جس طرح قرآن کریم میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے کہ انسان کو اُتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ وہ کوشش کرتا ہے۔اس کے
مطالب بہت وسیع ہیں۔یہ فقط مسلمانوں کے لئے ہی نہیں،بلکہ تمام انسانوں کے
لئے خطاب ہے کہ انسان اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جتنی جدوجہد کرے گا،جتنا
ذہن لڑائے گا اور جس طرح کی حکمت عملی اپنائے گا، اُس کی محنت،خلوص، اور
لگن کے حساب سے اُسے پھل ملے گا۔غرض جس طرح انسان تگ و دو کرے گا ،اُسی طرح
کی کامیابی اُس کے حصے میں آئے گی۔غور طلب پہلو یہ ہے کہ خدا نے یہ نہیں
کہا ہے کہ اچھائی، نیکیاں،خدمت خلق اور اسلامی اصولوں پر چلنے سے ملے گا،
ہاں اشارہ اس طرف بھی ضرور ہے جو ایمان لا چکے ہیں وہ اچھے امور بجا لانے
میں جتنی کوشش کریں گے اُنہیں اُتنا ہی اجر ملے گا۔ مگر یہاں ارشاد باری اس
طرح فرماتا ہے کہ انسانی کوشش مثبت ہوخواہ منفی ہو ، وہ اپنی کوشش کے
اعتبار سے کامیاب ہوگا ،فائدہ حاصل کرے گا۔اب یہ انسان کی کوشش پر منحصر ہے
کہ وہ کس طرح کی کوشش کرنا چاہتا ہے۔بات یہاں واضع ہے کہ کوشش اچھی ہو یا
بُری کامیابی نیت کی نسبت نہیں بلکہ جہدمسلسل پر مبنی ہے۔ یہ بات تو یہاں
CLEAR ہوگئی۔اب یہاں پر ایک اور توجہ طلب پہلو ہے۔یعنی اچھے کاموں کی کوشش
اور برے امور کی کوشش۔یہاں یہ بات بھی عیاں ہوجائے کہ اچھائی اور برائی کے
امور کو بجا لانے میں بھی ایمانداری اور اخلاص ضروری ہے۔مثال کے طور پر
کوئی ادارہ یا کمپنی اپنی مصنوعات کے فروغ کی خاطر اس طرح کی دوسری کمپنیاں
یا اداروں کو روندتے ہوئے آگے بڑھنا چاہ رہی ہے کہ فلاں فلاں علاقوں میں
بھی میری مصنوعات کی ترسیل ہو۔اب ارادہ تو منفی ہے ،مگر کامیابی کے لئے یا
دوسرے اداروں کو فیل کرنے کے لئے لازم ہے کہ یہ ادارہ اُن سے زیادہ مراعات
فراہم کرے گا۔ساتھ اپنی مصنوعات کے معیار کو مزید بہتر بنانے کی کوشش
کرے۔اگر وہ ادارہ چاہے کہ اُس کی مصنوعات کی ترسیل زیادہ ہو اور وہ منافع
بھی زیادہ کمائے مگر اپنی مصنوعات میں بہتری بھی نہ لائے ،توکیا اس طرح وہ
اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے ؟ قارئین اب ہمیں اپنے مفہوم کو
سمجھنے ،میں یقیناً آسانی ہوگی۔استعماری طاقتیں، یہود و ہنود، اسرائیلی جو
کوئی بھی مسلم دشمن طاقتیں ہوں،مانا کہ اُن کا دین اسلام نہیں ہے ،لیکن وہ
مسلمانوں سے کہیں زیادہ قرآن کریم پر باریک بینی سے غور و خوض کرتے ہیں اور
وہ جس انداز سے غور و خوض کریں اُس میں وہ اپنا فائدہ ہی تلاش کرتے
ہیں۔لیکن پھر وہی بات کہ بے ایمانی میں بھی ایمانداری ضروری ہے۔مگر کامیاب
وہ ہوگا جو عمل کرے گا۔عمل کے بغیر نہ کوئی کامیاب ہوسکتا ہے اورنہ ہی
مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے۔بات کرنے جارہے ہیں ہم امریکی تھنک ٹینک کے
حوالے سے۔ابھی حال ہی میں اسرائیل کی جوانسان دشمنی پر مبنی نیچ حرکت دنیا
نے دیکھی ، اُس کی نہ صرف مسلمان ،بلکہ بیشتر ممالک نے بھر پور مذمت کی۔مگر
