ہم نے اپنے بچپن میں، شیخ سعدی شیرازی (589–691 ھ) کی کتاب "گلستاں" پڑھی تھی۔ اس کتاب کے "باب اول" کے شروع میں عربی زبان میں ایک شعر ہے۔ اس شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ "جب آدمی ناامید ہوجاتا ہے؛ تو اس کی زبان لمبی ہوجاتی – جیسے عاجز بلی کتے پر حملہ کرتی ہے۔" آج کل فلسطین کے معصوم شہریوں مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔ وہ عاجز وپریشان ہیں۔ وہ ہر طرف سے ناامید ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کے قائدین نے قابض اسرائیلی ریاست کے حکمرانوں کے ساتھ "امن معاہدے" کیے۔ اب یہ معاہدے درست تھے یا غلط،یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ انھیں امن معاہدے سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ دن بہ دن اسرائیل کے پنجے مضبوط ہوتے گئے۔ اسرائیلی ریاست دن بہ دن فلسطینی اراضی کو قبضہ کرتی رہی اور صہیونی آبادکاروں کو بساتی رہی۔ قابض اسرائیلی ریاست فلسطینی شہریوں کو قید کرکے، دہائیوں اپنے جیلوں میں رکھتی ہے، ان کی زندگی کے خوب صورت ایام کوتباہ وبرباد کر دیتی ہے۔ جب وہ جیل کی کوٹھری سے باہر آتے ہیں؛ تو وہ ماں باپ جن کو وہ گھر پر زندہ چھوڑ کر گئے تھے، انھیں قبروں میں مدفون پاتے ہیں۔ اسرائیلی جیل میں جاتے وقت، جن بھائی اور بہن کو اپنے گھر پر چھوڑ کر گئے تھے ، جب کئی سالوں بعد، اسرائیلی جیل سے واپس آتے ہیں؛ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھائی بہن، قابض اسرائیلی فوج کی گولی کا نشانہ بن کر، اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اپنی غیر قانونی گرفتاری سے قبل، جس مسجد میں، ایک فلسطینی پانچ وقت کی نماز ادا کررہا ہوتا ہے؛ جب وہ آزاد ہوکر، واپس آتا ہے؛ تو وہ مسجد اسرائیلی بمباری میں شہید ہوچکی ہوتی اور اس کی جگہ کسی دوسرے نقش ونگار والی مسجد نظر آتی ہے۔ جب ایک فلسطینی شہری بغیر کسی جرم کے اسرائيلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوکر، اسرائیلی جیل کے لیے روانہ ہوتا ہے؛ تو اس وقت وہ اپنے باغ میں ہرے بھرے لہلہاتے درختوں کو چھوڑ کر جاتا ہے؛ جب واپس آتا ہے؛ تو وہ باغ ویران نظر آتا ہے۔ اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کو کوئی امید کی کرن نہیں آتی؛بلکہ وہ ناامیدی کے شکار ہوتے ہیں۔ پھر وہ اب اپنے وطن، اپنی عبادت گاہوں،اپنے باغات ، جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے حالات و مصائب سے دوچار ہوکر، "آپریشن مسجد الاقصی" جیسی کاروائی کرتے ہیں، جو سات اکتوبر 2023 کو ہوئی۔ پھر حماس کےاس طرح کے حیران کن حملے سے، کچھ لوگوں کے درمیان کھلبلی مچ جاتی ہے اور وہ اسے دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر وہ اس حملے کے اسباب و عوامل پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے۔
حماس کے اس "آپریشن طوفان الاقصی" کے بعد، کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ حماس کے مزاحمت کاروں کو ایران نے ہتھیار فراہم کیا ہے۔ ایران نے اس کاروائی اور ہتھیار کی فراہمی کے حوالے سے صریح طور پر انکار کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس کے پاس تھوڑی بھی عقل ہوگی، وہ اس حقیقت سے واقف ہوگا کہ غاصب ریاست اسرائیل نے "غزہ کی پٹی" کی ناکہ بندی کررکھا ہے۔ اسرائیل کی اجازت کے بغیر، وہاں کے شہری علاج ومعالجہ اور تعلیم وتعلم کے لیے بھی باہر جانے سے قاصر ہیں۔ عزہ کی سرحد جو مصرسے لگتی ہے، وہ کئی سالوں سے بند ہے۔ پھر ایران کس طرح غزہ میں ہتھیار بھیج سکتا ہے۔ یہ افواہ بھی پھیلائی جارہی ہے کہ "ترکیہ" اور "شام" نے اپنے لڑاکے طیارے، ایران کے تہران بین الاقوامی طیران گاہ پر بھیجنا شروع کردیا ہے؛ تاکہ وہ فلسطینیوں کی مدد کرسکیں۔مگر امریکہ کیا کررہا ہے،اس پرکسی کی نگاہ نہیں جارہی ہے۔
