گوادر٬ ریکوڈک اور بین الاقوامی ٹھگ

شیخ شرف الدین سعدی ؒایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک درویش جنگل میں سفر کررہا تھا اسے ایک جگہ ایک گنجی لومڑی دکھائی دی جو بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنی ایک جھاڑی کے پاس پڑی تھی درویش کو خیال آیا کہ یہ بیچاری نہ شکار کرنے کے قابل ہے اور نہ کہیں آنے جانے کے یہ اپنا پیٹ کیسے بھرتی ہوگی ابھی درویش یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک شیر گیڈر کو منہ میں دبائے وہاں آیا لومڑی کے پاس رک کر اس نے اس شکار میں سے کچھ کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کر چلاگیا اس لومڑی نے اس شکار سے اپنا پیٹ بھرا درویش نے اسے اتفاق سمجھا لیکن جب دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا تو درویش کو پورا یقین ہوگیا کہ اس معذور لومڑی رزق پہنچانے کا یہ انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس نے دل میں فیصلہ کیا کہ میں بھی اب روزی حاصل کرنے کے لیے کوشش اور جستجو نہ کروں گا یہ فیصلہ کرکے وہ ایک جگہ اطیمنان سے بیٹھ گیا درویش کو پختہ یقین تھا کہ مجھے بھی کہیں نہ کہیں سے کھانے پینے کی چیزیں پہنچائی جائیں گی لیکن کئی وقت گزر گئے اور اس کے پاس کوئی نہ آیا بھوک کی شدت سے وہ نڈھال ہوگیا گھبراہٹ پید اہوئی اور اسی پریشانی کے عالم میں مسجد کے محراب سے ایک آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی ”اے کم ہمت درویش تو گنجی لومڑی بننا چاہتا ہے تجھے چاہیے کہ تو شیر بنے اپنا شکار خود مارے اور اس میں سے دوسروں کو بھی کھلائے “شیخ سعدی ؒ نے اس حکایت میں حصول رزق کے سلسلہ میں صحیح اسلامی نقطہ نظر بتایا ہے اور توکل کی حقیقت سے آشنا کیا ہے ۔شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ رزق کا ذمہ رزاق حقیقی نے لیا ہے اور جو جاندار رزق حاصل کرنے کے لیے زرائع اور وسائل سے محروم ہیں انہیں بغیر کسی ذاتی کوشش کے لازمی طور پر رزق دیا جاتاہے لیکن جن کے پاس یہ وسائل موجودہیں انہیں خود کوشش کرنی چاہیے اگر وہ ایسا نہ کریں تو کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوں گے ہاتھ پیر عقل زبان اور آنکھیں سب اللہ کی بہترین نعمتیں ہیں اور ان سے کام نہ لینا سخت ناشکری ہے ۔۔۔

قارئین پاکستان دنیا کے ان کے چند ممالک میں شامل ہے جسے قدرت نے ہر طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے سمندر ،دریا ،پہاڑ ،صحرا،میدان اور ہر طرح کے جغرافیائی وسائل پاکستان میں بکثرت موجودہ ہیں دنیا کی بلندترین چوٹیاں پاکستان میں موجودہیں کے ۔ٹو سے لے کر قراقرم تک وہ برف پوش پہاڑ اور گلیشئر پاکستان میں موجودہیں جو ارضیاتی نظام کو قائم رکھنے میں ممد ثابت ہوتے ہیں ،بلوچستان سے لیکر صوبہ سندھ تک پاکستان کے پا س بہت بڑے سمندری ساحل موجودہیں جو بحری تجارت کے لیے موزوں ترین تجارتی راستوں کی دولت رکھتے ہیں انہی سمندر وں میں کھربوں روپے کی مالیت کے قدرتی خزانے موجودہیں ،بلوچستان میں سنگلاح چٹانوں کے اندر تیل ،گیس ،سونا ،چاندی سے لیکر ہر دھات موجودہے ،پاکستان کے صحراﺅں میں کرومائیٹ سے لیکر نکل تک ہر دھات بکثرت موجودہے اور سونا ایک بہت مقدار میں ان صحراﺅں بکھرا پڑا ہے ،پاکستان سے بہنے والے دریا اور ان سے نکلنے والی نہریں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام کہلاتی ہیں پاکستان کے چاروں صوبوں اور کشمیر میں قدرت نے ہر طرح کے موسم فیاضی کے ساتھ عنایت کیے ہیں یہاں برف باری بھی ہوتی ہے ،سردی بھی پڑتی ہے ،موسم گرما بھی موجودہے ،بہار کا موسم پھولوں کے چٹکنے اور خوشبوﺅں کے بکھرنے کا پیغام لے کر آتاہے ،یہاں موسم برسات کی صورت میں وہ رومانویت بھی موجودہے کہ جس کا تذکرہ ادیب اور شاعر اپنے افسانوں اور شاعری میں کرتے ہیں ،یہاں خزاں کی صورت میں وہ مختصر پل بھی آتے ہیں کہ جو فضاﺅں او رماحول کو کچھ عرصے کی زردی دے کر دوبارہ بہار کی طرف رجوع کرجاتے ہیں ۔

قارئین اس سب افسانوی سی تمہید کا مقصداللہ کی ان سب نعمتوں کی طرف اپنی اور آپ کی توجہ مبذول کراناہے جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نواز رکھاہے
”اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاﺅ گے “

ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایک گنجی لومڑی کی طرح معذور بن کر پانچ آزادیوں کے علمبردار امریکہ اور برطانیہ سے لے کر دنیا کی ہر خوشحال قوم کے آگے ایک فقیر بن کر گھوم رہے ہیں اور ایک شیر کی طرح غیر ت والی زندگی گزارنا بھول گئے ہیں آج دنیا کے سب سے زیادہ وسائل رکھنے کے باوجودہمیں دنیا کی پسماندہ ترین اقوام کی فہرست اول میں رکھ دیا گیا ہے اور پاکستان کو ان قوموں میں شمار کرلیاگیا ہے جو جھوٹی ،فراڈ ،محنت کرنے سے جی چرانے والے اور مانگ کر گزار ہ کرنے والے لوگ ہیں ۔

قارئین ان سب باتوں کا مورد الزام اگر ھم ٹھہرانا چاہیں تو سب سے پہلے اپنے ہی گریبان میں جھانکنا ہوگا آخر ہم نے گزشتہ 64سالوں کے دوران قیادت کے انتخاب میں اتنی غلطیاں کیو ں کیں کہ آج پاکستان کی سیاسی حکومت پر دنیا کی کوئی بھی قوم اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ہماری سیاسی حکومت دراصل ہماری ہی قوم کی اخلاقیات کی عکاس ہے ۔

قارئین آج کے کالم کا جو اصل موضوع ہے اب ہم اس کی طرف آتے ہیں جس کے لیے یہ سب تمہید باندھی گئی ۔

انٹرنیشنل جیالوجیکل رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ریکوڈک اور دیگر پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں دنیا کے سب سے بڑے معدنی زخائر موجودہیں ان معدنیات میں سونا ،چاندی،تانبا اور دیگر قیمتی دھاتیں شامل ہیں اسی طرح سپیس ٹیکنالوجی کواستعمال کرتے ہوئے مختلف اداروں نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے زخائر بلوچستان اور سندھ میں موجودہیں ۔

قارئین اب ہم گوادر کی طرف چلتے ہیں جب عوامی جمہوریہ چین نے پاکستان کو گوادر پورٹ بناکردی تو دنیا کے تمام معاشی ماہرین نے یہ مشترکہ پیش گوئی کی تھی کہ یہ بندرگاہ پاکستان کو ہانگ کانگ بنادے گی اور بہت بڑے پیمانے پر سمندری تجارت اس خطے سے پاکستان منتقل ہوجائے گی اس وقت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی ،خود کش دھماکوں ،فوج کے خلاف سازشوں ،بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے ڈانڈے اب اس تناظر میں دیکھے جائیں تو ہمیں ”بین الاقوامی ٹھگوں کا ایک ٹولہ “نظر آئے گا جو پانچ آزادیوں کے علمبردار انکل سام کی قیادت میں نیٹو فورسز کے پرچم تلے پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کی سرزمین پر موجودہے افغانستان تو ایک بہانہ ہے پاکستان اصلی نشانہ ہے یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کے علم میں ہے اور خداجانے وہ اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا تیاریاں کیے ہوئے ہیں امریکہ کی یہ خصلت رہی ہے کہ وہ تجارتی اجارہ داری سے لے کر پوری دنیا کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کبھی بھی طاقت کا استعمال کرنے سے باز نہیں آیا اور لاکھوں انسانوں کا خون امریکہ کے سرہے پاکستان کے خلاف سازشوں کے دو مقاصد ہیں ایک مقصدتو کھلی کتاب کی طرح عیاںہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثہ جات پر قبضہ کیاجائے جبکہ دوسرا مقصدپاکستان کو ان قدرتی دولتوں سے محروم کرنا ہے بقول غالب
کہتے ہونہ دیں گے ہم ،دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجئے؟ہم نے مدّعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی ،درد بے دوا پایا
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا ،تم نے بارہا پایا
شورِ پند ناصح نے زخم پرنمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

قارئین ہماری آج کی اس سب داستان طرازی کا مقصدزخموں پر نمک چھڑکناہر گز نہیں ہے بلکہ اپنے ہم وطنوں کو جگانا ہے ہم شیر کی طرح عزت اور غیرت کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں لیکن ہم سے پہلے اپنے قائدین کا انتخاب کرتے ہوئے عقل سے کام لینا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے اپنے زور بازوپر بھروسہ کرتے ہوئے کشکول کو توڑنا ہوگا اسی میں ہماری بقا اور اسی میں ہماری ترقی کا راز پوشیدہ ہے

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک دوا فروش ہجوم میں اپنی دوا کی تعریف کررہاتھا اس نے کہا حضرات میں یہ دوائی بیس سال سے فروخت کررہاہوں اور یقین کریں آج تک کسی نے شکایت نہیں کی
ہجوم میں سے ایک آواز آئی
”جی ہاں مردے شکایت نہیں کرتے “

قارئین امریکہ اور اس کے حواری آج تک ترقی انساں کے نام پر جو قتل عام کرچکے ہیں اس پر لاکھوں روحیں آج بھی مضطرب ہیں اور اگر ہم بھی نہ جاگے تو یقین رکھیے کہ ہم بھی چلتی پھرتی لاشیں ہیں ۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 340168 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More