کسے معلوم نہیں کہ پناہ گزینوں کی میزبانی انسانیت کا ایک قابل تحسین عمل ہے اور پاکستان نے ہمیشہ احسن طریقے سے یہ فریضہ نبھایا ہے اور مہمان نوازی پاکستانیوں کے خون میں شامل ہے تاہم حکومت کے حالیہ فیصلے کی بنیاد اقتصادی، سیکورٹی چیلنجز اور مہاجرین اور خاص طور پر غیر قانونی تارکین وطن کی پاکستان میں آمد کو محدودکرنا ہے۔ مبصرین کے مطابق گزشتہ چند سالوں کے دوران افغان مہاجرین کی ایک بڑی آبادی کی میزبانی نے غیر قانونی سرگرمیوں اور پاکستان اور اس کے شہریوں کے لیے نقصان دہ دیگر سیکورٹی خطرات پیدا کیے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال رواں میں پاکستان میں دہشت گردی کے 24 واقعات میں سے 14 میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا پاکستان کے فیصلے کو درست ثابت کرتا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے 45 سالہ خلوص اور خیر سگالی کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان کے ایک بڑے حلقے نے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ اسی ضمن میں نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پاکستان میں موجود غیر قانونی غیر ملکیوں کو رضا کارانہ طور پر 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے افراد کو واپس بھجوائیں گے اور اب پاکستان میں کوئی بھی غیر ملکی بغیر ویزہ اور پاسپورٹ کے داخل نہیں ہوسکے گا۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 1.73 ملین افغان شہریوں کے پاس کوئی قانونی رہائشی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔مبصرین کے مطابق یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 1.3 ملین ہے جبکہ آٹھ لاکھ اسی ہزار مہاجرین کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔وزیر داخلہ نے اس ضمن میں مزید کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ تمام افغان پاکستان سے واپس چلے جائیں۔
پہلے مرحلے میں غیر قانونی مقیم افراد، دوسرے مرحلے میں افغان شہریت کے حامل افراد اور تیسرے مرحلے میں رہائشی کارڈ کے ثبوت فراہم نہ کرنے والے افراد کو واپس بھوایا جائے گا۔اسی کے ساتھ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ رواں برس ملک میں ہونے والے 24 خودکش بم دھماکوں میں سے 14 کے ذمہ دار افغان شہری تھے۔ یاد رہے کہ وزیر داخلہ کے اس بیان سے پہلے اسلام آباد میں امن و امان کے حوالے سے سول اور فوجی رہنماؤں کی ایک ملاقات ہوئی، جس میں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ہفتے مذہبی اجتماعات کو نشانہ بنانے والے دو خودکش بم دھماکوں میں کم از کم 57 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ 3اکتوبرکو ایپکس کمیٹی اجلاس کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ کسی بھی پاکستانی کی فلاح اور سیکیورٹی ہمارے لیے سب سے زیادہ مقدم ہے اور کسی بھی ملک یا پالیسی سے زیادہ اہم پاکستانی قوم ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی افراد کو ہم نے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ اس تاریخ تک رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے جائیں اور اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو ریاست کے جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے وہ اس بات کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔
اسی حوالے سے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کہ یکم نومبر ہی پاسپورٹ اور ویزا کی تجدید کی ڈیڈ لائن ہے، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کسی اور دستاویز پر کسی ملک میں سفر کریں، ہمارا ملک واحد ہے جہاں آپ بغیر پاسپورٹ یا ویزا کے اس ملک میں آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم نومبر کے بعد کوئی بھی شخص، کسی بھی ملک کا رہنے والا پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر ہمارے ملک میں داخل نہیں ہو گا اور صرف پاسپورٹ چلے گا۔سرفراز بگٹی کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ یکم نومبر کے بعد ہمارا ایک آپریشن شروع ہو گا جس میں وزارت داخلہ میں ایک ٹاسک فورس بنا ئی گئی ہے جس کے تحت پاکستان میں غیرقانونی طریقے سیآکر رہنے والے افراد کی جتنی بھی غیرقانونی املاک ہیں، انہوں نے جتنے بھی غیرقانونی کاروبار کیے ہیں، ہمارے ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں یا وہ کاروبار جو غیرقانونی شہریوں کے ہیں لیکن پاکستانی شہری ان کے ساتھ مل کر یہ کاروبار کررہے ہیں۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو ڈھونڈیں گے اور ہم ان کاروباراور جائیدادوں کو بحق سرکار ضبط کریں گے، اس کے علاوہ جو بھی پاکستانی اس کام کی سہولت کاری میں ملوث ہو گا، اسکو پاکستان کے قانون کے مطابق سزائیں دلوائی جائیں گی۔ اس تمام تناظر میں سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہرکی ہے کہ پچھلے 45سال میں پاکستان نے افغانستان کے لیے جو کچھ کیا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں مگر اس کے جواب میں پاکستان کے خلا ف جو کچھ کیاجا رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ افغانستان اپنے دلوں میں پاکستان کے خلاف موجود نفرت کو ختم کرکے حقیقی دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا۔
|