موسمیاتی تبدیلیاں زریعہ معاش اور انسانی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لئے کطرے کی گھنٹی ہے ۔ اس کے نقصانات کو کنترول کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ حکومت، عوام اور باوثوق افراد کو مل کر ان حالت کا سامنا کرنا پرے گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔ عوام کو آگاہی دی جائے اور درخت لگائے جائیں اور ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے پلاننگ کی جائے۔

کراچی اپنی پر رونق دلفریب شاموں اور سمندری ہواؤں کی وجہ سے مشہور ہے۔ شام کو کراچی والوں کا گھروں سے نکل کر سڑکوں پر رونق لگانا ہی کراچی کو روشنیوں کا شہر بناتا ہے ، اس جیسی شامیں اور تفریح آپکو شاید ہی ملک کے دوسرے شہروں میں مل سکے !!! کراچی کی شام کا با رونق منظر اب آہستہ آہستہ ماند ہوتاجا رہا ہے، حالات اب بدلتے جا رہے ہیں۔

ایک طرف کراچی والے قتل ڈکیتی اور لوٹ مار کی زد میں ہیں تو دوسری طرف اب گرمی کی لہر کراچی کامعمول بنتی جارہی ہے اور لگتا ہے ہر سال اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ اس شہر کو پوچھنے والا کوئی ہے ہی نہیں ۔۔شدید گرمی میں بھی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے یہاں کی عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ہر بندہ یہاں کسی نہ کسی ڈپریشن کا شکار ہے ۔۔۔۔مسائل تو یہاں بہت ہیں لیکن ہم یہاں اپنا موضوع موسمیاتی تبدیلی کو بنانا چاہیں گے کیونکہ یہ اب ہمارے لئے ایک الارمنگ صورتحال پیداکر رہی ہے۔

گلوبل وارمنگ پاکستانی عوام کی خوشحالی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ ملک تیزی سے اپنی جغرافیائی آب و ہوا (گرم گرمیاں اور سرد سردیوں) کی تبدیلی کا شکار ہے اورمستقبل میں حالات مزید شدت اختیار کرنے کی پیشن گوئی ہے کے نتیجے میں قدرتی آفات کا اندیشہ ہے۔ پاکستان پہلے ہی بار بار آنے والی گرمی کی لہروں کی وجہ سے خشک سالی، سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگ، اور طوفانی بارشوں کا سامنا کررہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلاں مستقبل میں ان واقعات کی شدت میں مزید اضافہ کی نشاندہی کر رہی ہیں ۔ ملک بھر کے درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ کی صورت میں شمال میں برف سے ڈھکے پہاڑوں سےبرفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دریائے سندھ کے بہاؤ میں واضح تبدیلی آ رہی ہے۔

موسم شدت اختیار کررہے ہیں تو بارشوں کے معمول میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں، جیسے گرمی کی بارش اگست میں منتقل ہو رہی ہے اور موسم سرما کی بارش مارچ میں منتقل ہو رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیاں ہماری ذندگیوں کو کس طرح متاثر کر رہی ہیں ؟

سخت موسم ہمارے زریعہ معاش اور انسانی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی بنیادی آمدنی زراعت پر انحصار کرتی ہے۔حالانکہ اب دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا جا رہا ہے اور زراعت کو بھی جدید طریقوں کے زریعے کم وقت میں مؤثر کام لے کر،بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان ابھی تک اپنے گھسے پٹے پرانے طریقوں میں پھنسا ہوا ہے جاگیردار اپنے علاقوں کو ماڈرن کرنا نہیں چاہتے کام ہاتھوں کے زریعے لیا جاتا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری فصلیں ضائع ہو جاتی ہیں ۔دنیا بھر میں ذیادہ سے ذیادہ صنعتیں لگ رہی ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ رفتار تھوڑی سست ہے۔

لوگ معاش کی تلاش میں شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اب ایک تہائی سے زیادہ آبادی قصبوں اور شہروں میں مقیم ہے۔ پاکستان اپنی آب و ہوا کے حوالے سے حساس زمین رکھتا ہے ، ہم جانتے ہیں فصلوں کا بہت زیادہ انحصار صاف پانی پر ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں زراعت اب بھی 42 فیصد آبادی کے لیے روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہےاور تقریباً 90 فیصد زراعت کا انحصار گلیشیئر سے چلنے والے دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں سے ہونے والی آبپاشی نظام پر ہے۔ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں نے گلیشیئر پگھلنے کی رفتار کو تیز کر دیا ہے، جس کی وجہ سے گلیشیر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) اور نیچے کی طرف آنے والے سیلاب کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اب یہ بات توجہ طلب ہے کہ گلیشیر کا تیزی سے پگھلنا، زیادہ درجہ حرارت، بدلتے موسم اور بارش کی بے ترتیبی یہ سارے عوامل دریائے سندھ کے بہاؤ کو تبدیل کر رہے ہیں اور اس سے زراعت سے متعلقہ سرگرمیاں، خوراک کی پیداوار اور زریعہ معاش پر تیزی سے اثر پڑ رہا ہے ۔ ہم تیسری دنیا کے باشندے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی ویسے ہی کمر توڑ رکھی ہے اور ظاہر ہےان حالات کا لوگوں کی صحت پر بہت زیادہ برا ا ثر پڑ رہا ہے۔

