جنت پر قبضے کی دھن

کشمیر کے پس منظر میں لکھا تھا آرٹیکل

جموں کشمیر برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے ۔ تاریخی طور پر جموں کشمیر و اقصائے تبت ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے ۔
کشمیر پاکستان بھارت اور چین تینوں ملکوں کر زیر انتظام ہے ۔
جموں کشمیر کافی بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔ جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے شامل ہیں۔ 1846ء سے ان علاقوں میں کوئی نظام نہیں تھا ۔ اکثر مقامی بد معاشوں اور غیر ملکیوں کی حکمرانی رہی ۔ وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے ۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے ۔
اس وقت خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور پاکستانی جموں وکشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اقصائے چین اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتا کم اونچے پہاڑوں پر موجود ہے ۔
کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے اور اس تنازعے کا واحد حل رائے شماری ہے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جو جموں کشمیر کے آزادی اور خود مختاری کو بامسئلہ کشمیر دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ، 1965ء کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں 1971ء کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی تھی ۔
سولہ مارچ 1846ء کو پنجابی سکھوں سے جب گلاب سنگھ نے غداری کی اور انھیں شکست کا سامنہ کرنا پڑا تو انھوں نے تاوان جنگ کے طور پر اپنے علاقے کشمیر وادی گلگت وغیرہ سمیت کئی علاقے کو انگریز کو دینے پڑے ۔ ایسے میں جموں ریاست سے لاہور تحت کا غدار مہاراجا گلاب سنگھ جس کا انگریز سے گٹھ جوڑ تھا کشمیر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا انگریز نے گلاب سنگھ کی وفاداری کے بدلے 75لاکھ نانک شاھی میں کشمیریوں کو اس کے ہاتھ بیچ دیا اور معائدہ امرتسر کے تحت جدید ریاست جموں کشمیر کی بنیاد رکھی اس وقت ریاست پونچھ بھی موجود تھی جس پر بعد میں جموں کے مہاراجا نے قبضہ کیا تھا اسی طرح گلگت بلتستان میں میں بھی دو ریاستیں موجود تھیں جن پر جموں کے مہاراجا نے قبضہ کر رکھا تھا ۔
1929ء میں شیخ عبد اللہ نے ریڈنگ روم تنظیم اور اے آر ساغر نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن بنائی شیخ عبد اللہ نے ایک تحریک شروع کی جس کا نعرہ تھا معائدہ امرتسر توڑ دو کشمیر وادی چھوڑ دو شیخ کشمیر وادی کو الگ عوامی ریاست بنانا چاہتا تھا یاد رھے کشمیر صرف موجودہ کشمیر صوبے کا نام ہے
1931ء میں پہلی مسجد ریاسی میں شہید ہوئی ہے۔ کوٹلی میں نماز جمعہ پر پہلی بار پابندی لگائی گئی پھر عبدالقدیر نامی مسلمان نے بے مثال احتجاجی جلسے کیے۔
1933ء میں سری نگر پتھر مسجد میں جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ شیخ عبد اللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس اس کے جنرل سیکرٹری بنے۔ 1947 کے بعد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی اکثریت جو مسلم تھی اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہا لیکن مہاراجا ہری سنگھ کو یہ منظور نہ تھا جس پر مہاراجا نے پاکستان اور بھارت کو خط لکھے اور الگ ریاست قائم کرنا چاہی جبکہ بھارت کی طرف سے مہاراجا ہری سنگھ پر شدید دباو تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کرے اس لیے بھارت نے اس خود مختار ریاست کی مخالفت کرتے ہوئے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا جبکہ پاکستان نے باوجود کشمیری اکثریتی مسلمان آبادی کے خود مختار ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے مہاراجا ہری سنگھ کو خط کا خواب دیا اور مہارجہ اور پاکستان کے درمیان معاہدہ بھی ہوا لیکن اس کے بعد مہاراجا ہری سنگھ کو بھارت کی طرف سے شدید دباو تھا جس کی وجہ سے وہ مجبورا بھارت کے ساتھ الحاق کرنا پڑا اور 22 اکتوبر سے کئی روز پہلے آر ایس ایس کے غنڈے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے اور کئی شواہد پائے گئے جو ہری سنگھ کو بھارت سے الحاق کرنے پر مجبور کر چکے تھے اسی اثناء میں گلگت بلتستان کی غیور عوام نے مہاراجا کی فوج کے خلاف اعلان جنگ کیا اور گلگت بلتستان سے مہاراجا فوج کو بھگا دیا اسی طرح ریاست پونچھ کی عوام نے بھی بغاوت کر ڈالی اور قبائلیوں سے مدد بھی مانگی جو مظفرآباد کے راستے داخل ہوئے اس طرح پونچھیوں نے قبائلیوں کی مدد سے موجودہ آزادکشمیر سے ڈوگروہ فوج کو بھگا دیا
اس وقت بھارت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر قابض ہے جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر کا رقبہ موجود ہے
آزاد کشمیر کا 13،350 مربع کلومیٹر (5134 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے ۔ لوگ بیرون ملک جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں ۔
کشمیر کا ذکر جب بھی سنتا ہوں کسی غیر معروف شاعر کا ایک معروف شعر در احساس پر دستک دیتا ہے

اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی

کشمیر کا مسئلہ پون صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی مسئلہ ہی ہے ۔ یوں جیسا یہ کبھی حل نہ ہونے والا مسئلہ ہو ۔
قائد اعظم نے اسے پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا اور کیسی عجیب بات ہے کہ یہ شہہ رگ پون صدی سے دشمن کے شکنجے میں پھنسی ہے ۔ اور ہم یوں مطمئن ہیں کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ۔
دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آزاد کشمیر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا نام دیتی ہے ۔ جہاں تک تعلق ہے اسلامی دنیا کا تو سچی بات یہ ہے کہ اس نے کبھی اسے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ۔ ان کی نظر میں یہ مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ وہ اسے پاکستان اور بھارت کا اندرونی معاملہ گردانتے ہیں ۔ اس کا واضح ثبوت وہ شاہانہ پروٹوکول ہے جو عرب دنیا بھارت کو اور ان کی عوام کو دیتی ہے ۔ عالم عرب پر ہی کیا موقوف ہے ، ہمارے ہمسایہ اسلامی ملک ایران کو ہی دیکھ لیں ۔ ان کی بھارت کے ساتھ کیسی گاڑھی چھنتی ہے ۔
ہم نے ہر دور میں فلسطین کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھا ہے ۔ ہم نے کبھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہیں سوچا ( سابق وزیراعظم نے فوج کو اسی معاملے پر ناراض کر لیا تھا ) ۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جس امت مسلمہ اور اتحاد امت کا راگ الاپا جاتا ہے وہ کہیں بھی اینا وجود نہیں رکھتا ۔ ہر ملک کے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں جس کے لیے وہ کسی کو اینا دوست قرار دیتا ہے کسی کو دشمن ۔ اور پھر یہ دوستیاں دشمنیاں بھی مستقل نہیں ہوتیں ۔ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی معقولیت کی بنیاد پر بناتا ہے ۔ چیزوں کو وسیع تناظر میں دیکھ کر طے کرتا ہے تاکہ اس کے ثمرات سے قوم مستفید ہو ۔
ہمارے ہاں مگر پالیسی بنی بنائی ہوئی آتی اور زور زبردستی سے نافذ کی جاتی ہے ۔ اب تک کی قومی تاریخ تو یہی بتاتی ہے اور اس میں کسی بڑی تبدیلی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے
کشمیر کو جنت نظیر کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہ " جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی "
مگر افسوس اس جنت کا بیشتر حصہ بت پرستوں کے قبضے میں ہے ۔ سب لوگ خطے کی بات کرتے ہیں ،یہاں عوام کا کوئی نہیں سوچتا ، عوام کی بات کوئی نہیں کرتا ۔ ان کے دکھ درد کا مداوا کوئی نہیں کرتا ۔ کسی فریق کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ۔ کشمیر کا واحد حل حق خودارادیت ہے ۔ یہ فیصلہ یہاں کی عوام کو کرنا ہے کہ اسے کس کے ساتھ رہنا ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشمیر کا بطور ایک آزاد اور خود مختار ریاست قائم رہنا ناممکنات میں ہے ۔ سو اس کو کسی ایک طرف دیکھنا ہو ۔ بھارت کی طرف یا پاکستان کی طرف ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی پون صدی پرانی کمٹمنٹ کو پورا کرے ۔ فائل پر جمی فرد جھاڑے اور یہاں کی عوام کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے اور حق خودارادیت کے تحت یہاں کی عوام کو اپنے تقدیر کا فیصلہ خود کرنے دے ۔ اور جب تک یہ نہیں ہوتا ، دو ملکوں کی درمیان پھنسی کشمیری عوام مصیبت کا شکار رہی گے


Safder Ali hydri
About the Author: Safder Ali hydri Read More Articles by Safder Ali hydri: 77 Articles with 71140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.