ہمارے معاشرے کے بہت سارے مثبت پہلو ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ مسائل اور منفی پہلو اس طرح کے ہیں ۔جن پر بہت زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے۔اس وقت بہت سارے لوگوں کو بے اولادی جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔لیکن ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں پر ان مسائل پر کبھی بھی بات کرنا آسان تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل سے واقف ہو اور اس کے حل کے لیے سدباب کر سکے۔ نوجوان جو کہ اس معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔بہتر مستقبل اور زمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز عمر کے آخری سطح پر کرتے ہیں ۔جس کیوجہ سے انہیں اولاد کی خواہش میں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔اسی کیوجہ سے کبھی عورت کو قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہوتا ہے اور کبھی مرد کیطرف انگلی اٹھ رہی ہوتی ہے ۔اور یہ ایک ایسا گھمبیر مسلئہ ہے جو کئی ہنستے بستے گھر اجاڑ دیتا ہے ۔ ایک نوجوان جو بہت ساری زمہ داریوں کیساتھ اپنے مستقبل کے لیے بھی فکر مند ہوتا ہے۔انہی فکروں میں گھر کر بہت ساری منفی عادتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔جن میں تمباکو نوشی سہر فہرست ہے۔جو کہ ویسے تو بہت ساری بیماریوں کی جڑ ہے لیکن بے اولادی کے مسائل بڑھانے میں اس عادت کا کلیدی کردار ہے ۔بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہے ۔ پچھلے دنوں ایک ڈاکٹر ساجدہ شاہنواز صاحبہ سے ملاقات ہوئی ۔جن کی اس سلسلے میں کافی ریسرجز سامنے آئی ہیں۔یہ پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہے ڈاکٹر صاحبہ کی انہی ریسرچ کی بنیاد پر امریکن طبعی ماہرین نے ایشیا میں اکسی کوئین کا ایوارڈ دیا۔ان سے اس میں کافی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔انکے مطابق پاکستان میں تقریباً چالیس لاکھ جوڑے بے اولادی کے مسائل کا شکار ہیں ۔اور اس سلسلے میں ہمارا طرز زندگی ,موٹاپا, شراب نوشی، سگریٹ نوشی، منشیات کا استعمال مردوں کو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کے علاؤہ خاندان میں شادیاں اور دیر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا جیسے مسائل بے اولادی کی شرح کو بڑھا رہے ہیں۔اور اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں طلاق کی ریشو ہر آنے والے دن کیساتھ بڑھ رہی۔بے ڈاکٹر ساجدہ شاہنواز صاحبہ کے بقول انہوں نے ان مسائل کو دیکھتے ہوئے اور انکے ادراک کے لیے پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ہمارے معاشرے میں جہاں آپ اس طرح کے مسائل کے اوپر کھل کر بات نہیں کر سکتے وہاں پر ایک خاتون کا اس طرح کا قدم جو کہ عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے لیا گیا ہے ۔ایک قابل فخر اقدام ہے۔ڈاکٹر ساجدہ شاہنواز کا کہنا تھا کہ بے اولاد جوڑوں کو اینڈوکرائنالوجسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ اب نئی ادویات اور جدید طریقہ علاج سے تقریبا 70 فیصد جوڑے اولاد کی نعمت حاصل کر سکتے ہیں۔ وہاں پر بہت سارے مریضوں سے جب اس سلسلے میں بات ہوئی تو انکے مطابق انہیں بے اولادی کے مسائل میں اسطرح کی باتوں کا ادراک نہیں تھا۔بے اولادی کے مسائل کا علاج مہنگے اور مشکل ترین علاجوں میں شمار کیا جاتا ہے۔اور پاکستان میں اس طرح کے علاج کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔کچھ ادارے جو کہ ملک کے بڑے شہروں میں علاج کی سہولت فراہم کر بھی رہے تھے۔انکے اس پروسیجر کو بہت مشکل اور مہنگا ترین طریقہ علاج کہا جا سکتا ہے جہاں عام فرد کی پہنچ نہ ہونے کے برابر تھی ۔لیکن کچھ مریضوں کے رائے جان کر بہت اچھا لگا کہ انکو اس سلسلے میں کافی حد تک ساجدہ شاہنواز کی جانب سے رعائت دی جاتی ہے۔ہمارے علاقائی رسم رواج ابھی بھی ایسے ہیں کہ جہاں پر خواتین کا ایسے مسائل پر مرد ڈاکٹر سے بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے وہاں پر اسطرح کی خاتون معالج کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر کا شعبہ مسیحائی کا شعبہ ہے۔ اور اس شعبے میں اگر انسانیت کا درد رکھنے والے افراد شامل ہوں تو عام لوگوں کی زندگی میں بہت سارے مسائل کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
|