لوگوں کی صحت پر اثرات :

گرم ٹمپریچر کی وجہ سے تھکاوٹ، خشک سالی کی وجہ سے غذائیت کی کمی، وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ڈینگی بخار ، ملیریا، کونگو وائرس ،ٹائیفائیڈ، ہیزہ اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بڑھنا لوگوں کے کام کرنے اور روزی کمانے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

گلوبل وارمنگ پاکستان کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جیسے: زرعی پیداوار میں کمی، ساحلی کٹاؤ اور سمندری پانی کی دراندازی میں اضافہ جس کی وجہ سے زیر آب آنے والی بستیوں کے رہائشی نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔

گزشتہ کچھ سالوں سے جیکب آبادصوبہ سندھ پاکستان میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جو کہ انسانی برداشت کے لیے بہت زیادہ ہے۔ یہاں ٹمپریچر 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر تک چلا جاتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ان حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں اور عموما اس درجہ گرمی کا سامنا کرنا ترقی یافتہ ملکوں کے لئے بھی مشکل ہی ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ درجہ حرارت چند گھنٹوں سے زیادہ برقرار رہے تو اس کے نتیجے میں اعضاء کی خرابی یا موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔ جیکب آباد ، موہنجو دڑو ، لاڑکانہ اور تر بت اس حد کو عبور کر چکے ہیں۔ سندھ کا یہ خطہ خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہےاور مستقبل قریب میں یہاں کا درجہ حرارت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

اس سال گزشتہ سال کی بنسبت مجموعی طور پرملک کے بیشتر حصوں میں معمول سے کم بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے زیادہ تر قحط زدہ علاقوں کوشدید دشواریوں کا سامنا ہے ۔

خشک موسم فصلوں کے لیے پانی کی قلت کا بحران پیدا کر رہاہے۔ زیادہ اونچائی پر معمول سے زیادہ درجہ حرارت شمالی علاقوں میں برف پگھلنے کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے جو دریا میں پانی کے دباؤ کو بڑھا رہاہے جس کے نتیجے میں فصلیں ذیر آب آنے کا خطرہ ہے۔

Climate Action Network- South Asia (CANSA) کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ توقع کی جارہی ہے کہ گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے سمندری سطح بلند ہونے کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے اثرات کی صورت میں لوگ اپنےذریعہ معاش سے محروم ہو جائیں گے اور مہاجرین کی ذندگی گذارنے پر مجبور ہوجائیں گے ملک پہلے ہی غربت کی خطرناک حد کو چھو رہا ہے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی، ماحولیاتی نظام کا نقصان، اور خشک سالی پاکستان میں 2030 تک 600,000 سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کر دے گی۔ کسی اقدام کے بغیر، یہ تعداد 1,200,000 کے قریب ہونے کی توقع ہے۔

پاکستان کا ہر خطہ اپنے اپنے اندازسے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔ بلوچستان میں کلین گرین پاکستان پروگرام کے طور پر خشک سالی کے بدترین اثرات کو روکنے کے لیے ڈیموں اور بڑے پیمانے پر درخت لگانے کی مہم پلان کی گئی ہے جو کہ ایک قابل ستائش عمل ہے ۔ (سندھ میں بھی ایسے کچھ منصوبوں کی اشد ضرورت ہے)۔ بلوچستان کے باشندوں کی اکثریت زراعت اور ماہی گیری پر انحصار کرتے ہیں ۔ خشک سالی اور دیہی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کسانوں، ماہی گیروں اور پانی پر انحصار کرنے والے دیگر افراد کو شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ آب و ہوا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہے۔

انسانی سرگرمیاں جیسے ایندھن کو جلانا، فیکٹریوں سے زیادہ دھوئیں کا اخراج اور جنگلات کی کٹائی نے زمین میں گرین ہاؤس گیسوں (GHGs) خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کے ارتکاز میں کافی زیادہ اضافہ کیا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا بنیادی سبب ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہے ۔ کراچی میں بھی آلودگی اس سے ذیادہ ہی ہو لیکن سمندر ہونے کی وجہ سے آلودہ ہوا سمندر کی طرف چلی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کم آلودہ ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔

