اس میں کوئی شک نہیں کہ چین امریکہ تعلقات اپنی نوعیت کے اعتبار
سے دنیا کے اہم ترین دوطرفہ تعلقات ہیں اور دونوں بڑی طاقتوں کا عالمی اثرورسوخ ،انہیں
دنیا میں ممتاز مقام پر فائز کرتا ہے۔یہ بھی ایک اچھی علامت ہے کہ حالیہ عرصے میں
دونوں ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان تعمیری رابطے کیے گئے ہیں۔اسی سلسلے کی
تازہ کڑی چین کے صدر شی جن پھنگ اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان چین امریکہ
سفارتی تعلقات کے قیام کی 45ویں سالگرہ کی مناسبت سے تہنیتی پیغامات کا تبادلہ ہے۔
اس تبادلے میں شی جن پھنگ نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ دونوں سربراہان مملکت
کے درمیان طے پانے والی اہم مشترکہ مفاہمت اور نتائج پر سنجیدگی سے عمل درآمد کریں
اور چین امریکہ تعلقات کی مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے
ٹھوس اقدامات کریں۔
شی جن پھنگ نے کہا کہ تاریخ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ باہمی احترام، پرامن بقائے
باہمی اور باہمی تعاون چین اور امریکہ کے لیے دو بڑے ممالک کی حیثیت سے ایک دوسرے
کے ساتھ مل کر کام کرنے کا صحیح راستہ ہے۔ اپنے پیغام میں بائیڈن نے کہا کہ 1979
میں سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات نے امریکہ،
چین اور دنیا کی خوشحالی اور مواقع میں سہولت فراہم کی ہے۔بائیڈن نے کہا کہ وہ اس
اہم تعلقات کو ذمہ دارانہ طریقے سے سنبھالنے کے لیے پرعزم ہیں، انہوں نے مزید کہا
کہ وہ دونوں سربراہان مملکت کے درمیان متعدد ملاقاتوں اور تبادلہ خیال کے ذریعے
امریکہ اور چین کے تعلقات کو آگے بڑھانے کے منتظر ہیں۔
اس سے قبل نومبر میں دونوں رہنماؤں نے سان فرانسسکو میں ایک تاریخی سربراہی اجلاس
منعقد کیا تھا، جہاں شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ چین اور امریکہ کو مشترکہ طور پر
صحیح تصور کو فروغ دینا چاہیے، اختلافات کو مؤثر طریقے سے حل کرنا چاہیے، باہمی
فائدہ مند تعاون کو آگے بڑھانا چاہیے، بڑے ممالک کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھانی
چاہیے اور عوامی سطح پر تبادلوں کو فروغ دینا چاہیے۔ یہ چین امریکہ تعلقات کے پانچ
ستون ہیں۔شی جن پھنگ نے سان فرانسسکو میں کہا کہ اگر کوئی ایک فریق دوسرے فریق کو
ایک بنیادی حریف، جغرافیائی سیاسی چیلنج اور تیزی سے بڑھتے ہوئے خطرے کے طور پر
دیکھتا ہے، تو یہ صرف غلط معلومات پر مبنی پالیسی سازی، گمراہ کن اقدامات اور
ناپسندیدہ نتائج کا باعث بنے گا۔ اس حوالے سے ، مشترکہ طور پر صحیح تصور کو فروغ
دینا پانچ ستونوں میں سب سے پہلے آتا ہے ، جس میں باہمی فائدہ مند تعاون کو آگے
بڑھانا بھی شامل ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کو چین امریکہ تعلقات میں
ایک بنیاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ گزشتہ 45 سالوں میں اگرچہ دوطرفہ تعلقات میں
نشیب و فراز آئے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان تجارت 1979 میں 2.5 ارب ڈالر سے
بڑھ کر 2022 میں 690.6 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔آج ، جب دونوں ممالک اپنے سفارتی
تعلقات کی 45 ویں سالگرہ منا رہےہیں تو دو طرفہ تعلقات ایک نئے نقطہ آغاز پر پہنچ
چکے ہیں اور کاروباری تعاون بھی نئے مواقع لا رہا ہے۔اس ضمن میں چین امریکہ تعلقات
کا استحکام، چینی معیشت کی بحالی اور چین میں اعلیٰ معیار کا کھلا پن ، وہ تین
چیزیں ہیں جو ایک مضبوط تحریک پیدا کر رہی ہیں۔
چین کا موقف اس لحاظ سے بھی واضح ہے کہ چین امریکہ تعلقات کی بنیاد عوام میں ہے اور
طاقت کا منبع عوام کے درمیان دوستی ہے۔یہی وجہ ہے کہ شی جن پھنگ نے گزشتہ سال
امریکی تاجروں، دانشوروں اور سیاست دانوں سے ذاتی طور پر ملاقاتیں کی تھیں۔ مزید
برآں ، انہوں نے دوستانہ امریکی حلقوں کے ساتھ خط و کتابت برقرار رکھی ہے۔صدر شی جن
پھنگ نے نوجوانوں پر بھی اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ دونوں اطراف کے
نوجوان ایک دوسرے کو جان سکیں گے اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام
کریں گے۔ امریکہ میں دوست تنظیموں کی جانب سے دیئے گئے استقبالیہ عشائیہ میں شی جن
پھنگ نے اعلان کیا تھا کہ چین اگلے پانچ سالوں میں تبادلے اور مطالعہ کے پروگراموں
پر 50 ہزار نوجوان امریکیوں کو چین مدعو کرنے کے لئے تیار ہے۔ شی جن پھنگ کی جانب
سے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تبادلوں کو بڑھانے کے لیے ذاتی دلچسپی کی روشنی
میں گزشتہ سال دونوں ممالک کے عوام کے درمیان باقاعدگی سے بات چیت دیکھنے میں آئی
ہے، چین نے براہ راست پروازوں میں اضافے کے بعد امریکہ کے گروپ دورے دوبارہ شروع
کردیے ہیں، فلاڈیلفیا آرکیسٹرا کے 1973 کے دورہ چین کا جشن منانے کے لیے بیجنگ میں
خصوصی 50 ویں سالگرہ کنسرٹ کا انعقاد کیا گیا،چینی فنکاروں نے واشنگٹن کے کینیڈی
سینٹر میں ڈانس ڈرامہ "مولان" پیش کیا اور مختلف شعبوں میں 200 سے زائد امریکی
نمائش کنندگان نے چھٹی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں شرکت کی ، جو ایکسپو کی
تاریخ میں سب سے بڑی امریکی موجودگی کی نشاندہی کرتی ہے۔تاہم ،مبصرین کے نزدیک
دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی سمت پر گامزن رہنے کے لیے لازم ہے کہ فریقین
ایک دوسرے کےبنیادی خدشات اور سرخ لکیروں کی قدر کریں، اور ایسے تعمیری رویے
اپنائیں جس سے اعتماد سازی کو فروغ مل سکے اور دنیا کے مفاد میں ذمہ دارانہ کردار
ادا کیا جا سکے۔
|