ہماری بربادی کا موجب کون؟ذرا سوجیئے

کسی بھی پُرزوال اور پست جمہوریت ومعیشت کے آدرشی شکنجوں میں مقید لمحات میں ہم اس بات کا ادراک نہیں کر پاتے کہ یہ سسٹم کی خرابی کہ ساتھ ساتھ ہمارے ان شورش زدہ نظریات اور افعال واعمال کا نتیجہ ہے جس پر قدرت ہمیں ماضی میں بھی وارننگ دے چکی ہے ۔

لیکن دینیات سے نابلد اور نسوانیت پرستی کی پُر خاش راہوں کے دلدادہ افراد کے دل و دماغ پر تو اپنے دنیاوی آقا کے آگے رول ماڈل بننے کی دیرینہ خواہش ٹھاٹھیں مار رہی ہوتی ہے اسی واسطے وہ قدرت کے عذاب کو فقط ماہر ارضیات و محکمہ موسمیات کی رپوٹوں تک محدود رکھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔اگرچہ مُٹھی بھر اہل نظر اور خوف اللہ رکھنے والوں کے قلب ولب استغفار میں محو ہوجاتے ہیں ۔مگر مگر یہ لمحات من حیث القوم توبہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے ہوتے ہیں۔جب تلک ہم سیدنا محمد ﷺکے خُدا کی جانب رُخ نہ کریں گے ‘امن وسکون ندارد۔آپﷺ کی سیرت مبارکہ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ عمومی حالات میں جب بھی آندھی وطوفان اسلامی ریاست کی جانب لپکے تو سرورکائنات ﷺمسجد میں تشریف لے گئے اور خضوع وخشوع کے ساتھ بارگاہ الہٰی میں استغفار کیا اور ہمیشہ اللہ عزوجل سے ہی مدد طلب کی۔جب کہ ہم بہترین اُمت ہونے کے باوجود دُکھیوں کے چہرے دکھا کر بیسوں خداﺅں کے دروازے بجاتے پھرتے ہیں۔بھیک ہماری پہچان بن چُکی ہے ۔بقول شاعر
بُتوں سے تجھے امیدیں خدا سے نااُمیدی
مجھے بتا تو سہی او ر کافری کیا ہے

آج نماز جیسے اہم فریضے سے ہم ایوان سمیت کنارہ کش ہو چکے ہیں ۔حرارت ایماں ہمارے اندر سُرگباش ہو چُکی ہے۔ایک معبود کے آگے سربسجود نہ ہونے کی معذوری نے ہمیں سینکڑوں ناخداﺅں کے آگے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیاہے اور شنوائی بھی نہیں ہوپاتی بس ڈومور‘ڈومور۔نمار کے متعلق فارسی میں کہتے ہیں
روز محشر کہ جاں گداز بود
اولین پُرسش نماز بود
کون مسلمان نہیں جانتا کہ روز محشر پہلاسوال نماز کا ہو گالیکن عمل ناپید۔

لہذا اسلام سے دوری اور استعماری قوتوں کی سر پرستی کے زیر اثر ہم مسلمانوں کو کافرکہنے کا فلسفہ تخلیق کر چکے ہیں۔ہمیں کسی غیر کہ غیر مسلم ہونے پر تو اتنا تعرض نہیں ہوتا البتہ اسلام کے کسی ذیلی فقہ سے تعلق کی بناءپر ہم اُسے سنگسار‘مسمار‘اور نیست و نابود کرنے کو عین اسلام خیال کرتے ہیں۔جو کہ حقیقت کہ آئینے میں کذب و مبالغہ ‘فرضی نکتہ آفرینی اور کاذبانہءتخیل کے ماسوا کچھ نہیں۔اسلام امن کا دین ہے مسلم ریاست میں تو اقلیتیں بھی محفوظ ہوتی ہیں جبکہ آج ہم اہل اسلام کی گردن زدنی کے واسطے پرتول رہے ہیں۔تب ہی تو اُمت کا شیرازہ بکھر چُکا ہے۔اور اسی واسطے آئے دن قدرتی آفات اور اسلام دشمن عناصر کی ہرزہ سرائیاں ہمارے تعقب میں رہتی ہیں۔

