بالآخر ان لوگوں کو بھی کچھ نہ
کچھ سمجھ آہی گئی جو شائد احمقوں کی جنت میں رہتے تھے یا حد سے زیادہ سیدھے
تھے کہ امریکہ اسامہ بن لادن کے بعد یہاں نہیں رہے گا اور یہ کہ ایک مضبوط
پاکستان ہی امریکہ کے مفاد میں ہے۔ وہ اکثر یہ سوال کیا کرتے تھے کہ
پاکستان میں ہے کیا جو امریکہ یہاں فوج کشی کرے یا قبضہ کرنے کی کوشش کرے،
زرعی ملک ہونے کے باوجود اکثر گندم ہم امریکہ سے لے کر کھاتے ہیں، اس کے
قرضوں کے بغیر ہماری معیشت دم توڑنے لگتی ہے اور اس کی آشیر باد کے بغیر
ہمیں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف بھی قرضے نہیں دیتے، ہر معاملے میں ہم پہلے
ہی امریکہ کے دست نگر ہیں تو اس کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ہم پر حملہ کرے ،
قبضہ جمانے کی کوشش کرے یا پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی ٹھان لے۔جب ان کو جواب
دیا جاتا کہ بھائی! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہم اپنے حالات بگاڑنے میں
کسی بھی غیر سے کہیں بڑھ کر ذمہ دار ہیں، اگر ہم اندر سے سچے اور کھرے ہوں
اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی سوچ رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم
اغیار کی سازشوں اور کوششوں کو ناکام نہ بنا دیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں
کہ ہمارے اندر بہت سے غدار موجود ہیں، بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو چند
ٹکوں کے عوض ہماری قومی غیرت کا سودا بھی کرتے ہیں اور اغیار کو مائی باپ
بھی سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس بات میں بھی کوئی شک، کوئی شبہ اور
کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ امریکہ ہمارا کبھی دوست نہیں تھا اور نہ ہی
کبھی ہوسکتا ہے، وہ امریکی قیادتیں جو اسرائیل کی محافظ ہوں، جو یہودیت کی
چھتر چھایا تلے پرورش پاتی ہوں، وہ کسی مسلمان یا پاکستان کی دوست کیسے
ہوسکتی ہیں؟ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان اس ٹرائیکا کے مفاد میں ہرگز
نہیں ہے جو امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان کی صورت میں ہمارے سامنے صف آراء
ہے۔ جب کبھی بھی مسلمانوں نے بطور قوم کوئی سوچ اپنائی ہے تو کفر ایک واحد
ملت کی صورت سامنے آیا ہے، یہی اس وقت بھی ہورہا ہے، یہ حقیقت ہے کہ امریکہ
کو پاکستان سے یا اس کی فوج و انٹیلی جنس ایجنسیوں سے براہ راست کوئی خطرہ
نہیں ہے، نہ ہمارے ایٹم بم سر دست وہاں جاسکتے ہیں نہ ہمارے (امریکہ کے دئے
ہوئے) ایف سولہ کی پہنچ امریکہ تک ہے لیکن اگر کسی ملک کو ہم سے خطرہ ہے،
اگر کوئی قوم ہم سے خوفزدہ ہے(ہماری وجہ سے نہیں بلکہ اسلام دشمنی کی وجہ
سے)تو وہ ہنود و یہود ہیں اور انہی کی وجہ سے امریکہ بھی ہے۔ بہت سے ذہن
رسا رکھنے والے لوگ یہ کہتے آئے ہیں اور ابھی بھی کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل
اور پاکستان کا ٹاکرہ جلد یا بدیر ہونا ہی ہے اور اس کی وجہ یہودیت کی
اسلام دشمنی ہے ورنہ آجکل کے مسلمانوں سے تو کسی کو لڑنے کی ہرگز ضرورت
نہیں۔
بات ہورہی تھی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی، اب دونوں ملکوں کے تعلقات
ایک نئے موڑ پر پہنچ چکے ہیں، خصوصاً پاکستان ایک ایسے دوراہے پر آن پہنچا
ہے جہاں سے اگر صحیح راہ کا انتخاب نہ کیا گیا تو شائد صدیوں یہ موقع نہ مل
سکے۔ امریکہ کی کھلم کھلا دھمکیوں نے روشن خیالوں اور بند دماغوں والے
”دانشوروں“ کی آنکھیں بھی کھول دی ہیں کہ ”غلاموں“ کے ساتھ کبھی دوستانہ
تعلقات کو رواج نہیں مل سکتا، لیکن وہ ابھی بھی اسی کے گن گارہے ہیں۔ کسی
کو گرین کارڈ کا لالچ ہے تو کسی کو ڈالروں کی خوشبو بہت مسحور کن لگتی ہے،
کوئی مولوی سے ”بدلہ“ لینے کے چکر میں ہے اور کوئی اپنی دانشوری بھگارنے کی
آرزو لئے پھرتا ہے، کئی لوگ تو ایسے بھی ہیں جو صرف اختلاف رائے دکھا کر
اپنا قد اونچا کرنا چاہتے ہیں یا ممتاز ہونا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہے
جب پوری قوم امریکی غلامی سے نکلنے کے لئے تیار ہے اور اگر اسے صحیح لیڈر
