چائے کی پتی اور انتخابات - دو شہریوں کی دلچسپ گفتگو
(M. Furqan Hanif, Karachi)
مثبت اور تعمیری سوچ رکھتے ہوئے ایک کہانی کے انداز میں دو حضرات کی انتخابات کے حوالے سے گفتگو کو ملاحظہ فرماتے ہیں۔ چلیں پھر شروع کرتے ہیں۔
ایک سرد موسم کی رات تھی، جب ایک چائے کی دکان میں ایک عام شہری نے ایک دوست کو بلاتے ہوئے کہا، "سنو، آپ کب سے کہ رہے ہیں کہ انتخابات ہمارے ملک کی ترقی اور خوشی کی طرف کی پہلا قدم ہیں؟"
دوست ہنس کر جواب دیا، بالکل ایسا ہوسکتا ہے، جیسے شیکسپیر کی ڈراموں کا ایک اہم کردار اچانک سامنے آجاتا ہے اور کہانی بدل کر رکھ دیتا ہے، چھپ کر آگئی ہو! انتخابات کا دن واقعی پاکستان کی تقدیر کو بدل سکتا ہے."
شہری نے تجسس اور جھلائے ہوئے انداز سے پوچھا “بس کردے پگلے رلائے گا کیا، یہ سہانے خواب دیکھتے دیکھتے عمر گزر گئی، الیکشنز تو بہت ہوئے مگر پاکستان کی تقدیر ہماری صورتوں میں ہمارے سامنے ہے“
سن یار! میں کوشش کرتا ہوں کہ مثالوں کے زریعے سمجھا سکوں، ایک سنہرے دن جب انتخابات کا دن آئے گا کہ جیسے میری پیالی میں چائے کی پتی ڈالی جاتی ہے تو پانی کا رنگ بالکل بدل کر رکھ دیتی ہے کہ جیسے ہم چاہتے ہیں اور پھر وہی پہلے والا سادہ سا پانی اب مزیدار چائے میں تبدیل ہوجاتا کہ جو ہماری تھکن اتارنے اور تسکین کا سبب بنتا ہے، کیوں ایسا نہیں ہوتا ؟
شہری نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا “ہاں ہوتا تو ایسا ہی ہے، یار چائے واقعی دن بھر کی تھکن اتارتی ہے اور خاص طور پر صبح کی چائے تو ہمیں دن کے آغاز میں تازگی سی عطا کرتی ہے، باں دوست، ایسا ہوتا تو ہے، مگر ہوگا کیسے اور نتیجہ کیا نکلے گا؟ “
دوست نے مسکرا کر جواب دیا “دیکھ بھائی جب ہم نیم گرم پانی میں میں چائے کی پتی ڈالتے ہیں اور وہ پتی اس پانی کو خوشبودار اور پینے میں اچھا مشروب بنادیتی ہےایسے ہی شفاف اور غیر متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں جو لوگ قوم کی نمائندگی کے لئے منتخب ہوکر آئیں گے اب وہ ماضی سے سبق سیکھیں یا نہیں، مگر ماضی کو مدنظر ضرور رکھیں گے اور پھر کرپشن میں یقینا کمی آئے گی۔
شہری مسکرا اٹھا “ہے تو دلچسپ کہانی، لیکن کیا واقعی یہ ہوپائے گا ؟ “
دوست نے خوشگوار انداز میں کہا “بالکل ایسا ضرور ہوگا۔ سب سے پہلے تو قوم کو انتخابات میں بھی ایسے ہی حصہ لینا چاہئے جس طرح ملک کی دگردوں حالت کو دیکھ کر پانچ سال تک رونے اور پیٹنے میں لگاتے ہیں، یعنی صرف ایک دن یعنی الیکشن کے دن تو قومی سستی اور کاہلی کو فروغ دیتے ہیں اور الیکشن میں تو ووٹ ڈالنے نہیں نکلتے مگر پانچ سالوں تک رونے اور پیٹنے میں ضرور مصروف رہتے ہیں۔ بحرحال یہ بہت آسان کام ہے، جس طرح چائے کی پتی نیم گرم پانی میں ڈالنے سے سادے پانی کا نام اور کام بدل جاتا ہے یعنی چائے بن جاتی ہے، اسی طرح انتخابات میں شرکت بھی ہماری معاشرے اور حالات کو بدلنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اب تم خود ہو سوچو، ایک کپ نیم گرم پانی کی کیا قیمت اور اہمیت ہوتی ہے مگر وہی نیم گرم پانی اپنی قیمت دکھاتا ہے جب اس میں چائے کی پتی ڈالی جاتی ہے تو انتخابات بھی ایسے ہی معاشرے کو بدل کر رکھ سکتے ہیں اگر ہم بحیثیت قوم کے اس اہم قومی فریضہ میں اپنا اپنا کردار ادا کریں، یعنی ووٹ دیں۔“