دنیا کی آب و ہوا پر گلوبل وارمنگ کے اثرات:

گلوبل وارمنگ اس صدی میں ہمارے سیارے کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر ابھری ہے۔ ماحولیا تی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری بیرونی فضا میں GHG کے بڑھنے کی وجہ سےگذشتہ 100 سال میں زمین کے درجہ حرارت میں 1.19 ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں زمین کو بدلتے موسم کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہے جیسے سیلاب، قحط، قدرتی آفات ،خشک سالی ، سمندر کی سطح کا بڑھنا اور طوفان وغیرہ۔

پاکستان میں حالیہ موسمی آفات:

موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کے انڈیکس (CCVI) میں پاکستان ایک سال میں 13 پوزیشنوں کو کراس کر کہ16 ویں نمبر پر ہے اور 1990-2010 میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ٹاپ 10 ملکوں میں ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے معیشت پر سالانہ 14 بلین ڈالر لاگت آ رہی ہے جو کہ جی ڈی پی کا تقریباً 5 فیصد ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی بے شک ایک چیلنج ہے لیکن ہر مسلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہوتا ہے۔ تو آ ئیے دیکھتے ہیں کہ ہم اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؛

• عوام کو آگاہی دی جانی چاہئے کہ ماحولیاتی آلودگی کے کیا نقصانات ہیں اور اس کو حل کرنے کے لئے کیا کیا جانا چاہئے۔ پو دوں کے بجائے درخت لگائے جائیں ۔پودے کاٹنے پر سزا مختص کی جائے۔

• ترقی یافتہ ممالک میں پرائیویٹ گاڑی میں اکیلے آدمی کے سفر کو discourage کیا جاتاہے تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو بڑھاوا دیاجائے ۔ پارکنگ مہنگی کی گئی ہے اور بہترین زرائع نقل و حمل کا انتظام کیا گیا ہے۔ پیدل چلنے کے لئے بہتریں فٹ پاتھ بنائے گئےہیں ۔ یہ حکومت کی زمہ درای ہے کہ ٹریفک سے ہونے والی ہوا کی آلودگی کو کم کرنے کیلئے شہروں میں عوامی ٹرانسپورٹ کو بڑھا ئیں اور پیدل چلنے کے لئے فٹ پاتھ بنائیں۔

ہمارے یہاں پیدل چلنے کے لئے جگہ ہی نہیں چھوڑی گئی ہے، سڑکوں پر بھی لوگ گاڑیاں پارک کر دیتے ہیں ۔زیبرا کراسنگ تو بنانے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔سڑک کراس کرنا کسی جہاد سے کم نہیں لگتا۔

• پینے کےصاف پانی کی فراہمی کے منصوبے بنائے جا ئیں ۔ زرعی زمینوں میں کیمیائی دواؤں کی مقدار کو کم کر کہ بہتر زراعتی تدابیر کو اپنایا جائے۔ مختلف مہم چلائی جائیں کیونکہ حکومت، عوام، اور صنعت کے درمیان ہم آہنگی کو بڑھانا بہت اہم ہے تاکہ ماحولیاتی مسائل کا حل ممکن ہو۔

حالات بہت ہی تاریک مستقبل کی پیشن گوئی کر رہے ہیں ۔ بہتر ہے ہم حالات کو سنجیدگی سے سوچیں یہ لانگ مارچ اور سیاسی گہما گہمی سے ہمیں کیا حاصل ہے کیا کبھی کسی سیاسی لیڈر کی تقریر میں ان الارمنگ حالات سے آگا ہی دی گئی ہے؟ ۔۔۔ بالکل بھی نہیں ۔۔کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو ان حالات سے نمٹنے کے لئے کو ئی پلان تیار کرے ۔ عوام کو اب سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان کی بہتری کے لئے کس لائحہ عمل کے ساتھ حکومت بنانا چاہتے ہیں ۔ووٹ اسی بنیاد پر ڈالے جائیں۔

عوام یہ کر سکتی ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ درخت لگائیں ، ذمین کے وسائل کو ضائع نہ کریں ، ماحولیاتی آلود گی سے متعلق سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر زمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اپنے ملک کے استحکام کے لئے آواذ اٹھا ئیں ۔ سر سبزوشادا ب پاکستان ۔۔۔۔۔ مستحکم و خوشحال پاکستان !!!!!!

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Erum Jamal Tamimi
About the Author: Erum Jamal Tamimi Read More Articles by Erum Jamal Tamimi : 22 Articles with 19677 views Masters in Mass Communication, I feel writing is a best way to help the the society by becoming voice of common man... View More