قاتل گیم

اس کالم میں ہم نے بات کی ہے کہ پب جی گیم کھیلنے سے انسانی دماغ کس حد تک متاثر ہوتا ہے۔

آپ کے گھر میں اگر نوجوان اور بچے موجود ہیں تو ان کے موبائل فون میں دیگر ایپلیکیشنز کے ساتھ ساتھ پب جی گیم بھی ضرور انسٹال ہوگی۔ میں نے پب جی کا نام کچھ عرصہ قبل سنا اور چونکہ میں بھی گیمنگ کی بہت بڑی شوقین ہوں تو دوستوں کے کہنے پر میں نے پب جی گیم اپنے موبائل میں انسٹال کر لی۔ دو مہینے مسلسل گیمنگ کی اس دوران میرے گریجویشن کے امتحانات بھی چل رہے تھے تو ذہن ہلکا کرنے کے لیے تھوڑی تھوڑی دیر بعد پب جی کا ایک راؤنڈ کھیل لیا کرتی۔ امتحانات ختم ہوئے اور پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں پب جی گیم کی ایڈکشن میں مبتلا ہو گئی۔ اس بات کا اندازہ مجھے جب ہوا جب گھر والوں نے مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ میں ان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے بہت دور ہوں۔

ہمارے گھر میں سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں لیکن کھانے کے دوران مجھے اتنی جلدی ہوتی کہ جلد سے جلد کھانا ختم کر کے پب جی گیم کھیلنے کے لیے اپنے کمرے کی طرف چلی جاؤں ۔ گھر والوں کے احساس دلانے پر میں نے نوٹس کیا کہ اس گیم کو کھیلنے کی وجہ سے میرا وژن بھی بلر ہونے لگا ہے روشنی دیکھ کر تیز چکر آتے ہیں اور پہلے کی طرح گھر والوں کے ساتھ وہ بانڈنگ بھی نہیں رہی جو کچھ عرصہ قبل تھی۔ جب یہ سب ہوا تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ بس وہی پوائنٹ تھا جب میں نے وہ گیم ان انسٹال کیا اور اپنی روٹین لائف میں واپس آگئی۔

آج سے تقریبا پانچ سال پہلے ریلیف کی جانے والی پلیئر ان نان بیٹل گراؤنڈ یعنی "پب جی" کو دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہونے والی گیمز میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جون 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پب جی کے 80 کروڑ سے زائد ایکٹو صارفین تھے جن میں سے اوسطا تین کروڑ افراد روزانہ کی بنیاد پر یہ گیم کھیل رہے تھے۔ پب جی اس وقت دنیا کی دوسری سب سے زیادہ کھیلی جانے والی گیم ہے۔

اسے جنوبی کوریا کی بلیو ہول نامی کمپنی نے 2017ء میں لانچ کیا تھا۔ یہ گیم پہلے تین ماہ میں ہی اتنی مشہور ہوئی کہ اسے تین کروڑ لوگ اپنا چکے تھے ۔ فی الوقت یہ سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کما رہی ہے ۔ بنیادی طور پر پب جی ایک شوٹنگ گیم ہے جس میں کھلاڑیوں کا مقصد ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار کر آخری دم تک زندہ رہنا ہوتا ہے۔ اور اس گیم کو ایک دو یا پھر چار بندوں کی ٹیم کے طور پر کھیلا جاتا ہے۔ گیم کی شروعات میں 100 کھلاڑی جہاز سے کود کر ایک بیاباں جزیرے پر اترتے ہیں۔ زمین پر اترتے وقت کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کا ہتھیار موجود نہیں ہوتا۔

اس لیے ان کی پہلی کوشش جزیرے پر موجود بوسیدہ عمارات اور کھنڈرات میں پڑے ہوئے ہتھیاروں کو استعمال میں لانا ہوتا ہے تاکہ وہ مخالف کھلاڑیوں کو موت کے گھاٹ اتار سکیں۔ ایک عام پب جی گیم کا دورانیہ تیس منٹ تک ہو سکتا ہے اور گیم میں دلچسپی برقرار رکھنے کی خاطر ہر چند منٹ بعد نقشے پر موجود کھیل کا ایریا سکڑتا چلا جاتا ہے۔ کھیل کے ایریا سے باہر رہنے والے کھلاڑی رفتہ رفتہ زخمی ہونے لگتے ہیں اور اگر وہ بروقت کھیل کے لیے مختص کیے گئے محفوظ ایریا میں نہیں پہنچتے تو مرنے کی وجہ سے اسے گیم سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔

کھیل کا ایریا سکڑنے کی وجہ سے کھلاڑیوں کے لیے بھی میدان جنگ تنگ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور مجبوراً انہیں ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں بچنے والا ہی فاتح قرار پاتا ہے۔ چند عرصہ قبل ایک خبر سامنے آئی جس خبر نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ خبر یہ تھی کہ پب جی گیم کھیلنے کے عادی ایک لڑکے نے اپنی ماں، بھائی اور اپنی دو بہنوں کی جان لے لی تھی۔ پولیس کے مطابق ملزم نے گھر میں موجود والد کے پستول سے ماں، بہنوں اور بھائی کو قتل کیا تھا جس کے بعد مبینہ قاتل ٹاسک مکمل ہونے کے نشہ میں گھر کے نچلے حصہ میں آ کر چین کی نیند سو گیا۔

اس سے قبل بھی بھارتی شہر ہریانہ سے ایک خبر سامنے آئی جسمیں سترہ سالہ لڑکے نے والدین کے گیم کھیلنے سے روکنے پرخودکشی کر لی۔ اس کی ماں اسے ہر وقت گیم کھیلتا دیکھ کر پریشان رہتی تھی۔ چند ماہ قبل اسے سکول سے فیل ہونے پر نکال دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ اس گیم کو ضرورت سے زیادہ وقت دینے لگا۔ ایک روزوہ اپنے کمرے میں لیٹا پب جی کھیل رہا تھا کہ ماں کو غصہ آ گیا۔

اس کی ماں اسے کئی مرتبہ آوازیں دے چکی تھی۔ دو مرتبہ اس کا کھانا گرم کر کے اس کے آگے رکھا ‘لیکن اس نے نہیں کھایا‘ تیسری مرتبہ جب وہ اس کے کمرے میں گئی تو کھانا ویسے کا ویسا پڑا تھا۔ اس کی ماں نے غصے میں اس کے ہاتھ سے موبائل فون چھین لیا۔ وہ لڑکا گیم میں اپنے ساتھیوں کو فائرنگ کر کے قتل کر رہا تھا۔جب اس کی ماں نے اس سے موبائل چھینا تو اس نے گیم ادھوری رہنے کی خلش دل پر لگا لی۔

اگلے روز اس کی لاش کمرے میں پنکھے سے جھولتی ہوئی ملی۔ ماہرین ِ نفسیات کے مطابق؛ اس گیم کی وجہ سے دنیا بھر میں بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت‘ مزاج اور طبیعت میں کئی طرح کی خرابیاں نمودار اور پرورش پا رہی ہیں‘ جن میں چڑچڑا پن‘ ذہنی جسمانی و نفسیاتی عارضے‘ سماجی تنہائی‘جرائم کی طرف رجحان اور اسلحے کا ناجائز استعمال ہے۔ان منفی اثرات کے باعث کئی ممالک میں اس گیم پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ان میں اردن ‘ عراق‘ نیپال اور بھارتی گجرات شامل ہیں۔

ایسی مار دھاڑ پر مبنی ویڈیو گیمز کی وجہ سے بچے دماغی طور پر بہت زیادہ سست ہو جاتے ہیں ۔ گیم میں وہ صرف ایک دوسرے کو گولیاں مارنا سیکھتے ہیں‘ جدید سے جدید اسلحہ استعمال کرتے ہیں‘ گرنیڈ پھینکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روزانہ کئی کئی گھنٹے مسلسل اس میں کھوئے رہتے ہیں‘ اس لئے اس کے اثرات ان کی زندگی پر بھی آتے ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں اپنی ماں اور اپنا باپ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہر اس شخص سے انہیں نفرت ہو جاتی ہے‘ جو انہیں یہ گیم کھیلنے سے روکتا اور ناپسند کرتا ہے۔ چونکہ یہ گیم مفت ہے اور چوبیس گھنٹوں میں جب چاہے جتنا چاہے انٹرنیٹ استعمال کر کے کھیلی جاتی ہے‘ اس لئے دیگر کام‘ مثلاً: پڑھائی‘ نیند اور دیگر کام شدید متاثر ہوتے ہیں۔

