”ڈو مور“ کے آگے ”فل سٹاپ“ لگانے کا وقت آگیا

پاک امریکہ تعلقات فیصلہ کن مرحلے پر آن پہنچے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ ہمیشہ یار بنا کر مارتا ہے ۔ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم امریکہ کو اپنا اتحادی گردانتے ہیں اور وہ ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا جارہا ہے۔ وہ پاکستان پر دھوکہ بازی کا تو الزام عائد کرتا ہے لیکن خوداپنے اتحادی کی سا لمیت پر وار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔ امریکہ کی ان دھوکہ بازیوں کا علم ہونے کے باوجود اس وقت کی پاکستان کی قیادت کا دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں کودنے کے فیصلے کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ پورا پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے۔ ہماری معیشت تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ ہماری سالمیت کو پارہ پارہ کیا جارہا ہے۔ پتھر کے دور میں بھیجنے کی دھمکی پر گھٹنے ٹیکنا مہنگا پڑ گیا۔ اس ایک دھمکی کے بعد تو دھمکیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امریکی مطالبے بڑھتے ہی گئے اور ہم اس کی نام نہاد جنگ میں خود کو دھکیلتے ہی چلے گئے۔ اس کی ہر خواہش کو ذراسی ٹال مٹول کے بعد پورا کرتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی من مانیاں بڑھتی گئیں اور پھر ایک دن اس کے سیلز نے پاکستان میں کاروائی کرکے اسامہ بن لادن کو مارنے کا ڈرامہ رچایا۔ اس کی طرف سے پراپیگنڈہ کا ایسا طوفان اٹھایا کہ اس کا جھوٹ سچ ہوگیا اور ہماری خاموشی نے ہمیں مجرم بنا ڈالا۔ گزشتہ دنوں کابل میں ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان کے خلاف امریکی لب و لہجے میں اتنی تلخی آئی جو پہلے کبھی دیکھی نہ گئی تھی۔امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے تو براہِ راست یہ الزام لگا دیا کہ افغانستان میں دہشت گردی پاکستان کرا رہا ہے۔ کابل میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ آئی ایس آئی کی مدد سے ہوا تھا اور دیگر کئی کاروائیاں حقانی نیٹ ورک نے آئی ایس آئی کی مدد سے کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تشدد اور انتہاءپسندی کی پالیسی کا انتخاب کر کے پاکستان نے سٹرٹیجک شراکت داری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی ہر پر تشدد کاروائی میں پاکستان براہ راست ملوث ہے۔ حقانی نیٹ ورک آئی ایس آئی کے ایک حقیقی بازو کے طور پر کام کر رہا ہے۔امریکی سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن سینٹر لند نے تو پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی تک پر غور کرنے پر مشورہ دیا ہے۔ ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرپاکستانی ایجنسیاں امریکی فوجیوں پرحملوں میں ملوث دہشتگردوں کی مددسے باز نہیں آتیں تو امریکا کو اپنے فوجیوں کی حفاظت کی خاطر پاکستان سے حملے روکنے کیلئے فوجی کاروائی پربھی غورکرناچاہئے ۔ اگرپاکستان نے بطور قومی پالیسی دہشت گردی کی حمایت جاری رکھی تو ہمیں تمام آپشنزکھلے رکھنے ہوں گے۔ امریکاسے لڑنے والے دہشت گردگروپوں سے پاکستان کے تعلقات ختم کرانے کے لئے تمام آپشنز پر غور کیا جائے گا۔ اس نے مزید کہا کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی مددیاالقاعدہ کے خلاف جنگ میں سے کسی ایک کاانتخاب کرناہوگا۔ پاکستان کے خفیہ ادارے دہشت گردتنظیموں کی حمایت قومی فرض کے طور پر کر رہے ہیں، اسے ختم ہوناچاہئے۔