امریکہ نے قابض اسرائیل کے لیے طیارے بردار جنگی بحری بیڑے روانہ کرچکا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا ہے: "یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ کا رخ اسرائیل کی طرف کردیا گیا ہے۔ چھ جہازوں کے امریکی بیڑے میں گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر اور گائیڈڈ میزائل کروزر بھی شامل ہیں۔" پنٹاگون کے مطابق، "امریکہ مشرق وسطی میں موجود لڑاکا طیاروں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ طیاروں میں ایف 16، ایف 15، ایف 35 اور اے ٹین شامل ہیں۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ "اسرائیل کی مدد کے لیے جنگی بحری بیڑے روانہ کررہے ہیں۔" ایف 35 ، امریکہ کا سب سے خطرناک لڑاکا طیارہ ہے۔ ابھی 11/اکتوبر یہ خبر آئی ہے کہ امریکہ ایک بحری بیڑے کی تعیناتی کے بعد، اب دوسرا طیارہ بردار بحری جہاز بھی خطے میں بھیج رہا ہے۔ امریکہ کہ اس اقدام پر، کسی کو کوئی تعجب نہیں ہورہا ہے۔ امریکہ نے وہ سارے مہلک ہتھیار اسرائيل کی مدد کے لیے روانہ کیے ہیں۔ مزید یہ کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور فرانس نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی اپنے دفاع کے لیے غیرمشروط حمایت کریں گے۔
کچھ ممالک حماس کے اس آپریشن کی مذمت کر رہے ہیں۔ کچھ یورپی ممالک بھی اس حوالے سے پیش پیش ہیں۔ 9/ اکتوبر کو یورپی یونین کے کچھ ممبر ممالک نے فلسطین کی معاشی امداد روکنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ مگر یورپی یونین کے اس فیصلے کو دوسرے یورپی ممالک: اسپین، آئرلینڈ وغیرہ نے روک دیا ہے۔ تاریخ یہ بات نوٹ کرے گی کہ اسرائیلی ریاست نے اپنے دہشت گردانہ حملے میں ہزاروں معصوم فلسطینی کو شہید کرتا رہااوران کی رہائشی عمارتوں، عبادت گاہوں، اسکولوں کو اپنے خطرناک بموں سے تباہ و برباد کرکے ملبے میں تبدیل کرتا رہا؛ مگر ولایات متحدہ امریکہ، یوکے اور یورپی یونین وغیرہ کے کسی اعلی ذمے دار نے یہ ہمت نہیں جٹائی کہ وہ اسرائیل کی مذمت کرتا۔
اسرائیلی ریاست بروز: سنیچر، سات اکتوبر 2023 سے ہی غزہ کی پٹی پر انتہائی ہی خطرناک بمباری شروع کرچکی ہے، جس میں بڑی تعداد میں شہری شہید ہورہے ہیں۔ اس حملے میں سفید فاسفورس جیسے ممنوعہ مہلک بم بھی استعمال ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس عالمی قانون نے اس کی اجازت دی ہے کہ جان بوجھ کر، اس طرح شہریوں پر بم برسائے جائیں، چاہے جنگ ہی کیوں نہ ہو؟ مزید یہ کہ اس نے بروز: پیر، 9/ اکتوبر سے غزہ کا سخت اور مکمل محاصرہ بھی کر رکھا ہے۔ اس محاصرے کے نتیجے میں، غزہ پٹی میں خوراک، پانی، بجلی اور ایندھن کی فراہمی بالکل منقطع ہوچکی ہے۔ 11/ اکتوبر سے غزہ پاور پلانٹ نے ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے کام کرنا بند کردیا ہے۔ کسی بھی جنگ کے موقع سے اس طرح کا مکمل محاصرہ عالمی قانون کے تحت ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کا غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ جس سے شہری زندگی کی بقا کے لیے ضروری اشیا سے محروم ہوجائیں، عالمی قانون کے تحت ممنوع ہے۔ قابض ریاست اپنے فضائی حملوں میں غزہ کے رہائشی عمارتوں، اسکول، اور اقوام متحدہ کی عمارتوں کو بھی نشانہ بنارہی۔ اس وجہ سے بہت سے معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ اسرائیل کا وزیر دفاع غزہ کے باشندوں کو انسانی جانور سے تعبیر کرہا ہے۔ اس نے اپنی فوج سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی عالمی قوانین کی پاسداری نہ کرے۔ اس اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں، خاندان کے خاندان ختم ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) کی اطلاع کے مطابق، اسرائیل کے اس دہشت گردانہ حملے میں، اب تک تقریبا ایک لکھ ستاسی ہزار غزہ پٹی کے مکیں اپنا گھر چھوڑ نے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