ماضی میں جب موبائل فون نہیں تھے تو یہی گیمیں بازار میں جا کر کھیلنا پڑتی تھیں‘ ہم بھی کھیلتے تھے‘ لیکن یہ گیمیں مفت نہ تھیں‘ بلکہ ٹوکن خریدے جاتے اور ایک گیم پانچ سات منٹ میں مکمل ہو جاتی۔ جو بہت زیادہ پلیئر ہوتا وہ زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ کھیل لیتا۔ اس کے بعد یا تو اس کے پاس پیسے ختم ہو جاتے یا پھر دکان بند ہو جاتی‘ لیکن موبائل فونوں کی شکل میں جو چوبیس گھنٹے کی دکانیں ہر کسی کے ہاتھ میں کھلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے نوجوان نسل کا رہا سہا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ بچے پہلے ہی مطالعے سے دور تھے ‘ پب جی اور فورٹ نائٹ جیسی گیموں نے انہیں خود سے بھی دور کر دیا ہے۔

وہ سماجی طور پر منقطع ہو رہے ہیں۔ ان کے لئے گیموں کے کردار ان کی زندگی کے اصل کرداروں اور پیاروں سے زیادہ اہمیت کے حامل بن چکے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ والدین بچوں سے موبائل فون واپس بھی نہیں لے سکتے کہ یہ ایک طرح کی ضرورت بن چکا ہے‘ لیکن اس کا استعمال کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں کوئی فکر مند نہیں ہے۔ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت بے روزگار ہے۔ وہ پہلے ہی فرسٹریشن کا شکار ہے۔ موبائل فون گیمنگ کے اس نشے نے ان کی اس فرسٹریشن کو مزید بڑھا دیاہے۔

ایسی گیموں سے نوجوان نسل کو تو پتا نہیں کچھ مل رہا ہے یا نہیں‘ لیکن گیم بنانے والی کمپنیاں اربوں ڈالر ضرور کما رہی ہیں۔ آج اس کے پچاس کروڑ ڈائون لوڈر ہو چکے ہیں تو ایک دو برسوں میں ایک ارب ہو جائیں گے اور منافع بھی دوگنا ہو جائے گا‘ لیکن ذرا سوچیں دنیا کی سات ارب میں سے ایک ارب نوجوان آبادی اگر ایک دن میں دس دس گھنٹے موبائل فون پر ایک دوسرے کا قتل عام اور خون بہانا سیکھنے میں گزار دے گی تو ایسی نوجوان نسل اس دنیا کو کیسا مستقبل دے گی؟ ٹیکنالوجی کی حامل عالمی کمپنیاں نوجوانوں بالخصوص بچوں کو بہت زیادہ ٹارگٹ کر رہی ہیں۔یہ بچے اور یہ نوجوان ان کے لئے بہت زیادہ نفع بخش مارکیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

وہ زیادہ سے زیادہ پرکشش گیمیں بنا رہے ہیں اور منافع بھی کما رہے ہیں‘ لیکن یہ نہیں سوچ رہے کہ ان کے اس اقدام سے دنیا کتنی خطرناک کھائی کی جانب جا رہی ہے۔ آپ کو پب جی گیموں کے اثرات اپنے اردگرد بھی دکھائی دیں گے۔

ایسی گیموں سے چار چھ برس کے بچے بھی لڑائیاں اور ماردھاڑ ہی سیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سکولوں میں بریک کے دوران آپ کو ہر طرف لڑکے ایک دوسرے کو دھکے دیتے‘ مکے مارتے اور bullyingکرتے دکھائی دیں گے۔ حکومت وقت کو اپنے نوجوانوں کو اس گہری کھائی میں گرنے سے بچانے کے لئے بھی آگے بڑھنا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ معاشرے میں پب جی جیسے خاموش زہر کی شکل میں عدم برداشت‘ تشدد اور جرائم میں اضافے کا تیر کمان سے نکل جائے‘ پب جی جیسی گیموں پر فوری پابندی لگا دینی چاہیے۔

Abida Asif
About the Author: Abida Asif Read More Articles by Abida Asif: 2 Articles with 667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.