وہ ہنوز اپنی جارحیت سے باز نہیں آرہا ہے۔اب سوال پیدا یہ ہورہا ہے کیا
اسرائیل نے پہلی مرتبہ ایسی گھناؤنی حرکت کی ہے؟حقیت میں ایسا نہیں ہے۔
متعدد بار اسرائیل معصوم انسانوں کا اپنے خونی پنجوں سے گلہ دبا چکا
ہے۔فلسطین کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، ایک لمبے عرصے سے انسان کُشی کا کھیل
کھیل رہا ہے۔ اس زخم پر مزید نمک پاشی امریکہ بہادر کر رہا ہے۔اسرائیل کے
حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے ۔ اسرائیل دہشت گردی امریکہ کے ہی اشارے
پرکر رہا ہے ۔وہ بذریعہ امریکہ ہی ایٹمی پاور بنا ہے اور میں یہاں یہ کہوں
گا کہ ایٹمی اعتبار سے یہ ملک کئی بڑے ایٹمی ممالک سے زیادہ ایٹمی اثاثے
رکھتا ہے۔امریکہ اور یورپین ممالک نے اسرائیل کو ایک بدمعاش کی طرح پال
رکھا ہے۔ اس کے ہر جائز و ناجائز مطالبات پورے کرتے ہیں۔ بلکہ یہاں یہ کہنا
بے جا نہ ہو گا کہ اُس نے جو دھما چوکڑی مچا رکھی ہے ،وہ اُس کو بھی برداشت
کر ر ہے ہیں۔اسرائیل کا قیام اُن ممالک کے تھنک ٹینک کی مشاورت سے عمل میں
آیا ہے۔امریکن تھنک ٹینک ہمارے ملک کی طرح نہیں ہیں کہ آج پیٹ بھر کے کھاﺅ
کل اللہ مالک ہے۔بلکہ اُن کاتھنک ٹینک سو ،دو سو سال آگے درپیش آنے والے
حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی بناتا ہے اور یہ ممالک اپنے
کارندوں (ایجنسیوں) کے ذریعے دیگر اقوام کی مذہبی،سیاسی، لسانی، اور
جغرافیائی تنازعات پر باریک بینی سے تحقیق کرتے ہیں۔انکی پرانی تاریخوں کو
کھنگال کر پھر ان کے مابین دوریوں اور کمزوریوں کو اپنے کتابچے میں درج
کرتے ہیں۔وہ اس لئے کہ ان کی تھنک ٹینک کو اپنی دیر پا حکمت عملی بنانے میں
معاونت حاصل ہوسکے۔امریکہ ایمانداری سے اور بنیادی طور پر کام کرتا ہے۔اس
کی ہزاروںمثالیں ہیںمگر اس مثال کے ذریعے اس بات کی تہہ تک جانے کی کوشش
کریں گے۔ہمارا علاقہ گلگت بلتستان میں سیاح کے روپ میں لوگوں کا تانبا لگا
رہتا ہے۔مانا کی ان میں اسٹوڈنٹس کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور یہ اسٹوڈنٹس
مختلف TOPICs پر تھیسس لکھتے ہیں، کوئی کلچر پر،کوئی زبان پر،اور کوئی
درّوں اور پہاڑی راستوں پر تحیقیق کر کے اپنی تھیسس تیار کرتے ہیں یہ کام
سو پرسن حقیقت پر مبنی اور کنکریٹ لیول پر ہوتا ہے۔فرداًفرداً لوگوں سے مل
کر خود اُن علاقوں میں پہنچ کر معلومات حا صل کرتے ہیں۔کیا یہ معلومات صحیح
اور سچ نہیں ہوتے ہیں؟یقینا ہر کوئی ان کی سچی معلومات کی گواہی دے گا۔پھر
یہ تھیسس وہ اپنے یونیورسٹیوں، اداروں میں جمع کروا دیتے ہیں۔تاکہ ان کو
سرٹیفیکیٹ ، میڈلز اور مراعات مل سیکیں۔ظاہر ہے ان کی محنت کا پھل ان کو
ملنا چاہئے اور انکو اپنے اپنے شعبوں میں PHD و دیگر قسم کی ڈگریاں ملتی
ہیں۔اب ڈگریاں لینے والے لے چکے اور اب یہ اپنے کام سے فارغ ہیں۔اب ان کی
ایجنسیوں کا کام شروع ہوجاتا ہے۔سی آئی اے و دیگر ایجنسیوں کے ماہرین ان
