چین اور افریقی یونین کی جی20 میں شمولیت

جی 20 کی حالیہ سمٹ میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جب گروپ میں پہلی مرتبہ توسیع کے بعد افریقی یونین کو مستقل رکنیت دے دی گئی ہے ، جس سے عالمی سطح پر افریقہ کی آواز کو بڑھانے میں نمایاں مدد ملے گی۔ افریقی یونین براعظم افریقہ کے تمام ممالک کی نمائندگی کرتی ہے ، جو دنیا کی آبادی کا تقریباً 18 فیصد اور عالمی زمینی رقبے کا 20 فیصد ہے۔دیکھا جائے تو اس میں چین کا ایک کلیدی کردار رہا ہے، کیونکہ چین وہ پہلا ملک تھا جس نے واضح طور پر جی 20 میں افریقی یونین کی رکنیت کے لئے اپنی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ابھی گزشتہ ماہ ہی چین افریقی رہنماؤں کے ڈائیلاگ میں چین نے ایک بار پھر افریقی یونین کو جی 20 کا مکمل رکن بنانے کے لیے اپنی مضبوط حمایت پر زور دیا تھا۔چین کا ماننا ہے کہ ، چین اور افریقی یونین ہم نصیب سماج کی تعمیر اور بین الاقوامی شفافیت اور انصاف کے تحفظ میں اہم شراکت دار ہیں، چین عالمی گورننس میں بڑا کردار ادا کرنے میں افریقی یونین کی حمایت کرتا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ چین نے جی 20 سمیت تمام اہم عالمی و علاقائی پلیٹ فارمز پر ہمیشہ ترقی پزیر ممالک کے حقوق کی آواز بلند کی ہے۔ ستمبر 2013 میں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں منعقدہ جی 20 سربراہ اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کے دوران چینی صدرشی جن پھنگ نے تجارتی تحفظ پسندی کی مخالفت اور ایسی کھلی عالمی معیشت کی حمایت کی تھی جس میں دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک وسیع پیمانے پر مستفید ہو سکیں۔انہوں نے متنبہ کیا کہ "صرف کھڑکی کھولنے سے ہی ہوا گردش کر سکتی ہے، اور تازہ ہوا اندر آ سکتی ہے، تحفظ پسندی اور تجارتی اقدامات کا غلط استعمال دو دھاری تلوار ہوگی۔اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جی 20 ایک آزاد اور کھلا عالمی تجارتی ماحول پیدا کرنے اور بین الاقوامی تجارت کی لبرلائزیشن اور سہولت کاری کو فروغ دینے کے لئے پرعزم ہے ، شی جن پھنگ نے ممبران پر زور دیا کہ وہ بات چیت اور مشاورت کے ذریعہ تجارتی تنازعات سے مناسب طریقے سے نمٹیں۔ترقی پزیر ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "کچھ ترقی یافتہ ممالک کو ہائی ٹیک مصنوعات کی برآمدات پر غیر معقول پابندیوں کو منسوخ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد بھی چینی صدر نے جی 20 سربراہ اجلاسوں میں اپنی تقاریر کے دوران بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کی اصطلاح کو بار بار اجاگر کیا ہے، جس کا ایک بڑا مقصد دنیا کی توجہ ترقی پزیر ممالک کی جانب مبذول کروانا رہا ہے۔ہانگ چو سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شی جن پھنگ نے کہا کہ اقتصادی گلوبلائزیشن کے دور میں کوئی بھی خطہ باقی دنیا سے مکمل طور پر کٹا ہوا نہیں ہے۔گلوبل ولیج کے ممبروں کی حیثیت سے، ہمیں ایک ایسی کمیونٹی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کا مستقبل مشترکہ ہو۔ جولائی 2017 میں جی 20 ہیمبرگ سربراہ اجلاس میں ، انہوں نے مشترکہ خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لئے تعاون کے پلوں کی تعمیر کی اہمیت کا اعادہ کیا، جس کا نتیجہ آج جی 20 میں افریقی یونین کی مستقل رکنیت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
وسیع تناظر میں چین نے ہمیشہ جی 20 سربراہ اجلاسوں کے موقع پر ترقی کے حصول کے نئے طریقے تلاش کرنے اور ترقی کے معیار اور کارکردگی پر زیادہ توجہ دینے کی کوششوں پر زور دیا ہے۔چین کہتا ہے کہ ہمیں مالی پالیسیوں، ٹیکس، فنانس، سرمایہ کاری، مسابقت، تجارت اور روزگار میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنی چاہئیں، اور میکرو اکنامک پالیسیوں کو سماجی پالیسیوں کے ساتھ جوڑنا چاہئے تاکہ دولت کی تخلیق کے لئے رفتار پیدا کی جاسکے، مارکیٹ کی طاقت کو آزاد کیا جاسکے، اور گردشی بحالی سے پائیدار ترقی کی طرف منتقلی پر زور دیا جاسکے۔چین کا موقف ہے کہ جی 20 کے تمام ارکان بڑی معیشتیں ہیں اور انہیں فطری طور پر عالمی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں اٹھانی چاہئیں۔جی 20 کو میکرو اکنامک پالیسی مواصلات اور کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانا چاہئے، اصلاحات اور جدت طرازی کو فروغ دینا چاہئے اور ایک کھلی عالمی معیشت کی تعمیر کرنی چاہئے۔
اسی موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے حالیہ جی 20 سمٹ کے دوران چینی وزیر اعظم لی چھیانگ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جی 20 کو تقسیم کے بجائے اتحاد، تصادم کے بجائے تعاون اور شمولیت کی ضرورت ہے۔انہوں نے جی 20 ارکان پر زور دیا کہ وہ اتحاد اور تعاون کی اصل خواہش پر قائم رہیں اور امن اور ترقی کے لئے وقت کی ذمہ داری اٹھائیں ۔لی چھیانگ نے کہا کہ جی 20 کے ارکان کو عالمی اقتصادی بحالی، عالمی کھلے تعاون اور عالمی پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں شراکت دار بننا چاہئے۔عالمی ترقی کے لئے نئے محرکات پیدا کرنے اور تمام ممالک کی مشترکہ ترقی اور خوشحالی کو آسان بنانے کے مقصد سے ، چین نے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی) کی تجویز پیش کی ہے ، جو عالمی ترقی کو فروغ دینے کے لئے چینی حل فراہم کرتا ہے۔چین کا یہ تصور بڑا واضح ہے کہ ہمیں حکومتوں، کاروباری برادریوں، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹیوں کے ترقیاتی وسائل کو مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے، اور وسائل کی تقسیم اور ترقی پذیر ممالک کی مجموعی ترقی کی سطح کو بہتر بنانے کے لئے ان کی تقابلی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔چین تمام فورمز پر برملا یہ کہتا ہے کہ عالمی گورننس نظام میں اصلاحات کے نئے دور میں، ہمیں ترقی پزیر ممالک کی آواز اور نمائندگی کو بڑھانے اور مشترکہ مفادات کے تحفظ کی ضرورت ہے ، تب ہی ایک پائیدار اور مستحکم دنیا کا قیام ممکن ہے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1330 Articles with 619217 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More