جدید سائنس کے بابا آدم نیوٹن کا تیسرا قانون پہلے دو سے زیادہ مشہور ہے کیونکہ سماجیات میں بھی وہ منطبق ہوجاتا ہے۔ اس قانون کی روُ سے ہر عمل کا مساوی اور مخالف ردعمل ہوتا ہے۔ اترپردیش میں ایک پرنسپل نے مسلمان لڑکے کی دیگر طلبا سے مذہب کا نام لے کرتھپڑ لگوائے ۔ اس مذموم سانحہ پر یوگی سرکار اپنا فرض منصبی بھول کر مظلوم کے بجائے ظالم کو بچانے میں جٹ گئی۔ اس کے اس غلیظ عمل کا سپریم کورٹ کے اندر جو ردعمل سامنے آیا تو یوگی سرکار کے گال لال ہوگئے۔ اپنی پہلی ہی باقائدہ سماعت میں عدالتِ عظمیٰ نے سرکار دربار کی یہ خوش فہمی دور کردی کہ مظفر نگر کے نیہا اسکول میں استانی کے ذریعہ مسلم طالب علم کو ساتھی طلبا سے تھپڑ لگوانے کے معاملہ رفع دفع ہوچکا ہے ۔ گاندھی جی کے پڑ پوتے تشار گاندھی نے جب اس معاملے کی شکایت پر سپریم کورٹ میں کی تو وہ پھر سے زندہ ہو گیا۔اپنی پہلی ہی باقائدہ سماعت میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کی جانچ کے طریقوں اور درج ایف آئی آر میں الزامات کو ہذف کرنے پر یوگی کے تحت کام کرنے والی اتر پردیش پولیس کوایسے جوتے لگائے کہ ان کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی۔
عدالتِ عظمیٰ کی جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس پنکج متل کی بنچ نے دورانِ سماعت ایف آئی آر میں کچھ بڑے الزامات کو شامل نہیں کرنے کے طریقے پر شدید اعتراض جتایا ۔ عدالت کے مطابق مظلوم لڑکے کے باپ نے ایک بیان میں الزام لگایا تھا کہ مسلمان طالب علم کو اس کے مذہب کی وجہ سے مارا پیٹا گیا۔ لیکن ایف آئی آر میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ بات بے بات این ایس اے لگانے والی اور بلڈور بابا کی یوگی سرکار نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے پرنسپل ترپتا تیاگی کے دل میں مسلمانوں کے تئیں جتنی نفرت ہے اس سے کہیں زیادہ منافرت خود یوگی سرکار کے دل میں ہے۔ اس لیے حکومت بدمعاش پرنسپل کو سزا دلانے کے بجائے بچانا چاہتی ہے۔ اپنی اس پردہ پوشی کے لیے اس نے بنچ کے سامنے ویڈیو ٹرانسکرپٹ بھی پیش نہیں کیا ۔ عدالت نے جب اس سے متعلق استفسار کیا تو وہ بغلیں جھانکنے لگی۔ یہ رسوائی اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی تھی۔ سپریم کورٹ کی بنچ کو اپنے تند و تیز تبصرہ میں بے حس یوگی سرکار کو یہاں تک کہنا پڑا کہ معیاری تعلیم میں حساس تعلیم بھی شامل ہے اور جس انداز میں یہ واقعہ پیش آیا اس سے ریاست کے ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہیے۔
عدالت کی اس جائز تنبیہ کا یوگی سرکار پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ اس کے لیے ضمیر کا زندہ رہنا لازمی ہے۔ یوگی سرکار کا ضمیر تو مرچکا ہے اور اس کا ثبوت خود یوپی حکومت کی نمائندگی کرنےوالے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے عدالت میں بڑی بے حیائی کے ساتھ پیش کیا ۔ وہ ڈھٹائی سے بولے اس معاملے میں ‘فرقہ وارانہ زاویہ’ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی دلیل پر جسٹس اوکا نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ یہ معمولی نہیں بلکہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ استاد نے بچے کو اس کے مذہب کی وجہ سے مارنے کا حکم دیا۔ کیسی تعلیم دی جا رہی ہے؟سپریم کورٹ نے اس معاملے میں تحقیقات کی نگرانی کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے انڈین پولیس سروس کے ایک سینئر افسر کو سونپنے کا حکم دیا لیکن اگر یوگی کسی اپنے جیسے ضمیر فروش کا یہ کام دیں گے تو لیپا پوتی کے سوا اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ۔ یہ تفتیش کو عدالت کی نگرانی میں ہونی چاہیے۔ اس کے بعد انصاف کی توقع ممکن ہے۔ اس بابت نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ افسران اس معاملے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے کے تحت جانچ کریں اور پوچھا کیا نفرت انگیز تقریر کرنا تعزیرات ہند کے تحت جرم ہے یا نہیں؟
بی جے پی تو یہ چاہتی رہی ہوگی کہ عدالتِ عظمیٰ اس قضیہ کو مسترد کردے کیونکہ اسکول کی پرنسپل ترپتا تیاگی کو بچانے کی خاطر اترپردیش کی ڈبل انجن سرکار سارے حربے استعمال کرچکی ہے۔ حکومت کی خوش فہمیوں کے برخلاف سپریم کورٹ نے گاندھی جی کے پڑپوتے تشار گاندھی کی متعلقہ سکول ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ پر سماعت شروع کی تو اس کے ہوش ٹھکانے آئے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اندر جیسے ہی آیا اس کی فوری سماعت کرکے یوگی سرکار کو نوٹس دے دیا گیاتھا ۔آگے بڑھنے سے قبل مظفر نگر کا سانحہ کی تفصیل پر ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے ۔ اس معاملے کی ویڈیو اگر موجود نہیں ہوتی تو نہ صرف انکار کردیا جاتا بلکہ انتظامیہ ایک ایسی کہانی بناکر سامنے لاتا کہ بچہ اور اس کے والدین جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔یوگی کے اتر پردیش میں یہی توقع ہے کیونکہ دلیر صحافی صدیق کپن اور مسیحا نما ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ یہ ہوچکا ہے ۔بعید نہیں کہ میڈیا ڈائن صفت پرنسپل ترپتا تیاگی کو اس قدر خوشنما بناکر پیش کرتا کہ بی جے پی اس کو سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی مانند مظفر نگر سے اپنا امیدوار بنانے پر غور کرنے لگتی۔
مذکورہ بالا ویڈیو میں ایک استانی کرسی پر بیٹھی نظر آتی ہے اور اس کے سامنے طلبا ا سکول کی وردی میں فرش پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ویڈیو میں اس کے بنانے والے مرد کی ہاں میں ہاں ملانے والی آواز بھی پیچھے سے سنائی دیتی ہے۔ ویڈیو ساز اور استانی کے درمیان ایک بچہ کھڑا نظر آتا ہے اور اس سے چھوٹے قد کا دوسرا بچہ پہلے کے گال پر تھپڑ رسید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں ٹیچر سے توقع ہے کہ وہ مارپیٹ کرنے والے طالبعلم کی سرزنش کرے مگر اس کے برعکس وہ کہتی ہے ’زور سے تھپڑ مارو۔‘ اس کے بعدمزید دو لڑکے اس بچے کے گال پر تھپڑ رسید کرتے ہیں ۔ اس وقت تک یہ نہیں پتہ چلتا کہ یہ مارپیٹ کیوں ہورہی ؟ ویڈیو بنانے والا شخص دخل اندازی کرنے یا استانی کو ایسا کرنے کے لیے کہنے کے بجائے ٹیچرکے ساتھ بات چیت جاری رکھتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران ٹیچر کہتی ہے کہ ’میں نے ڈکلیئر کر دیا ہے۰۰۰ کہ یہ محمڈن بچے ہیں، ان کی ماں چلی جاتی ہےیا محمڈن بچے ان کے یہاں چلے جاو۔‘ اس طرح یہ عقدہ کھل جاتا ہے کہ پرنسپل ہندو لڑکوں سے مسلم بچے کی پٹائی کروارہی ہے ۔