تھیسس کا غور سے مطالعہ کرنے کے بعد ایک جامعہ رپورٹ تیار کرتے ہیں اور اس
رپورٹ کو اپنے تھنک ٹینکس کے حوالے کردیتے ہیں یہ آخری مرحلہ ہوتا ہے ان کے
تھنک ٹینک اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعدایک جامع حکمت عملی تیار کرتے ہیں اور
اس پر حکمران عمل کرتے ہوئے اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے
ہیں اور یہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔کونسی ایسی ایجاد ہے جس سے دنیا
مستفید نہیں انسانی ضروریات زندگی کے ہر شعبے میں سہولت کی چیزیں ایجاد یہی
لوگ کرتے ہیں۔عین ممکن ہے یہاں پر آپ کاخیال ہیروشیما اور ناگاساکی کی
تاریخی دہشت گردی کو چھوئے گا۔ظاہر ہے1945ءسے قبل جو ملک ایٹمی قوت بن چکا
ہے اور اُس کو یہ بھی باور ہو کہ میرا کوئی بگاڑنے والا نہیں ہے وہ تو
کرسکتا ہے۔جبکہ ہمارے یہاں ایک چو ہدرہی اپنی طاقت سے درجنوں ہاریوں کو نہ
صرف اپنا غلام بناتا ہے بلکہ انہیں اپنی کھیتی کی طرح استعمال کرتا ہے۔اب
آئیں ان کی سائینسی لیبارٹریوں کی طرف، ان کے سائنٹس تحقیق میں اپنی زندگی
بتا دیتے ہیں۔چاہئے یہ تحقیق ایٹمی ہتھیاروں کے وجود میں لانے کے حوالے سے
ہو یا انسانی بیماریوں پر کنٹرول کرنے پر ہو ، انتہائی محنت اور خلوص سے ان
امور کو سر انجام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ان کی تھنک ٹینک کی حکمت عملی
کی وجہ سے مسلمانوں کو استعمال کر کے روس کے ٹکرے کئے اور اب انہی کو مار
رہے ہیں جہیں ایک زمانے میں امریکن فورس کی مانند ان کی تعریف کیا کرتے
تھے۔امریکی حکمران جو کوئی بھی آجائے وہ امریکن تھنک ٹینک کی مرتب شدہ حکمت
عملی کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا ہے۔ان کے تھنک ٹینک کا ایک شعبہ
اسلامی تمام کتب کی مطالعہ میں لگا رہتا ہے اور ان میں اپنے فائدے کے چیزوں
پر عمل کرتا ہے اور ساتھ مسلمانوں کو باہم دست گریباں کرنے والا مواد بھی
اکٹھا کرتا ہے۔پھراس ونگ کے لا تعداد ایجنٹ ہوتے ہیں جو مسلمانوں کے اندر
ایسے ٹھیکہ داروں کی تلاش میں ہوتے ہیں جنکی کمزوری ، دولت، شہرت، اور دیگر
لوازمات ہوں ۔ان تک رسائی حاصل کرنے کے بعد ان کی خواہشات ان کے تصور سے
بھی کہیں زیادہ پورے کر دیتے ہیں تاکہ انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر
سکیں۔اب ان تھنک ٹینک کی توجہ دنیا کے وسائل پر ہے اور ان کے کارندوں نے
یہاں تک انہیں رپورٹ فراہم کی ہے کہ کسی ایک علاقے میں کھیتی باڑی کے قابل
زمینوں کی خاصیت اور زرخیزی کے حوالے سے بھی رپورٹ فراہم کیا جاچکا ہے۔ایک
خاص بات یہ ہے کہ امریکی تھنک ٹینک بالخصوص پاکستان میں ایک خاص طریقے سے
کام کررہا ہے۔ وسائل کے حوالے سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنا ہوگا کہ
امریکہ کی دیر پا پالیسی کتنی مظبوط ہوتی ہے دیکھیں امریکہ نے مشرقی وسطیٰ
سے خام تیل کے اتنے ذخائر جمع کئے ہیں کہ وہ 27 سال تک اُن جمع شدہ ذخائر
سے چل سکتا ہے اور اپنا تیل ابھی تک استعمال نہیں کر رہا ہے۔جبکہ دوسری
