری کر دی جاتی ہے ویسے اللہ پاک اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا- چوتھا جواب: ایک بار تو حضور علیہ الصلوٰۃ و سلام نے موت کے وقت نزع کی حالت میں تکلیف برداشت کر لی تو وہ تکلیف آپ کو بھی نہیں آئے گی- پانچواں جواب: کہ اللہ پاک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم پر دو موتوں کو اس طرح جمع نہیں کرے گا کہ آپ کے نفس پر موت آئے یا آپ کے ظاہری وجود یعنی شریعت پر موت آئے- ان تمام باتوں کے اعتراض کا جواب قلمبند کیا ہے: کہ یہاں جمہور علماء مفسرین کے نزدیک پہلی موت سے مراد نطفہ ہے جو باپ کی پشت میں ہوتا ہے اور دوسری موت سے مراد جس کا وقت مقرر ہے تو یہاں اس کا جواب یہ ہے کہ جو حدیث میں تعارض نہیں ہے کیونکہ یہاں دنیا کی زندگی مراد ہے اور دوسری ہمیشگی والی زندگی مراد ہے- نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر میں دائمی حیات پر اعتراضات کے جوابات: کہ حدیث میں بعض گمراہ فرقے ابو بکر صدیق رضی اللہ کے قول پر اعتراض کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذ اللہ زندہ نہیں ہے آپ قبر حیات میں معاذ اللہ مردہ ہیں اور دنیا میں گمراہ فرقے جتنے بھی ہیں وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن بڑے بڑے اشتہارات لگا کر لوگوں کو یہ اعلان کرتے ہیں کہ آپ زندہ نہیں ہیں- اعتراض کا جواب: حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں- کہ یہ کہا جائے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں ان کو کبھی موت نہیں آئے گی اور وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ تمام انبیاء کرام علیہم الرضوان اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں تو اس سے ثابت ہوا کہ جب انبیاء کرام علیہم الرضوان اپنی قبروں میں حیات ہیں تو با درجے اولیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام بھی اپنی قبرِ مبارک میں دائماً حیات ہیں- روایت میں ہے کہ انبیاء کرام علیہم الرضوان اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور وہ اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں- استدلال: کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر مبارک میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا- شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں- قول: حیاتِ انبیاء متفق علیہ یعنی اس بات میں سب کا اتفاق ہے اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے- آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے اجسام کھانے کو زمین پر حرام کر دیا ہے- نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر میں دائمی حیات کے متعلق فقہاء کرام کے دلائل: محققین کے نزدیک: نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں آپ کو رزق بھی دیا جاتا ہے اور آپ تمام عبادات کے ساتھ نفع پاتے ہیں لیکن مومنوں کے علاؤہ باقی لوگوں یعنی بینوں کی نظروں سے آپ حجاب میں ہیں اگر ان کی بصیرت یعنی دل کی آنکھ بیدار ہوجائے تو آپ ان کے نظروں میں آپ حجاب میں نہیں ہیں- صدر الشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی متوفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:- انبیاء کرام علیہم الرضوان اپنی قبروں میں زندہ ہیں کھاتے پیتے ہیں جہاں چاہتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں اور ان کو رزق بھی دیا جاتا ہے کہ ان کی حیات شہداء سے بلند و بالا ہے کہ انبیاء کا مرتبہ شہداء سے زیادہ ہے۔ :نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی قبر میں دائمی حیات کے متعلق علماء دیوبند کا موقف: نبی کریم کی حیات زائل نہ ہوگی جب کہ عام مومنین مسلمان کی حیات سار ی یا آدھی زائل ہو جائے گی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چراغ کی مثل ہیں جس طرح ایک برتن میں چراغ جلا جائے اور اس پر ایک ڈھانپنے والی چیز رکھ دی جائےتو جس طرح اس چراغ کی روشنی اُسی برتن میں محدود ہو کر ختم ہو جائے گی اور اس کی روشنی بھی بلکل نہیں رہتی اسی طریقے سے انہوں نے مومنین کی مثال کو چاند کی مثال دے کر بیان کیا ہے کہ جب چاند گرہن ہوتا ہے تو اُس کی روشنی زائل ہو جاتی ہے کہ جب زمین گردش کرتے ہوئے آفتاب کے سامنے آجاتی ہے تو کچھ حصہ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے تو ان لوگوں نے موقف یہ ہے کہ عام مومنین کا نور زائل ہو جاتا ہے اور نبی کریم کا نور بلکل نہیں رہتا- جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جو کہہ رہے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور بلکل نہیں رہتا ختم ہو جاتا ہے اور عام مسلمان کا نور زائل ہو جاتا ہے پہلی بات یہ کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورُ البشر ہیں کیونکہ اَنا مِنْ نورِ اللہِ تعالیٰ و کُلُّ خَلَائقِ مِنْ نُوْرِی ترجمہ: کہ بیشک میں اللہ پاک کے نور سے ہوں اور تمام مخلوقات میرے نور سے ہے- تو اس سے ثابت ہوا کہ تمام مومنین میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نور جلوہ گر ہے جب مومنین کا نور زائل نہیں ہوتا تو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نور کسیے زائل ہو سکتا ہے کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: "اَوَّلُ مَا خَلَقَ الله نُوْری" ترجمہ: سب سے پہلے اللہ پاک نے میرے نور کو پیدا فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ تمام آدم علیہ السلام سے لے کر آخری امت کے دلوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نور جلوہ گر ہے- اور آپ کی حیاتِ طیبہ کو کبھی زوال نہیں آسکتا- کیونکہ آپ اپنی حیات مبارکہ کے ساتھ دنیا و آخرت میں زندہ ہیں- "انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں انہیں رزق دیا جاتا ہے-" قرآن مجید کی روشنی میں حیاتِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ثبوت: استدلال بالقرآن: آیتِ مبارکہ: تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَمْوَاتٌ ۚ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔ (حوالہ: سورۃ البقرہ، آیت نمبر:۱۵۴) اس سے معلوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہیں اور شہید زندہ ہوتے ہیں بلکہ آپ افضل الشہداء ہیں آپ کی حیاتِ طیبہ شہداء سے بھی افضل ہے- استدلال بالقرآن: آیت مبارکہ: وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّةً وَّّسَطًا لِّتَكُـوْنُـوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ترجمہ: اور ہم نے اسی طرح تمھیں افضل اُمت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائیں- حوالہ: (سورۃ البقرہ:۱۴۳) اس سے ثابت ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم تمام امت کے اعمال کو ملاحظہ فرماتے ہیں اور تمام اعمال پر مطلع بھی ہیں اور گواہی دینا تو حیات کے بعد ممکن ہی نہیں تو اس کا مطلب آپ اپنی قبرِ مبارک میں حیات ہیں- قرآن مجید کی رو سے یہ ثابت ہوگیا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں- اور انبیاء کرام علیہم الرضوان کی حیات کا بھی احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الرضوان کہ وہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں لیکن وہ زندہ ہیں کہ انبیاء کرام کو کوئی نہیں دیکھ سکتا سوائے اولیاء اللہ کے کہ اللہ پاک نے اولیاء اللہ کو وہ بصیرت عطا فرمائی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے کرم سے دیکھ لیتے ہیں- وفات: آپ کی وفات۲۴/شوال ۳۵۴ھ میں بمقام بست ہوئی اور اپنے مکان کے قریب ایک چبوترہ میں دفن کیے گئے- حوالہ: کتاب، بستان المحدثین،ص:۱۱۱: مصنف:امام الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی،طباعت، ربیع الثانی ۱۴۳۷ھ
|