شہر غزہ کے مظلوم و معصوم شہریوں پر اسرائیل دہشت گردانہ حملے کے خلاف مختلف ممالک میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر، اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مظاہرہ امریکہ میں وائٹ ہاؤس کے باہر، شکاگو، نیویارک میں بھی ہوا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ عالمی برادری اس حملے کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مظاہرین نے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امریکی امداد بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کی رہائی اور شہریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ یورپی ملک آسٹریلیا میں بھی عوام نے سڑکوں پر نکل کر، فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا اور اور ان کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک:اردن، یمن، لبنان، عراق وغیرہ میں بھی اس صہیونی اسرائیلی حملے کے خلاف لوگوں نے مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے فلسطینیوں کے قتل عام کو فوری روکنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ ترکیہ کے شہر "استنبول" میں بھی اظہار یکجہتی کی ریلی نکالی گئی۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل سے غزہ پر بمباری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ معصوم شہریوں کی اموات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے غزہ کی ناکہ بندی کو ناقابل قبول قراردیا ہے۔انھوں نے امیر قطر سے بھی ٹیلی فون کیا اور جنگ کی تازہ صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے امیر قطرسے کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فلسطینی صدر محمود عباس کوفون کیا جس دوران انھوں نے بتایا کہ وہ اسرائیل فلسطین تنازع کی توسیع روکنے پر کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب جائز حقوق اور دیرپا امن کے حصول کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ کویت کے سرکاری خبررساں ادارے کونا کے مطابق، سفیر کویت برائے اردن نے "انروا" میں تعلقات خارجہ کی ڈائریکٹر سمارا الرفاعی کو کویت کی طرف سے دو ملین ڈالر کا چیک پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ کویتی قیادت فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد اور فلسطینی کاز کی حمایت کے حوالے سے اپنے غیر متزلزل موقف پر قائم ہے۔ اونروا کی مالی اعانت کا مقصد فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنے فرض کی ادائیگی ہے۔ واضح رہے کہ اونروا اقوام متحدہ کے تحت، فلسطینی پناہ گزینوں کی سماجی سلامتی، صحت نگہداشت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے لیے تعاون کرتی ہے۔
اب تک اس اسرائیلی دہشت گردانہ حملے میں، فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق، تقریبا
1055 فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں؛ جب کہ پانچ ہزار نو سو شہریوں کے زخمی ہونے کی
اطلاع ہے۔ غزہ کے سارے اسپتال زخمیوں سے بھرچکے ہیں۔ غزہ کی صورت حال انتہائی
خوفناک ہے۔ اسی طرح مغربی کنارے میں تقریبا 23/فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور تقریبا
130 زخمی ہوئے ہیں۔ حماس کے اس اچانک اور حیران کن حملے میں، اسرائیلی کرنل سمیت
تقریبابارہ سو اسرائیلی شہری کی موت ہوچکی ہے، جن میں سو سے زاید فوجی اور پولیس
اہل کار شامل ہیں اور اٹھائیس سو کے قریب شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اس
اسرائیلی حملے میں، رپورٹنگ کے دروان ، اب تک سات صحافی بھی جاں بحق ہوچکے ہیں۔
|