ٹیچر کے نفرت انگیز بیان کی تائید کرتے ہوئے ویڈیو بنانے والا شخص ہنس کر کہتا ہے ’صحیح کہہ رہی ہیں، پڑھائی خراب ہو جاتی ہے۔‘ پرنسپل ترپتا تیاگی نےخود اعتراف کیا ہے کہ اس ویڈیو کے بنانے والا طالب علم کا چچا تھا مگر بیوقوف عورت یہ نہیں سمجھ سکی کہ وہ کس آگ سے کھیل رہی ہے۔ ویڈیو میں آگے استانی دوسرےبچوں سے کہتی ہے ’اے کیا مار رہا ہے تو اسے، زور سے مار نا۔ چلو اب کس کا نمبر ہے۰۰۰ چلو تو بھی کھڑا ہو جا۰۰۰‘ اس کے بعد وہ پوچھتی ہے ’چلو اب کس کا نمبر ہے‘ اس کے بعد دو لڑکے کھڑے ہوتے ہیں اور بچے کے پاس آکر اسے تھپڑ لگاتے ہیں۔ ایک بچہ گال پر زور سے تھپڑ مارتا ہے جس پر ٹیچر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے اب کی بار کمر پر مارو۰۰۰۰چلو۰۰۰منہ پہ نہ مارو اب منہ لال ہورہا ہے۔ کمر پر مارو سارے۔ اس کے بعد دوسرا بچہ پیٹھ پر تھپڑ رسید کرتا ہے اور اس دوران معصوم بچہ زار و قطار رو تا نظرآتا ہے۔
تشار گاندھی نے اس معاملے میں مذہبی نفرت انگیزی کی مذمت کرکےعدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ بچوں کے بنیادی حقوق اور جووینائل جسٹس ایکٹ، 2015 کی دفعہ 82 کے علاوہ دیگر متعلقہ دفعات کے تحت کاروائی کی جائے۔ اس کے مثبت جواب نے نظام عدالت پرکسی قدر اعتماد بحالی کا کام کیا۔ تشار گاندھی کے وکیل شادان فراست نے بتایا کہ اس معاملہ پر اگلی سماعت 25 ستمبر کو ہوگی۔ حسب توقع اس سماعت میں عدالت نے یوگی سرکار کے کان اینٹھنے کا کام کیا۔
اس کے دونوں کانوں کے درمیان اگر عقل ہوتی تو وہ عدالت کے تیور کا اندازہ لگا کر اپنا رویہ سدھار سکتی تھی مگر سنگھ پریوار کی شاکھا میں عقل گہن رکھ کر اس کے عوض نفرت کا ٹوکرا تھما دیا جاتا ہے۔ جناب تشار گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ سرکاری کارروائی میں ترپتا کو بچانے کا منشا صاف نظر آتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ضلعی محکمہ تعلیم نے اسکول کو بند کرنے کے احکامات میں اس واقعہ کا نہیں بلکہ رجسٹریشن کے 2022 میں ختم ہونے کا حوالہ دیا گیا۔ تشار گاندھی چاہتے ہیں سپریم کورٹ اس طرح کے معاملات میں جامع ہدایات جاری کرے تاکہ انتظامیہ اس پر عملد رآمد کے لیے جوابدہ ہو اور اگر کوتاہی کرے تو اس پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہوسکے۔ اس طرح ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد اور اسے روکنے میں ناکام رہنے والے انتظامیہ پر دباو بنے گا۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں انتظامیہ کی غلامانہ سوچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کو اپنے سیاسی آقاوں کے احکامات کی بجا آوری کے بجائے آئین کی پاسداری کرنی چاہیے۔ تشار گاندھی کے اس مستحسن اقدام سے امید ہے کہ ایسے مذموم واقعات پر لگام لگے گی اور کسی بھی بنیاد پر معصوم بچوں کو تعذیب کا شکار نہیں کیا جائے گا۔
|