شپ مل سکے تو وہ خم ٹھونک کر میدان عمل میںبھی اتر سکتی ہے۔ پاکستان کی بڑی
سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ہم پہلے بھی آزما چکے ہیں، بے شمار مواقع
دستیاب ہونے اور امریکہ کے اصل چہرے کو دیکھنے کے باوجود کسی بھی سابق و
موجودہ حکمران نے امریکی غلامی سے نکلنے اور پاکستان کے لئے دوستی کی نئی
راہیں تلاش کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔حکومت نے ایک اچھا کام اے پی
سی بلانے کا کیا ہے جس کی بہرحال تعریف کرنی چاہئے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ
خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ اے پی سی کی کسی قرارداد یا فیصلے کا بھی وہی
حشر تو نہیں ہوگا جو پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کا ہوا تھا؟ اے پی سی میں
شامل تمام سیاستدانوں کو امریکی غلامی یا آزادی میں سے کوئی ایک فیصلہ کرکے
ہی اٹھنا چاہئے اور یقینا غلامی نہیں بلکہ ”آزادی“ ہی بہترین فیصلہ ہوگا
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ قوم کو کسی قربانی کے لئے (بلکہ قربانی کے بکرے
بنائے جانے کیلئے) تیار کرنے سے پہلے سیاسی راہنماﺅں کو جو کہ زبانی طور پر
اور سیاست چمکانے کی حد تک اپنی قربانیوں کا ذکر کرتے اور رونا روتے نہیں
تھکتے، ان کو پہلے خود کو قربانی کے لئے تیار کرنا ہوگا، سب سے پہلے غیر
ملکی اکاﺅنٹس کو پاکستان میں لایا جائے، انہیں ظاہر کیا جائے اور ان پر
ٹیکس دیا جائے، اس سرمائے کو پاکستان میں انویسٹ کیا جائے تو یقین رکھیں کہ
ہمیں ویسے ہی کسی قرضے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ اپنی زندگیوں اور
موت کا مالک اللہ کو سمجھا جائے، غیرت مند قوم بن کر مسائل کا سامنا کیا
جائے اور ان کا حل تلاش کیا جائے، جب ہماری تمام امیدیں صرف اور صرف اللہ
تعالیٰ سے ہوں گی، جب ہم صرف اسی سے مدد مانگیں گے تو اللہ وحدہ لاشریک کی
ذات ہمیں کسی بھی طرح مایوس نہیں کرے گی۔ اگر ہمارے لیڈران کرام قوم کو درس
دینے سے پہلے خود اس کام کو کرلیں، ا گر وہ مرنے کا عزم کرلیں تو پوری قوم
بھی ان کی پیروی کرنے میں خوشی محسوس کرے گی اور آپ دیکھیں کہ اگر اٹھارہ
کروڑ عوام، جن کے سینے اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہوں، جو محبت رسول میں
اپنی جانوں کے نذرانے دینے کو تیار ہوں، وہ اٹھارہ کروڑ عوام اگر مرنے کی
ٹھان لیں گے تو کیا دنیا کی کوئی طاقت ان کو شکست دے سکتی ہے؟ شکست تو دور
کی بات کوئی ان کی طرف میلی نگاہ سے بھی نہیں دیکھ سکتا، یہاں تک آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر بات تک نہیں کرسکتا۔ باقی مسائل کیا ہیں، صرف مالی
مسائل، کیونکہ دہشت گردی کا عفریت تو امریکی غلامی ختم ہوتے ہی بھاگ کھڑا
ہوگا، مالی مسائل اس طرح کے ہرگز نہیں ہیں جو حل نہ ہوسکیں، اللہ تعالیٰ نے
اس سرزمین کو ایسے ایسے وسائل سے نوازا ہے کہ اگر ہم ان کو اچھے طریقے سے
استعمال میں لے آئیں تو امریکہ کو بھی قرضے دے سکتے ہیں۔
یہ قوم اس وقت تیار ہے، فصل پک چکی ہے اور انتظار کررہی ہے کہ کوئی اللہ کا
بندہ اور اس کا غلام آئے اور کاٹ لے، اگر سیاستدان فیصلہ نہیں کریں گے تو
مجبوراً ”کسی اور“ کو کرنا پڑے گا، تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ سب بہادری سے
کام لیں، زندگی اور موت، عزت اور ذلت کا مالک اللہ کو سمجھیں، ایک مرتبہ ڈٹ
کر بھی دیکھیں، بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کرکے بھی دیکھیں، ورنہ موت تو
برحق ہے، کوئی پھانسی چڑھ جاتا ہے، کوئی سر بازار گولی کا نشانہ بن جاتا
ہے، کوئی بم دھماکے میں کام آجاتا ہے اور جو ان سب چیزوں سے بچ جاتا ہے اس
موت سے تو وہ بھی نہیں بچ پاتا، موت بے شک مکے میں آئے یا مدینے میں، اس نے
تو آکر ہی رہنا ہے، تو کیوں نہ اس موقع کو غنیمت جان کر موت کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر دیکھا جائے، اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پوری قوم امریکہ کی شکر
گذار ہوگی اور یہی کہے گی کہ
”بہت دیر کی مہرباں آتے آتے“ |