الزامات کی اس بوچھاڑ کے بعد پاکستان کے سیاسی و عسکری حلقوں میں بے چینی بلکہ غصہ دیکھنے کو ملا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کورکمانڈرز کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے امریکا کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کیساتھ رابطے اور امریکی تنصیبات پر حملے کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا اور امریکا کے ڈومو رکے مطالبے کو تسلیم نہ کرنے اور پیشرفت سے سیاسی قیادت کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔پاک فوج کے کمانڈروں نے یہ فیصلہ کیا کہ افغانستان سے پاکستان پر حملوں اور دراندازی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایسی کاروائیوں کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔اجلاس میں پاک امریکا تعلقات، امریکی فوجی وسول رہنماﺅں کی طرف سے آئی ایس آئی کے حقانی نیٹ ورک کیساتھ قریبی رابطوں کے الزامات ،پاک افغان سرحد پر دہشت گردی اور طالبان کی کاروائیوں، افغانستان کی طرف سے پاکستان پرحملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال ، ملکی امن وامان اور سیلاب کی صورتحال پر تفصیلی مشاورت کی گئی اور اس سلسلے میں اہم فیصلے کئے گئے۔ کور کمانڈرز نے آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے اہم فیصلے کئے اور ملکی مفاد کے برعکس ڈومور کے امریکی دباؤ کو قبول نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔کور کمانڈرز کانفرنس کے حوالے سے اگرچہ کوئی بیان جاری نہیں ہوا تاہم ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس نے اپنے ایک انٹرویو میں پاک فوج کے موقف کی وضاحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والا پاکستان واحد ملک نہیں، دوسرے ممالک کے بھی رابطے ہیں۔ امن کیلئے دہشت گردوں کے مخالف گروپوں سے انٹیلی جنس اداروں کے رابطے ہوتے ہیں۔دوسری طرف وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جماعتوں اور دیگر رہنماؤں سے رابطے کیے اور پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے موجودہ صورتحال اور حکومتی حکمت عملی کے بارے میں اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم نے سیاسی رہنماؤں کو امریکی الزام ، دھمکیوں اور قومی سلامتی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ تمام رہنماؤں نے قومی سلامتی و خود مختاری اور ملکی سالمیت کے معاملے پر حکومت کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ افغانستان میں اسکے فوجیوں کی حفاظت پاکستان کی ذمہ داری نہیں۔ پاکستان کو حقانی گروپ سے تعلقات کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔قومی سیاسی قیادت نے حکومت کو ملکی سلامتی و خود مختاری کے تحفظ کیلئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ امریکا گزشتہ ایک دہائی سے افغانستان کو طالبان سے پاک نہیں کرسکا ۔ امریکہ کی حکومت کابل سے دس کلومیٹر کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ کابل میں تو امریکیوں پر طالبان کے حملے اور بھی بڑھ گئے ہیں۔امریکہ نے دنیا کے سامنے اسامہ کی موت کا ڈرامہ رچا کر القاعدہ کی کمر توڑنے کا منظر دکھا کر اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑھ دیا تھا مگر اب طالبان کے ہاتھوں اس کی افواج پر ہونے والے حملوں نے اس کی ان کامیابیوں اور دعوﺅں پر پانی پھیر دیا ہے۔ چنانچہ اس کی جانب سے اب پاکستان کے خلاف بلیم گیم شروع کی جاچکی ہے تاکہ اپنی نالاکیوں اور ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اپنے عوام اور دنیا کو گمراہ کیا جاسکے۔سیاسی و عسکری قیادت کو چاہئے کہ وہ امریکی عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا احساس کرے اور ان سے نمٹنے میں کسی کوتاہی سے کام نہ لے کیونکہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد حالات کو اپنی پسند اور اپنے پروگرام کے مطابق جو رخ دینا چاہتا ہے وہ پاکستان کے لئے شدید خطرات اور مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ۔ اس کی طرف سے کسی بھی ایڈونچر کو سامنے رکھ کر حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ کے اس ڈومور کے آگے فل سٹاپ لگا دیا جائے۔ تمام فیصلے قومی مفادات کی تناظر میں طے کئے جائیں۔ پاکستان ایٹمی پاکستان کا وقار برقرار رکھیں اور ایک آزاد اور خودمختار قوم کے لیڈر ہونے کا صحیح کردار ادا کرتے ہوئے برابری کی سطح پر امریکہ سے بات کریں۔ پاکستان کا قومی مفاد ہماری پالیسیوں کا رہنما اصول ہونا چاہیے۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 38881 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.