جانب وہ اس طرح کی مختلف گروہوں کے سرپرستوں کو ان کے الگ الگ کارندے انہیں
ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔حال ہی میں آپ نے دیکھا کہ ایک فیصل
شہزاد کے حوالے سے کتنا ہنگامہ برپا کیا۔ابھی حال ہی میں امریکی صدر اوباما
کے سابق مشیر اور CIA کے سابق اہلکار بروس ریڈل کا ایک بیان آیا ہے کہ ،،جنوبی
وزیرستان کے مطالبے پر عمل نہیں ہوا تو یکطرفہ کاروائی پر غور کرینگے،، یاد
رہے کہ بروس ریڈل پاکستان اور افغانستان کے معاملات سے متعلق صدر بارک
اوباما کو مشورے دیتے رہے ہیں ساتھ انہوں نے یہ بات بھی واضع کی ہے کہ
بھارت کی ترقی امریکہ کے اسٹریٹیجک مفاد میں ہےاور پاکستان کے ساتھ دوستی
ان کی 1965ءمیں منظر عام پر آچکی ہے۔ اسرائیل جو ہزار سال سے دربدر پھرتا
رہا زمیں اُن پر تنگ کی گئی کشت و خو ن نہ صرف دیکھا بلکہ صدیوں سے وہ خود
خون میں لت پت رہے، ایک لمبے عرصے سے تیر و تبر کا نشانہ بننی والی قوم
اسرائیل نے بمشکل خود کو سمیٹا اور زمیں کا ایک ٹکڑا حاصل کیا۔ جب اسرائیلی
نے سوچا کہ ہمیں متحد ہونے کے علاوہ وہ دنیا میں طاقتور نہیں بن سکتے ہیں
پھر اسرائیل متحد ہوا اور بڑی طاقتوں سے روابط مستحکم کرنے لگے ۔ اور جب وہ
متحد ہوئے تو اپنے دشمنوں کو ناکوں چنے چپوانے لگے ، اس کی ایک مثال ،جب
نہر سویز ،،کے تنازعہ پر جنگ ہوئی تو اُس دوران اسرائیل نے تمام عرب ممالک
کو شکست دی۔ جبکہ دوسری جانب، مسلمانوں کے ایک مختصر سا گروہ جب متحد ہوا
تو اپنا نام حزب اللہ رکھا اور جب حزب اللہ نے حقیقی اسلامی جذبہ اور مثبت
حکمت عملی کو اپنایا تو وہ اسرائیل جس نے بڑے بڑے دولتمند اسلامی ممالک کو
شکست دی تھی ،اُس اسرائیل کو شکست دے کر دنیا میں مسلمانوں کی لاج رکھنے
میں کامیاب ہوا۔ آجا ئیں اب ایک نظر اسرائیل کی موجودہ غیر قانونی غیر
انسانی اور وحشیانہ حرکت کے پیچھے عوامل پر ڈالتے ہیں۔اسرائیل کی اس حرکت
کی وجہ سے کون کون سے مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک کس طرح کا احتجاج کر
رہے ہیں اور مستقبل قریب میں ہمارے لئے کون زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے
ساتھ ہی مسلمانوں کی باہمی دوریاں کم ہوئی ہیں یا اُسی طرح موجود ہیں۔اس کے
علاوہ دیگر کئی اہم معاملات کو پرکھنے کے لئے وقتا ًفوقتاً کوئی نہ کوئی
حرکت کر ڈالتے ہیں۔کہیں کارٹون بناکر تو کہیں کسی اور زاویئے سے مسلمانوں
کے عزائم اور دم خم مامپا جا رہا ہے۔ اور ایک طرف اس ملک کو قرضے دے دے کر
اتنا مفلوج بنا رکھا اب ہمارا مکمل انحصار قرضوں پر ہے پھر سونے پہ سہاگہ
اس ملک میں بالا دست با اثر اور اہل ثروت طبقے ہی مفاد حاصل کر رہے ہیں اور
زیر دست کچلا طبقہ مزید کچلا جارہا ہے۔سوچنے کی بات اس پر بھی امریکین تھنک
ٹینک نے ایک نتیجہ قبل از وقت اخذ کرچکا ہے۔وہ یہ کہ اُن تجزئیے کے مطابق
وہ وقت جلد آنے والا ہے کہ ان دو طبقوں کی آپس میں بہت جلد ٹھند جائے گی،
