آخرکار بلی تھیلے سے باہر آہی
گئی۔امریکہ طویل عرصے سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کا مطالبہ
کرتا آرہا ہے مگر افواج پاکستان کے جری کمانڈر کیانی نے ملکی مفادات کے
تناظر میں اس مطالبے کو یکسر مسترد کردیا۔ امریکی پاکستان کو کبھی ڈومور کے
بھدے گیت سے رام کرنے کی اداکاری کرتا رہا تو کبھی ایٹمی اثاثوں کا ہوا
دکھا کر انڈر پریشر کرتا رہا۔لادن کی ہلاکت کے بعد دونوں حلیفوں کے تعلقات
میں تناؤ ہیجان انگیزی والی صورتحال در آئی۔امریکہ کے پے درپے مطالبات کو
یکسر رد کرنے کے بعد امریکی حکام دھمکیوں اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے۔امریکی
وزیر دفاع سابق چیف سی آئی اے لیون پینٹا نے پاکستان کے خلاف زہر اگلتے
ہوئے دھمکی دی کہ اسلام آباد حقانی نیٹ ورک کو توڑنے میں ناکام رہا۔پاکستان
دہشت گردی کو روکنے کے اہداف پورے نہیں کرپایا۔یوں اسکے خلاف اتحادی فوجی
کاروائی کرسکتے ہیں۔ لیون پینٹا زبان درازی کے فوری بعد امریکی نائب صدر
جوہائیڈن نے ٹی وی شو میں جگالی کی پاکستان امریکہ کا ناقابل اعتبار اتحادی
ہے۔بہت سارے معاملات میں اسلام آباد کا تعاون ناکافی تھا جسکی وجہ سے ہمارے
فوجی مارے جارہے ہیں۔ نائب صدر نے پاکستان کو ناقابل اتحادی کا طعنہ دیکر
مزید تعاون کا مطالبہ کیا جس کا وزیردفاع لیون پینٹا کے بیان کی روشنی میں
واضح مطمع نظر یہ ہے کہ اگر پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور شمالی وزیرستان
میں عسکریت پسندوں کے خاتمے کی فوجی کاروائی نہ کی تو پھر اتحادی پاکستان
کے خلاف جارہانہ جنگی آپریشن کرسکتے ہیں۔پاک افغان امور کے ماہرین نے تجزیہ
کیا جس میں کہا گیا ہے امریکی عہدیداروں کے ڈریکولائی بیانات کابل میں ناٹو
ہیڈ کوارٹر اور امریکن ایمبیسی پر طالبان حملوں کا رد عمل ہیں مگر بیانات
کی تلخی وقت کا انتخاب اور الفاظ کی ہیت سے امریکی نیت کا فتور الم نشرح ہے
اور یہ اسی سکیم کا حصہ ہے جو امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کی گئی
رپورٹس اور اسلام آباد پر دباؤ ڈالنے کے لئے مہینوں سے جاری ہے۔ناٹو ہیڈ
کوارٹر پر طالبان کی یلغار سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ2014 میں امریکی
فورسز کے اعلان انخلا کے بعد ناٹو کی گرفت ڈھیلی پڑی ہے۔بیکن نے کہا تھا
حقیقت اور سچ کا اعتراف ہمیں دولت کے انبار تو نہیں دیتا مگر یہ ہمارے
منجمد ضمیروں میں سچ کا ارتعاش ضرور پیدا کرتا ہے جو خوشگوار ماحول اور امن
و امان کی طرف راغب کرتا ہے مگر یہ وہ متضاد صورتحال ہے جسکا اعتراف ناٹو
اور امریکہ کبھی نہیں کرسکتے۔لگتا ہے امریکی اپنی ناکامیوں اور شکست کا
ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ امریکہ کی جنگی ہسٹری بتاتی ہے کہ وہ شکست
تسلیم کرنے کی بجائے مددگار دوستوں کو روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ویت
نام میں زلت انگیز شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے پڑوسی ممالک میں تباہی
مچائی گئی اور اب امریکہ شکست کا داغ دھونے کے لئے پاکستان کو قربانی کا
بکرا بنانا چاہتا ہے۔ آجکل سپین کے شہر سیوائل میں نیٹو آرمی چیفس کانفرنس
جاری ہے۔ آرمی چیف کیانی نے شرکا ئے کانفرنس سے خطاب کے دروان کھری کھری
باتیں کیں انکا کہنا تھا پاکستان نے وار ان ٹیررزم میں سب سے زیادہ
قربانیاں دیں۔کیانی نے نیٹو آرمی چیف کو مخاطب کیا کہ دہشت گردی کے خلاف
معرکہ آرائی جاری رہے گی۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ شمالی وزیرستان یا دھرتی
