بیٹی ایک" کلی"۔۔٭خواتین پر تشدد کیوں؟ ٭

بیٹی ایک" کلی"۔۔٭خواتین پر تشدد کیوں؟ ٭

25 ِ نومبر 2023 ء کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دِن کے موقع پر 16روز ہ تحریک کا اعلان کیا گیا تاکہ صنف کی بنیاد پر تشددکے خلاف دُنیا بھر میں ایک منظم آگہی کی مہم چلائی جائے۔آج دُنیا کتنی بھی جدید سہولیات سے آراستہ کرکے " گلیمر ورلڈ" کی اصطلاح میں دِکھانے کی کوشش کی جائے لیکن اسے اِنکار نہیں کہ تشدد یا ڈپریشن جیسے حالات میں کوئی کمی ہو تی ہی محسوس نہیں ہو رہی۔ایسا کیوں؟
بیٹی ایک" کلی":
جب ایک گھر میں بیٹی پیدا ہو تی ہے تو وہ ایک ایسی" کلی "ہوتی ہے جسکی خوشبو سے سارا گھر مہک جاتا ہے۔جیسے جیسے وہ بڑی ہو تی جاتی ہے اپنے شرم و حیاء کے پردے میں دُنیا کے حُسن میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔قدرت حُسن و جمال کو پسند کرتی ہے لہذا اب یہ سب پر لازم ہوتا چلا جاتا ہے کہ اُس کے آس پاس اور دُور کے سب افراد اُس کی عزت و احترام میں کسی قسم کی کمی نہ رکھیں۔نوعمری میں ہی اُ س کو اس بات کا احساس دلوا دیا جاتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں اُسکو ایک دوسرے گھر بیاہ کر جانا ہے۔لہذا مستقبل کی عملی زندگی کو گزارنے کیلئے اُسکو سلیقہ مند لڑکی بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ لیکن ہے تو وہ صنف ِنازک اور خوابوں میں رہنے والی اپنے ماں باپ کی چھوٹی سی "شہزادی"۔جوآج شادی والے دن سوچ رہی ہے کہ اب وہ شہزادی سے اپنے خاوند کے گھر" ملکہ" بننے جا رہی ہے۔ اُسکا خاوند ایک بادشاہ کی مانند ہو گا جو اُس کا خیال دل و جان سے رکھے گا۔لیکن شاید خوشی کے ساتھ معاشرتی خوف بھی دماغ کے کسی کونے میں چُھپا ہوا ہے لہذا گھر چھوڑتے ہوئے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ساتھ ماں باپ کی آنکھیں بھی یہ سوچ کر تر ہو جاتی ہیں کہ اپنے جگر کا ٹکڑا کس کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں۔سب دُعا گو ہیں آگے بھی اس کیلئے سب اچھا ہو۔
ملکہ بنی نہ شہزادی:
یہ کیا ہوا!! چند دن میں ہی اپنے خاوند اور اُس کے گھر والوں کی اوقات نظر آگئی ہے۔کئی جھوٹ کھلنے شروع ہو گئے ہیں۔سب سے پہلے تو خاوند کی تعلیم وہ نہیں تھی جو رشتہ کرتے وقت بتائی گئی تھی۔اوہ!!یہ کیا ہو گیا!!ذہنی طور پر بھی عجیب و غریب رویئے کا مالک ہے۔ساس نے ماں بن کر اپنے بیٹے کے نغرے برداشت کر لیئے ہوئے تھے لیکن اُسکی عادات میں بے راہ روی کی جھلک زیادہ ہے۔اب وہ لڑکی کیا کرے؟ سوال کرے گی تو جھگڑا۔نہیں اُسکی تو تربیت ایسی ہے ہی نہیں۔گھروں میں جھگڑوں کی وہ بھی عادی تھی۔جھگڑے کس گھر میں نہیں ہوتے۔لیکن کیا خاوند ایسے ہوتے ہیں؟ سُنا تو تھا کہ آجکل شادی کے بعد خاوند اپنا کاروبار یا ملازمت چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ جاؤ اپنے ماں باپ سے خرچہ لیکر آؤ۔کچھ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔جبکہ رشتہ کرنے کے دوران لڑکے کے بارے میں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔لیکن کیا وہ بھی اُن میں ہی شامل ہو گئی ہے۔وہ تو ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے۔جسکو یہ سوال پوچھنے کا حق ہے۔پھر ہمت کر کے پوچھ ہی لیاتوایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز آئی اور ملکہ بننے سے پہلے ہی شہزاد ی کے سب خواب ٹوٹ گئے۔اب کیا ہو گا؟ زندگی کیسے گزرے گی؟کس کے آگے جاکر آواز اُٹھائی جائے؟عالمی سطح پر یا ملکی سطح پر کیا کوئی ادارہ ہے؟اگر ہے تو انصاف ملے گا؟
خاوند کیلئے بڑھاپے کا سہارا:
ایسے کئی سوال لیئے وہ مہکتی ہوئی کلی مُرجھانا شروع ہو جاتی ہے اور اپنی اُس عملی زندگی کا آغاذ کر دیتی ہے جس میں اب خواب ٹوٹ چکے ہوتے ہیں اور اولاًمقصد اپنے بچوں کی پرورش بن جا تا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ اُس کو کہہ رہے ہیں کہ اس معاشرے میں عورت کا کوئی مقام نہیں اور نہ ہی وہ اُن حقوق کی حقدار ہے جو اُس کیلئے تفویض کیئے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے خانہ داری کے اُس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں پر کمی پیشی کی بھی وہی ذمہدار ہو گی۔خاندان کی عزت آبرو اُس کے نام کر دی جاتی ہے۔ لیکن جب وہ اسکے بدلے اُس محبت کی طلب گا ر ہوتی ہے جسکی اُس کے دل کے کسی کونے میں خوشبو ہوتی ہے توحیران رہ جاتی ہے کہ اب خاوند کیلئے وہ صرف بڑھاپے کا سہارا بن چکی ہے۔کیونکہ خاوند کی "میں " میں بھی خم آچکا ہے۔
سمجھوتہ غموں سے کر لو تم:
یہ عورت پر وہ اولین تشدد ہے جس پر وہ یہ سوچ لیتی ہے کہ "سمجھوتہ غموں سے کر لو تم"۔لیکن جن میاں بیوی میں ذہنی مطابقت نہیں ہو پاتی اور دونوں کے الگ ہونے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہاں تشدد کا عمل بڑھا ہو ا نظر آتا ہے۔ اگر اس دوران میں کوئی اور لگائی بُجھائی کر دے تو معاملہ بگڑ جاتا ہے اور پھر عورت کو قتل کر دینا ایک جذباتی عمل سمجھا جاتا ہے۔ پھر مرد کو بچانے کے بھی سوبہانے ڈھونڈ لیئے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ دوسرے بہت سے رویئے ہیں جہاں دوسرے مرد وں کے ہاتھوں بھی عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے۔چہرے پر تیزاب پھینکنے جیسا انتہائی قدم اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا جا تا۔جس سے عورت کی بقایا ساری زندگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔
خواتین کا انصاف کیوں نہیں ملتا؟
کیا آج کے جدید دور میں خواتین کو اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے آواز اُٹھانے پر قائل نہیں کرنا چاہیئے؟اگر کچھ فیصد خواتین ایسا کر رہی ہیں تواُن ممالک کی حکومتیں اُنکو انصا ف کیوں فراہم نہیں کرتیں۔ آج ہر شعبے میں خواتین خدمات انجام دینے کے باوجود اپنا وہ مقام حاصل نہیں کر پا رہی ہیں جسکی وہ خواہش تو رکھتی ہیں لیکن معاشرے کو قائل نہیں کر پا رہی ہیں۔
مختصر سچا واقعہ:
"ایک پڑھی لکھی لڑکی کی شادی تو اچھے گھر میں ہوئی لیکن اُسکا خاوند نہ کے سگریٹ پینے کا عادی تھا بلکہ اپنی بیوی پر تشدد کے دوران سُلگا ہوا سگریٹ اُس کے جسم پر لگا کر اُس کی چیخیں سُنتا اور خوش ہوتا تھا۔"احساس ہی نہیں کرتا تھا کہ کلی مُرجھا رہی ہے"۔ کیا یہی رشتوں کا تقدس ہے؟؟؟
خواتین پر تشدد کیسے روکا جا سکتا ہے:
یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بہت سے حل بیان کیئے گئے ہیں۔کہیں نفسیاتی معاملہ کہہ کر متعلقہ ڈاکٹرز سے رابطے کا کہا گیا ہے۔موجودہ دور میں مالی مسائل کو بھی اسکی اہم وجہ کہا گیا ہے جسکا حل خواتین کیلئے آمدنی سے متعلقہ ذاتی کاروبار یا مناسب ملازمتوں کے مواقعے فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔خواتین کیلئے خصوصی سیشنز کے انقعاد کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ ہیجانی کیفیت سے نِکل کر حقیقی دُنیا کا مقابلہ سچ بیان کر کے کریں۔لڑکوں کی تربیت میں تحمل پیدا کرنے کو ترجیح دیں۔سب سے اہم کہ مرد وخواتین ہر معاملے کو مُثبت انداز میں دیکھیں تو باقی جہاں کمی ہو گی اُس کا حل بھی مُثبت نِکل آئے گا۔اب رہ گئی جبلت تو اُسکے لیئے:
1) مذہبی تربیت ٭سب برابر ہیں ٭۔
2) دُنیاوی اصطلاح ٭اِنسانیت٭۔
٭٭٭٭٭
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 309137 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More