آخر میں ہی کیوں؟

یہ بات تب کی ہے جب میں آٹھویں جماعت میں تھا مجھے محسوس ہوا کے میرے دوست میرے طرح نہیں دکھتے مجھ سے بڑے دکھتے ہیں میرے ماں باپ کو اس بات کا پہلے سے پتہ تھا کے ہمارے بچہ کی گروتھ نہیں بڑھ رہی یہ اپنے کلاس فیلوز سے چھوٹا دکھتا ہے اور اُنھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی مجھے ہر طرح کا علاج کروایا لیکن میں چھوٹا دکھتا تھا میرے اکثر رشتے دار مجھے تنگ کرتے مجھے چھوٹا چھوٹا کھ کر چڑاتے تھے سکول میں بھی یہی کام ہو رہا تھا اور میں احساس کمتری کا شکار ہو گیا تھا جیسے جیسے میں اور بڑا ہوتا گیا میری احساس کمتری میں مزید اضافہ ہوتا گیا میٹرک کے بعد جب میں نے کمپیوٹر کورسز سٹارٹ کیئے وہاں بھی مجھے جو دوست ملے وہ تھے تو مجھ سے چھوٹے لیکن لگتے مجھ سے بڑے تھے ایسے ہی میری احساس کمتری میں اضافہ ہونے لگا میں خود کو کوستا تھا کے میں ایسا کیوں ہوں؟ آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ میری احساس کمتری کا یہ عالم ہو گیا کے میری طبیت میں کڑوا پن آگیا میں لوگوں سے بہت سخت انداز میں بات کرتا بہت سخت انداز میں جواب دیتا میں یہ سوچتا تھا کے میری کوئی زندگی نہیں ہے جب میری شادی کی باتیں ہونے لگیں میں سوچنا مجھے سے کس نے شادی کرنی ہے میرے چھوٹے دکھنے کی وجہ سے کئی رشتے ٹوٹ گئے میرے ماں باپ بہت پریشان تھے میرے چھوٹے بھائیوں کی شادیاں ہو گئی تھیں میری عمر بہت زیادہ ہو گئی تھی مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میری شادی نہیں ہوگی کیوں کے میں دکھتا چھوٹا ہوں لوگ یہ سوچتے تھے شاید کے یہ نارمل نہیں ہے لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا کہ مجھے کسی نے پسند کر لیا میں نے اپنے ماں باپ سے کہا کے میری یہاں شادی کر دو لیکن میرے ماں باپ نے کہا یہ ہمارے اسٹیٹس کے نہیں ہیں یہ کہاں ہم کہاں اُنہوں نے یہ نہیں دیکھا کے ہمارے بچے کو تو کوئی رشتہ نہیں دیتا تھا آخر کار میں نے اپنے ماں باپ کو منا لیا اور میری شادی ہو گئی لیکن میرے ماں باپ کو یہ رشتا منظور نہیں تھا میری لیئے اُنہوں نے ہاں کہی میری شادی شدہ زندگی میں بہت مشکلات آئیں اگر آپ پڑھنا چاہتے ہیں تو میں ضرور شئیر کروں گا کے آگے میری زندگی میں کیا ہوا۔
 

Adnan Nasir
About the Author: Adnan Nasir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.