کے کسی حصے میں فوجی کاروائی اور حکمت عملی کی تشکیل کا فیصلہ اپنی خود
مختیاری اور ملکی مفادات کی روشنی میں کریں۔ نیٹو چیفس کانفرنس میں آرمی
چیف کیانی کی تقریر پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے جو ریلیز جاری کیا میں
حقانی نیٹ ورک کا نام لیکر کوئی بات شامل نہیں مگر کیانی کی باڈی لینگوئج
سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی صورت میں شمالی وزیرستان اور حقانی
نیٹ ورک کے خلاف فوجی آپریشن نہیں کرسکتے۔پاکستان نے امریکی سفیر کیمرون
منتر نے ریڈیو پاکستان سے بات کرتے ہوئے انہی شعلہ فروزاں جذبات کا اظہار
کیا جو پیشتر لیون پینتا اور جوہائیڈن نائب صدر پاکستان پر براہ راست
جارہیت کرنے کی دھمکیوں کے اعلان پر کیا تھا۔ کیمرون نے شعلہ نوائی کی کہ13
ستمبر کو کابل میں ناٹو ہیڈکوارٹر اور امریکن ایمبیسی پر حقانی نیٹ ورک کے
جنگجووں نے کیا جسکے واضح ثبوت ہیں۔ ان حملوں میں بارہ سورما مارے گئے تھے۔
پینٹاگون سے جاری ہونے والے اعلان میں بغض معاویہ شامل ہے کہ امن الظواہری
پاکستان میں چھپا ہوا ہے۔لیون پینٹا اور جوہائیڈن کے بیانات کو وقت کی
نزاکت کے تناظر میں آسان سمجھنا درست نہ ہوگا۔عسکری اور حکومتی قیادت کو ان
بیانات میں چھپے ہوئے امکانات خدشات اور تحفظات پر غور کرکے پالیسی بنانی
چاہیے۔امریکہ کے ناپاک عزائم اور وزیردفاع اور نائب صدر کے خونخوار بیانات
کی صداقت کا اندازہ سپین میں آرمی چیف کیانی اور امریکی کمانڈر مائیک مولن
کے مابین ہونے والی ملاقات میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کے
امریکی مطالبات کی ساخت و پرداخت سے کی جاسکتی ہے۔امریکہ نے ممکنہ مہم جوئی
کا پیغام دے دیا ہے۔ریاست کے تمام اداروں کو متوقع مہم جوئی کے پیش نظر
تمام دفاعی عسکری حفاظتی اقدامات کرنے ہونگے۔ امریکی دھمکیوں کے جوابی
حملوں میں آرمی چیف کیانی نے جو میزائل برسائے کی ہئیت سے یہ بات تو روز
روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ افواج پاکستان امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے
کے موڈ میں نہیں۔دونوں پاک امریکہ تعلقات میں جو خلا پیدا ہوچکا ہے وہ جلد
بھرنے کے امکانات سے مبرا ہے۔دوسری طرف یہ امر بھی لازم ہے کہ پاکستان کا
حکومتی سیاسی اور عسکری نظم کسی امریکی دھمکی سے مرعوب نہ ہو ۔امریکی
ایجنسیاں سیاسی و دینی جماعتوں میں کشا کش فسق و فجور کو بڑھاوا دینے کی
کوششیں کررہی ہیں جس کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے سیاسی حکومتی قائدین
مذہبی راہنماؤں میں باہمی ہم آہنگی کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ قوم
پاکستان استعماریت کو شکست دینے کے لئے افواج اور حکومت کے ہاتھ مضبوط
کریں۔افغانستان میں ناٹو ہیڈ کوارٹر اور امریکن ایمبیسی کی پول پروف
سیکیورٹی کو جل دیکر طالبان حملوں میں افغان قوم کے مستقبل کی جھلک نظر اتی
ہے کہ ناٹو اور امریکہ دس سال بعد شکست کے دہانے پہنچ چکے ہیں۔ امریکی سفیر
کیمرون کی بوکھلاہٹ اور اعلٰی امریکی عہدیداروں کے دھمکی آنگیز بیانات کے
ایک ایک حرف سے یہ سچائی سامنے آتی ہے کہ امریکہ کو کابل میں فوجی مایوسی
کا سامنا ہے۔بہتر یہی ہوگا کہ ناٹو اور امریکہ جلد از جلد افغانستان چھوڑ
دیں ورنہ ایک ہولناک شکست برق رفتاری سے انکا تعاقب کررہی ہے اور یہ ایسی
سفاک شکست ہے جو شکست یافتہ افواج کو ایک اور جنگ لڑنے کے قابل نہیں
چھوڑتی۔ |