اور بھاری نقصا ن کے باوجود زیر دست طبقہ بالادست پہ غالب آجائے گا۔ایسے
میں امریکہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے وہ زیر دست طبقہ جو غربت کی
چکی میں پس تھا اب طاقتور بننے جارہا ہے اُس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے گا،
ان سے کام لینا ان کے لئے زیادہ آسانی ہوگی۔وہ اس طرح کی یہ بچارے لوگ
نسلوں مسائل اور غربت سے نبرد آزما ہوتے چلے آئیں ہیں ،ان کے خواہشات ریت
کی طرح ہونگئے یعنی خشک ریت پر جتنا بھی پانی ڈالو معلوم نہیں پڑتا ایسا ہی
ہوگا اب فطری امر ہے کہ بھوکے کو روٹی ملے گی تو وہ منع تو نہیں کریگا۔اس
کے بعد جب تک ان کو ضرورت ہے انہیں اپنے انداز سے چلائیں گے۔امریکن تھنک
ٹینک کی منصوبہ بندی کی اہم حکمت عملی میں یہ بات شامل ہے ،کہ چاہے ہم دنیا
بھر میں تھانیداری کیوں نہ جمائیں مگر اپنے شہریوں کو اپنی قوم کو کسی بھی
معاملے بھی محتاج نہیں رکھیں گے ہر سہولت ہم انہیں فراہم کریں گے ان کے
ساتھ مکمل انصاف کریں گے۔یہ واقعی حقیقت پر مبنی ہے کہ امریکن شہریوں کو
اپنے آئین کی رو ح سے ہر سہولت میئسر ہے۔امریکی حکومت اپنے عوام کے ساتھ
زیادتی نہیں کرتی۔حتیٰ کہ دیگر ممالک کے شہری جن کو امریکن شہریت حاصل ہے
اُن کو بھی وہ سب مراعات ملتے ہیں جو اُن کے اپنے شہریوں کو حاصل ہیں۔اب
یہاں ایک باریک پہلو نظر آتا ہے وہ اس طرح کہ جب امریکہ کسی ملک پرچڑھاوا
کرتا ہے یا کسی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو امریکن عوام یہ سوچتی ہے کہ
بیشتر ممالک کے حکمران اپنے عوام کے ساتھ اچھا برتاﺅ نہیں رکھتے جبکہ ہماری
حکومت ہمارے ساتھ بر تاﺅ صحیح رکھتی ہے اس کا وہ یہ مطلب لیتے ہیں کہ
زیادتی بھی اُن کی طرف سے ہی ہوسکتی ہے تو لہٰذا، امریکن حکومت حق بجانب
ہوگی ،دیکھیں اپ کتنی گہری سوچ پر مبنی پالیسی ہے پینٹاگان کی۔ ایران پر
قابو حاصل کرنے کے لئے ہر سمت سے گھیرنے کی کوشش جاری ہے۔ مگر میں یہاں ایک
خاص اشارہ دینے کی جسارت کر رہا ہوں اگر ایران پر حملہ کرنے کی کوشش ناکام
ہوئی تو امریکہ اس ہتھکنڈے پر عمل کرے گا۔ وہ اس طرح کی امریکہ ایک ایسا
افوا چھوڑے گا ایران کے حوالے سے جس کا اثر دیگر مسلمانوں پر ہوگا اور پھر
ملسمانوںمیں وسیع تفرقہ بازی پھیلے گی پھر ایران کو ہر طر ف سے تنہا کرنے
کے بعد خدا نہ کرے اسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی تھنک
ٹینک کی پالیسی میںیہ عنصر بھی شامل ہے کہ جب وہ کسی ملک کے خلاف ایکشن
لینے والا ہو تو یہ دیکھتا ہے کہ کہاں کہاں سے اس ایکشن کے خلاف آواز اُٹھ
سکتی ہے، تو اُن علاقوں کے باسیوں کے آپس کے اختلاف کو ہوا دے کر انہیں آپس
میں ہی اُلجھائے رکھتا ہے ،تا کہ اُنہیں فرست ہی نہ ملے کہ امریکن پالیسیوں
کے خلاف سوچ بچار کر سکیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ کراچی میں فرقہ
وارانہ فسادات نے پھر سے جنم لیا ہے یقیناً امریکہ اپنے نمک خواروں کو
استعمال کر رہا ہے، وہ اس لئے کہ پاکستان کے زیادہ تر مسلمان جس میں شیعہ،