شہری نے زندگی کی مسائل کی طرح دھڑکتے دل سے سوال کیا، "لیکن اگر میری آواز کو کوئی اہمیت نہ دے؟"
دوست نے مسکرا کر اپنائیت سے جواب دیا ، "یہ بھی تو ایک دلچسپ بات ہے! جیسے کہ کہانیاں ہمیں ہنسنے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہیں، آپکی آواز بھی ملک کی ترقی کی طرف قدم بڑھانے میں یقینا مددگار ثابت ہوگی، یقین رکھو ۔ اور پھر وہی مثال دیتا ہوں کہ جس طرح نیم گرم پانی میں چائے کی پتی کے تمام ذرات جب مل کر کام کرتے ہیں جبھی تو نیم گرم پانی خوش ذائقہ چائے میں تبدیل ہوجاتا ہے، اگر پتی کا ہر ذرہ یہی سوچے کہ مجھ اکیلے سے چائے کہاں بن پائے گی تو خود سوچوں کہ کیا چائے بن جائے گی ؟ اسلئے یاد رکھو، گرہ میں باندھ لو کہ انتخابات کے قیمتی دن، ہر آواز کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور پھر آوازیں قوم کی آواز بن کر فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔
شہری نے طویل وقفہ کے دوران چائے کی چسکیاں لیں اور کافی دیر سوچنے کے بعد کہنے گا “ تو پھر طے ہوا کہ چائے پی کر میں بھی اب آئندہ انتخابات میں اپنا حصہ یعنی ووٹ کا فریضہ ضرور ہی انجام دینے والا ہوا، واقعی ہماری کوشش کا یہی اہم ترین زریعہ ہے کہ ہم رونے پیٹنے، مہنگائی اور مشکلات پر ماتم کرنے کے بجائے اپنا فریضہ نیک نیتی کے ساتھ ادا کریں کہ پھر ہی ہم اپنے ملک کو ترقی، خوشحالی اور استحکام کی جانب لے جاسکتے ہیں۔
دوست نے مسکرانے ہوئے کہا “یہ ہوئی نا بات، اب سوچو کہ جب انتخابات میں ہم سب ایمانداری سے اپنا حصہ ڈالیں گی کہ جس طرح ہم اپنی پیالی میں چائے کی پتی ڈالتے ہیں اور پانی کو چائے میں بدل کر مزے لیتے ہیں اسی طرح اپنی اور اپنے ملک کی تقدیر بدلنے میں بھی ہم میں سے ہر ایک چائے کی پتی کے ہر ذرے کی طرح اپنے فرض یعنی نیکی کے پتے ڈالیں گے تو کیونکر ملک بھی اسی طرح خوشحال اور مزے دار ہوجائے گا جس طرح سادہ گرم پانی پتی کے ڈالنے کے بعد بدل جاتی ہے، سوچ بدلنے اور مثبت کردار یقینا ملک و قوم بلکہ ہم سب کے انفرادی اور پھر مجموعی کردار کے لئے تریاق کا کام کرے گا۔
اب دیکھیں مایوسی اور منفی پر مبنی گفتگو تو لاحاصل ہوتی ہیں اور اس کا نتیجہ معاشرے میں مایوسی کو مزید بڑھانے کے علاوہ اور کچھ کر سکتا ہے تو بتائیے بلکہ رکیے، مایوسی اور ڈپریشن ہماری اپنی صحت کے لئے بھی بہت ہی مضر ثابت ہوتی ہے اور انسان شگر، بلڈ پریشر اور دیگر عوارض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور پھر مزید پریشانیوں کو دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ کوشش کرتے ہیں کہ مثبت اور تازگی اپنے رویوں اور سوچوں میں لاتے ہیں۔
چائے کی پیالی پر مبنی یہ گفتگو ایک مثال ہے کہ جو ہمیں سکھاسکتی ہے کہ ہمیں اپنے ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کے طرف قدم پڑھانے بلکہ دوڑنے کے لئے اپنا اپنا حصہ ضروری ہے۔ تو کیوں نہ ہم اپنے اور اپنی قوم کے لئے کچھ مثبت کریں اور نئی اور بہتری کی راہ اور اپنی تقدیر پر بھروسہ رکھتے ہوئے آگے بڑیں۔
ملک کے باسیوں، تیار رہو اور یقین کامل رکھو اور اپنے وطن عزیز کی خوشحالی اور ترقی کے خواب کو جاگتی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے ہوئے دیکھو، ان شا اللہ۔ |