پچھلے برس2010 میں پاکستان کی تاریخ کا انتہائی بھیانک سیلاب آیا جس سے پاکستان کے چار کروڑ کے قریب افراد متاثر ہوئے۔اس سیلاب کا سپریم کوٹ نے نوٹس بھی لیا‘پھر فلڈ کمیشن بنا‘جس نے 7 جون 2011کو اپنی سیلاب کی روک تھام ‘سیلاب کی وجوہات اور اس سے متعلق دوسرے عوامل کی نشاندہی کی ‘پھر کمیشن بنا دورے پہ دورے ہوئے ‘میٹنگزکافی تعداد میں ہوئی اور جب اس نے اپنی سفارشات پیش کیں تو اُن پر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی ۔جس کے نتیجے میںپانی کے ریلے ہمارا مقدر بنے۔ ارض ِوطن میں سندھ کے 19اضلاع اور بلوچستان کے چھ اضلاع سیلاب کی بے رحم موجوں کی بھینٹ چڑھ چُکے ہیں۔سترہ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ پر پھیلی ہری بھری فصلیں غارت ہو چُکی ہیں۔15ہزار کے ق قریب جانوروں کو موت نے آدبوچا۔350سے زائد انسانی جانیں عدم آباد ہو گئیں۔

ہم بھی امراءکی مانند سیاسی اتار چڑھاﺅ میں ہی کھو گئے۔یہ سب قریب قریب ہماری عریانی کی تشہیر ‘ملحدانہ عقائد کا اشتراکی نتیجہ ہے۔ہم نفس پرستی اور مسلمانوں کے لاشے گرانے میں کافی نام کما چُکے اب ہمیں ستر ماﺅں سے زیادہ الفت رکھنے والے رب کی جانب لوٹنا ہو گا۔قدرت بار بار وارننگ دیتی ہے اور اُس کے بعد انصاف پر اُتر آتی ہے اور یاد رہے فطرت جب انصاف کرتی ہو تو پھر رحم نہیں کرتی۔۔۔

ہر چند کہ مخلوق ِخداکی بداعمالیاں نکتہ ہائے عروج کو چھو رہی ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ حکمران اشرافیہ اوراسکے متمنئی افراد کی اقرباپروری‘کرپشن‘ناقص پالیسیوں اور عوام کے درد سے بے اعتنائی بھی اس لامنتاہی تباہی کے سلسے کو دعوت دینے میں اہم کردار ادا کرگئی۔اعتبار ساجد کے چند اشعار ترمیم کے ساتھ حکمرانوں کی نذر:
کیوں ہے شعر لہو رنگ تجھے کیا معلوم
میرے جذبات کی فرہنگ تجھے کیا معلوم
پیاس کیسی ہے لہو دل کا طلب کرتی ہے
زردکیونکرہے میرا رنگ تجھے کیا معلوم
موجیں اک سادہ سی بستی کی دشمن کیوں
مجھ پہ کیوں اُٹھتاہے ہرسنگ تجھے کیا معلوم
اک طرف سیلاب ادھر بھوک کے بے انت عذاب
دو محاذوں پہ ہے یہ جنگ تجھے کیا معلوم
کس لیئے لوگ اُڑاتے تھے مرے دین کا مذاق
کس لیئے لوگ ہیں اب دنگ تجھے کیا معلوم
کتنے دکھ سہتا ہوںتب” انقلاب “کہتا ہوں
میرے دن رات کا آہنگ تجھے کیا معلوم

پیچ وتاب کھاتی تاریخ کے اوراق آج بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ جب حضرت عمرؓکے زمانے میں اہل مصر کو نیل کی طغیانی نے آ گھیرا اور حسین دو شیزہ کے دریا برد کرنے کے بعد لہروںکے تلاطم میں ٹھہراﺅ کی خبریں جب ابن خطابؓتک پہنچیں تو آپ نے دریائے نیل کے نام پیغام لکھ کر بھیجا جس کا مفہوم ہے”اگر تو اپنی منشاءسے چلتا ہے تو رواں رہ لیکن اگر تیری لہریں اللہ کی مرضی سے حرکت میں آتی ہیں تو تھم جا“۔

آپ کے حکم کے مطابق جب اس خط کو جب دریائے نیل میں ڈالاگیا تو اس لمحہ سے لے کر آج تک اہل مصر نیل کی ظلمت سے محفوظ ہیں۔ہے کوئی ایسا حکمران (یاسیاسی لیڈر)جس کے الفاظ میں اتنی تاثیر ہو۔اگر ہے تو سیلاب کی لہروں کو تھام کر دکھائے۔یہ وہی عمرفاروقؓہیںجنھوں نے فرمایا تھا”اگرفرات کے کنارے کتے کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تواس کا جواب دہ عمر ہوگا“۔آپ اپنی نوعیت کے پہلے حکمران ہیں جنھوں نے ریاست کو یہ فلسفہ دیا کہ آزاد جانوروں کی دیکھ بھال کا انتظام وانسرام بھی حاکم وقت کی ذمہ داری ہوناچاہیئے۔اس عالی شان فرمان کی روشی میں ہماری بربادی کا موجب کون ہے؟ذرا سوچیئے
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174794 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.