پاکستان کے استخصالی نظام نے لوگوں کی ایک وسیع آبادی کی معاشی سکت ختم کردیا ہے۔ عام آدمی سے منہ کا نوالہ چینا ہے۔ بھوک گلی کوچوں میں بریک ڈانس کرتی دندناتے پھر رہی ہے۔ ہر دوسرے در پر حاضری فرض سمجھتی ہے۔ معاشی بدحالی نے عام آدمی کی زندگی دوبھر کردی ہے۔ حال کی بدحالی انسانی خودکشیوں کی موجد ٹہری۔ اس سے بھی خطرناک یہ کہ چند لوگ جو دانشوری کا مہر لگا کے گھومتے ہے یہ مزاح کرتے ہے کہ پاکستان کی مٹی میں انقلاب یا مزاحمت نہیں ہے۔ مگر وہ اس حوالے سے شاید ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے ہیں کہ بھوک بغاوت ہے۔ بہ الفاظ سادہ جب جب بھوک رہے گی تو بغاوتیں اور انقلابیں براستہ منزل سربام رہے گی۔ کیچھڑ میں لتے پتے لوگ سفید پوشوں کے گریباں کی آس میں ہونگے۔ کیونکہ بھوک انسانی تہزیبوں کے بنانے، بگاڑنے اور ازسرنو بنانے میں اہم محرک رہا ہے۔ پہلے کے زمانے میں بھوک دور کرنے کےلئے جڑی بوٹیوں، پھلوں اور جانور اہم زرائع تھے۔ اسلئے جڑی بوٹیوں، پھلوں کی تلاش اور جانوروں کے شکار کئے جاتے تھے۔ ایک جگہ غزا کے زرائع ختم ہوجاتے تو دوسری جگہ تلاش کی جاتی تھی۔ اور یوں اکثر دو افراد یا دو بنیادی خاندان ایک جگہ پر غزا کی موجودگی پر جمع ہوجاتے اور دونوں غزا کو حاصل کرنے کے لئے بنیادی ہتیاروں کے ساتھ ہاتھ، پاوں اور منہ کے ذریعے لڑجاتے۔ اسی طرح پہلے کی لڑائیاں بھی بھوک مٹانے کےلئے کی جاتی تھی۔ یوں غزا کی دریافت اور اسے پہچاننے کی سغی نے زراعت کو وجود پزیر کیا۔ شکار کو اسانی سے حاصل کرنے اور مدقابل سے چیننے یا ان پر برتری حاصل کرنے کی سغی نے خاندانوں اور قبیلوں کو ایک ساتھ آباد کیا اور ہتیاروں میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ تاکہ بھوک مری کا مقابلہ کیا جاسکے۔ یوں قومیں آباد ہوئی۔ تہزیبیں بھی وجود میں آئی۔ اپنی قوم کی بھوک مٹانے اور غزا کے بارے میں پریشانی دور کرنے کےلئے جیسے زراعت کا پیشہ اختیار کیا گیا ویسے ہی دوسرے قوموں پر جنگیں بھی مسلط کی گئی۔ تاکہ انکے پیداوار چینے جائے یا ان میں اپنا حصہ تلاش کیا جائے۔ ان تمام تر اعمال کا بنیادی پہلو بھوک تھا۔ تاریخی اعتبار سے جب کسی قوم کے اندار سماجی ومعاشی ناانصافی کے ذریعے یا یوں کہے کہ جب بالادست طبقات کی لالچ و حرص نے نچلی طبقات میں بھوکا ہونے کا شعوری ادراک پیدا کیا تو ادھر مزاحمتیں، بغاوتیں اور انقلابیں وقوع پزیر ہوئی ہیں۔ انقلاب فرانس کے علاوہ ادھر ہمارے قریب ایران میں کسانوں کے تحریکیں اور بغاوتیں کوئی زیادہ پرانی باتیں نہیں ہیں۔ مگر یہ تمام تر باتیں دنیا کے ایک وسیع آبادی کےلیے اب انجان ہے۔ کیونکہ انسان نے اتنی علمی و شعوری ترقی کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کے لئے اب بھوک مسئلہ نہیں رہا ہے۔ بلکہ درمیانہ طاقت رکھنے والے ممالک کے لئے بھی نہیں کیونکہ انسان نے زمین میں موجود وسائل کو نہ صرف استعمال کرنا جانا بلکہ زمین سے باہر خلاوں اور دوسرے سیاروں پر موجود وسائل کے استعمال کو بھی پہچاننا شروع کیا ہے اور یہ بھی چند سال بعد کوئی بڑا جھنجھٹ نہیں رہے گا۔ مگر ہمارے بدقسمتی دیکھئے کہ ہم پاکستانی اکیسویں صدی میں بھی بھوک اور اس کے نتائج پر بات کر رہے ہیں۔ اس دور میں بھی پاکستان اپنے شہریوں کی غزا جیسی بنیادی ضرورت کو پورا نہیں کر سکا ہے۔ بھوک سے خودکشیاں ہورہی ہیں۔ طاقت کی اداراتی و سیاسی رسہ کشی اور بالادست و مقتدرہ کی استخصال نے درمیانہ و نچلی طبقات سے اسکا منہ کا نوالہ چینا ہے۔ بھوک سے خودکشیوں پر مجبور کردیا جارہا ہیں۔ تو کیا اب بھی لوگ خاموش رہینگے؟ بھوک پر تو اس وقت بھی مزاحمتیں ہوتی تھیں جب انسانی شعوری سطح بہت نچلے تھا۔ جب انسان یہ سمجھ رہا تھا کہ ہم اسلئے بھوکے ہے کیونکہ ہم سے ہمارہ خدا یا بگوان خفہ ہے۔ جب وہ یہ بات نہیں جانتا تھا کہ انسان انسان کو بھوکا رکھتا ہے۔ ایک کے ساتھ سب کچھ اور دوسرے کے ساتھ کچھ بھی نہیں۔ یہ سماجی فاصلے انسان کا پیدا کردہ ہے۔ یہ اونچ نیچ ہمارے زمینی خداوں کی پیداوار ہے۔ اب تو اکسیوی صدی ہے۔ انسانی شعوری سطح بہت بلند ہے۔ اس انسان کو پتہ ہے کہ جو بڑے عمارتیں ہیں یہ ہمارے انسانی پسینے کی کمال ہے۔ یہ سیاروں پر بھی ہم انسان ہی جا رہے ہیں۔ کوئی انسان خاص و عام نہیں ہوتا۔ سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سب خاص ہوتے ہیں۔ یہ حکومتیں ہمارے پیدا کردہ ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ جس مسئلے پر صدیوں پہلے مزاحمتیں اور بغاوتیں ہوتے تھے وہ اج کا ترقی یافتہ، شعوری طور پر بہت بلند انسان برداشت کر لیگا۔ ریاست کے اہل حل و عقد سے گزارش ہے کہ ہوش کے ناخن لے۔ ملک میں موجود احساس محرومی و بھوک اس امر کے لیے کافی ہے کہ مزاحمتیں ہوجائے۔ یہ بھوک سے خودکشیاں اگر بڑی تو ریاست بھی اس کی ضد میں آسکتی ہے۔
|