سنی دونوں شامل ہیں جو ایران کی حمایت میں آواز اُٹھا سکتے ہیں اور با
لخصوص شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان تو ہمیشہ سے امریکن
پالیسیوں کے خلاف آواز اُٹھاتے آئے ہیں۔لگتا ایسا ہے کہ اس سلسلے کو پورے
ملک میں پھیلانے کی ایک منظم سازش ہو رہی ہے، اور ہمارا علاقہ گلگت بلتستان
میں اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے ، جو پہلے تفرقہ بازی پھیلائے گا سب مسلمان مل
کر اس پر نظر رکھنا ہوگا۔اس لئے تمام مسلمان خواہ ان کے مابین فقہی
اختلافات کیوں نہ پائے جاتے ہوں، وہ عالم اسلام کے مشترکہ مفاد کو مد نظر
رکھتے ہوئے اپنے اندر کے اختلافات کو اگر ختم نہ کر سکتے ہیں تو کم کرنے کی
ضرور کوشش کریں۔ تاکہ اسلام دشمن طاقتوں کے مکرو عزائم خاک میں مل سکیں۔یہ
وقت غفلت کی نیند سونے کا نہیں؟ یہ بیداری کا وقت ہے، مسلمانان عالم کو آپس
میں سر جوڑ کر ٹھوس بنیادوں پر فیصلے کرنے کا وقت آ پہنچا ہے، پھر سے صلیبی
جنگوں کی تیاری ہو رہی ہے، اور ہم مسلمان ہیں کہ آپس میں جنگ و جدل کرنے
میں مصروف عمل ہیں، ہم یہ محسوس ہی نہیں کر رہے ہیں کہ ایک ایسا بڑا اژدہا
منہ کھولے ہمارا پیچھا کر رہا ہے، جو سب کو نگلنے کی خواہش رکھتا ہے ،خدا
را بیدار ی کا وقت ہے اور بیدار ہوجائیں میرے مسلمان بھائیوں؟۔ جبکہ ا
مریکہ کی نظر میں مسلم ممالک کے درمیان ایران اور لبنان کے علاوہ باقی
ماندہ کو friends of amricaگردانتا ہے۔اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بہت سے
امریکن، یوریپینس پینگ گسٹ بن کر لمبے عرصے تک رہائش پزیر ہوتے ہیں اور
کہیں پر فلاحی کاموں میں خود کو مصروف رکھ کر اپنے اصل ہدف تک پہنچ جاتے
ہیں۔عنوان کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں بھی دشمن کی چالوں کو مد نظر رکھتے ہوئے
دیر پا حکمت عملی بنانی چاہئے تو دوسری طرف تعمیرو ترقی میںجدید ٹیکنالوجی
کو حاصل کرنے میں ان کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔در حقیقت اسلام کے اندر بھی
دوسروں کے اچھے روایات کو شامل کیا گیا اور ہر اجتماعی منفعت بخش چیز حاصل
کرنے میں کیا حرج ہے؟اگر ہم شتر مرغ کی مانند سر زمین پر دبا کر زندگی
گزاریں گے تو یقیناً ہمارے آنے والی نسل کو موجودہ حالات سے کہیں زیادہ
مشکلات کا سامنا کرنا کرنا پڑے گا۔بس مدعا یہ ہے کہ ہمیں اسلام
دشمن،انسانیت دشمن طاقتوں کے مکرو فریب اورشیطانی چالوں سے خود کو اور
انسانیت کوبچانے کی خاطر بین ا لممالک یا بین ا لاسلامی روابط کو بڑھانے کی
اشد ضرورت ہے ۔اب یہ بھی امریکی تھنک ٹینک نے سوچا ہے کہ ضرورت پڑنے پر
دہشت گردوں کے ساتھ دوبارہ سے روابط بڑھا سکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ
مسلمانوں کے اور مختلف مسالک کے درمیان ایک نیا جراثیم پیدا کریں۔ یہ ایک
سرسری سا ئزہ ہے ۔ بس ہوش اور دوا کے ساتھ دعا کریں کہ خداوندکریم ہر میدان
میں ہمیںسرخروئی عطا فرمائے (آمین) |