بچوں پر ٹیکنالوجی کے منفی اثرات

ٹیکنالوجی اور میڈیا کی مسلسل ترقی نے یقیناً ہمارے لئے سہولیات کا ایک مکمل، تیز رفتار اور قابل اعتماد جہان آباد کر دیا ہے جو کام پہلے کئی کئی دن تک مکمل ہوتے تھے وہ کمپیوٹرائزڈ ٹیکنالوجی کے مختلف ذرائع کی بدولت صرف چند منٹوں میں وقوع پزیر ہو جاتے ہیں ہر گھر میں کمپیوٹر اور اس سے متعلقہ devices کا ہونا ناگزیر ہو گیا ہے بلکہ اب تو موبائل ہی چلتا پھرتا کمپیوٹر بن گیا ہے جس کی بدولت ہم دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر اپنی ذاتی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کوسنبھال سکتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر چیز کے جہاں مثبت پہلو سامنے آتے ہیں وہیں منفی پہلوؤں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔

پچھلی دو دہائیوں میں الیکٹرانک میڈیا کی ترقی نے ماحول اور طرز زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے پہلے لوگوں کو عزیزو اقارب کی خبریں لینے کیلئے ایک دوسرے کے گھروں میں جانا پڑتا تھا مگر اب ملنے جلنے کا یہ مسئلہفیسبک نے قطعی حل کر دیا ہے۔

فیسبک پہ لگنے والے سٹیٹس اور تصاویر سے ہی حتمی اندازہ ہو جاتا ہے کہ دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ ساتھ غیر متعلقہ لوگوں میں آجکل کیا کچھ چل رہا ہے یہ سوشل ویب سائٹ جو اپنی طرف سے تعلقات کو مضبوط کرنے کیلئے بنائی گئی تھیں لیکن صورتحال دراصل مختلف ہو گئی رشتے یکسر ٹوٹ گئے اور دوستیوں کی جڑیں کھوکھلی ہو گئیں جہاں بالغ افراد میں لڑائی جھگڑے اور ان گنت قطع تعلقات کا باعث بنی۔ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ بچوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کررہا ہے۔

چھ سے بارہ سال کے بچوں کیلئے رات دن ایسی گیمز ایجاد ہورہی میں جن میں تشدد، قتل و غارت اور جنسی بے راہ روی جیسی سرگرمیاں بآسانی بچوں تک پہنچ رہی ہیں جس کی وجہ سے بچے ضدی، تشدد پسند اور تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں ساتھ ہی مسلسل بیٹھ کر گیمز کھیلنے یا انٹرنیٹ کے غیر ضروری استعمال سے جسمانی ورزش اور کھیل کم ہو کے رہ گیا ہے جو کہ بچوں کی جمانی اور ذہنی نشونما کیلئے بہت نقصان دہ ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہورہی ہے۔ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ ہمارے گھروں میں تو پیدا ہوتے ہی بچوں کو کھلونوں کی جگہ موبائل فون، ٹیبلٹ یا آئی پیڈ پکڑا کر مختلف گیمز سکھلائی اور غیر ضروری ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں یہاں تک کہ شیر خوار بچوں کے ہاتھوں میں. ‏devices ایسے ہی پائی جاتج میں جیسے کہ ان کا ذاتی فیڈر۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ذہن اپنے ماں باپ، خاندان، مذہب اور ماحول سے سیکھنے کی بجائے ان لا مذہبی اور غیر اخلاقی ویڈیوز اور گیمز سے ہر چیز سیکھنا شروع کر دیتے ہیں جوکہ ان کی دماغی نشونما کیلئے بری طرح خطرناک ہے کیونکہ ایسے بچوں میںسیکھنے کی معذوری اور توجہ کی کمی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہے۔ ‏گندگی کے اس دور میں سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح اپنے بچوں کو ہر ممکنہ حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں چونکہ اتنے زیادہ exposure میں مکمل اجتناب تو مشکل ہی نظر آتا ہے مگر کوشش کریں کہ بچے جب بھی موبائل یا ٹیبلٹ میں انٹرنیٹ استعمال کریں تو آپ ان کی وقتا فوقتا نگرانی کریں کوشش کریں کہ بچے کم سے کم ویڈیو گیمز اور زیادہ سے زیادہ فزیکل گیمز میں حصہ لیں۔

بچوں کے کمرے میں ٹی وی یا کمپیوٹر رکھنے سے گریز کریں کمپیوٹر، ٹی وی ٹیبلٹ اور ایسی تمام تر سہولیات کا استعمال صرف ایسی جگہ تک محدود کریں جہاں آپ مسلسل نظر رکھ سکیں چونکہ زیادہ روک ٹوک سے بچے باغی ہو جاتے ہیں لہذا انھیں پیار سے سمجھائیں اور ان کو خود سے بہت قریب رکھیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں ہونے والا کوئی بھی مسئلہ محض آپ کے ڈر اور خوف کی وجہ سے چھپ کر خود کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کی ہر برائی خوبصورت ترین طریقے سے ہمارے بچوں کے سامنے پیش کی جارہی ہے ان کے ذہن معصوم ہیں ، لہذا یہ ماں باپ اور تمام بالغ افراد کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اپنے بچوں بلکہ دوسروں کے بچوں کو بھی ان آفات سے بچانے کیلئے موثر اقدامات کریں کیونکہ یہ معاشرتی مسئلہ ہے یہی بچے ، یہی نوجوان ہمارا اور قوم کا مستقبل ہیں اس لئے ہمیں انھیں مثبت سرگرمیوں سے روشناس کرانے اور ہر طرح کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کی ممکنہ کوشش کرنی ہے کام واقعی مشکل ہے اور بہت سارا وقت بھی درکار ہے مگر اپنے کل کو محفوظ کرنے کیلئے آج کا کچھ حصہ تو قربان کر سکتے ہیں ناں نتائج انشاء اللہ پر امید ہوں گے.

tooba ashraf
About the Author: tooba ashraf Read More Articles by tooba ashraf: 3 Articles with 1155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.