پاکستان پر امریکی دباﺅ کے اصل اہداف

حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے امریکہ کا اصرار بڑھتا ہی جارہا ہے حتیٰ کہ پاکستان کے اندرفوجی کاروائی کی باتیں کی جارہی ہیں۔اس طرح پاک امریکاتعلقات میںبڑھتی ہوئی کشیدگی اور بداعتمادی کی فضا نے ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوانتہائی قریبی اسٹریٹجک پارٹنرز کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑاکیاہے۔ پاکستان پر ان امریکی الزامات اور دھمکیوں کے پیش نظربلائی گئی کل جماعتی کانفرنس نے قومی سلامتی پر متفقہ موقف اختیار کرتے ہوئے امریکا کے تمام الزامات کو مسترد کردیا۔ کانفرنس نے 13نکاتی اعلامیہ کی متفقہ طور پر منظوری دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک کی سرحدوں کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیا جائیگا اور پوری قوم قومی سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلئے مسلح افواج کیساتھ ہے۔ قبائلی علاقوں میں ڈائیلاگ شروع کیا جائیگا۔ پالیسی تبدیل کرکے امن کو موقع دینے کی حکمت عملی بنائی جائیگی۔ اس موقع پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان پر ’ڈو مور‘ کا دباﺅ نہیں ڈالا جا سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کر کے امریکی حکام کے حالیہ بیانات ہمارے لئے حیرت کاباعث ہیں۔انہوں نے قومی مفادات کاہرحال میں احترام کرنے اورمتحدہوکرقومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کابھرپور عزم کیا۔

جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے پاک امریکہ تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاﺅ آئے ہیں ۔امریکہ ایک مطالبے کے بعد دوسرا مطالبہ کرتا رہا اور ہمارے حکمران یا عسکری قوت تھوڑی سی حیل حجت کے بعد پھر راضی ہوتے رہے۔ مگر مطالبات اور ڈومور کی یہ رٹ میں کبھی بھی اتنی تلخی نہ آئی تھی جتنی گزشتہ ہفتے سے دیکھی جارہی ہے۔ بہت سے تجزیہ نگار اور حالات حاضرہ کے ماہرین پاکستان کے خلاف اس غیر معمولی امریکی لہجے اور اصرار کے پیچھے چھپی حقیقت کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں ۔ مگرجوں جوں امریکی بیانات منظر عام پر آ رہے ہیں بلی تھیلے سے باہر آنا شروع ہوگئی ہے۔ دراصل امریکہ حالیہ بلیم گیم کے ذریعے ایسی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری رکھے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات بھی اسے نہ دیئے جائیں۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں پاکستان کی امداد بند کرنے کا بہانہ تلاش کررہا ہے۔ حقانی نیٹ ورک سے رابطے رکھنے کا الزام اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے لگایا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اپنے امدادی پروگرام کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کردیا ہے اور اس سلسلے میں لمبے چوڑے بیانات بھی جاری کئے جارہے ہیں تاکہ دنیا میں اپنے اس اقدام کو درست ثابت کیا جاسکے۔ گزشتہ روز امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے ریپبلکن رکن ٹیڈپو نے پاکستان کی تمام امداد منجمد کرنے کا بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکا سے اربوں ڈالر کی امداد لینے کے باوجود امریکا کیلئے غیروفادار اور دھوکے باز ثابت ہوا ہے اور پاکستان امریکا کیلئے خطرناک ملک ہے۔ جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں کئی بلین ڈالر وصول کئے اور ساتھ ہی ان دہشت گرد تنظیموں کی حمایت جاری رکھی جو امریکا پر حملوں میں ملوث ہیں۔ امریکا کو چاہئے کہ پاکستان کی امداد مکمل طور پر بند کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بل کو مزید کاروائی کے لئے خارجہ امور کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے جس کے بعد اس کو امریکی نمائندگان میں لایا جائے گا ۔ اگر قرارداد منظور ہوئی تو ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے مختص کردہ فنڈز کے علاوہ پاکستان کے لئے تمام امریکی امداد معطل کر دی جائے گی۔ ایک اورامریکی سینیٹر لنزے گراہم نے کہنا تھا کہ پاکستان کیلئے امداد کا چیک اسلام آباد کی جانب سے پیش رفت کے بغیر دستخط نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی اسی وقت مدد کی جائے گی جب پاکستان امریکا کی مدد کریگا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے اور ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ بمبار طیارے بھی پاکستان بھیجے جا سکتے ہیں ۔ دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو غیرملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ وقت کے ساتھ ہمارے تعلقات بدلنے پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف ہر حال میں کارروائی ہونی چاہئے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ حقانی نیٹ ورک سے روابط کے حوالے سے اقدامات کرے اور انہیں فوری طور پر ختم کرے۔ حکومت پاکستان کو ان جنگجووں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو کابل میں امریکی سفارتخانے پر حملے میں ملوث ہیں۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا اگر پاکستان اس مطالبے پر عملدرآمد میں ناکام رہتا ہے تو امریکا کوئی اقدام کریگا ؟ تو ان کا جواب تھا کہ یہ چیز واضح ہے کہ ہم اپنے امدادی پروگرام کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہتے ہیں اورظاہر ہے کہ ہم اس چیز کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔

امریکی حکام کے ان الزامات میں جو چیز مشترک ہے وہ پاکستان کی امداد معطل یا بند کرنے کی دھمکی ہے۔ یعنی اس کے حالیہ بیان بازی کا سب سے بڑا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو دی جانے والی امداد سے سبکدوش ہونا ہے۔ امریکہ کی طرف پاکستان کو وقت بھی ابھی تک نہیں ملی جس کا وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں پاکستان کو دینے کا وعدہ کرچکا ہے۔ یعنی وہ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی لڑے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرے۔ دوسرا ہدف یہ ہے کہ پاکستان کو اس نام نہاد جنگ میں مزید الجھا کر اس کی رہی سہی معیشت کو بھی تباہ و برباد کردیا جائے ۔ اس بیان بازی کا تیسرا مقصد افغانستان میں شکست اور ہزیمت کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا ہے کیونکہ اسامہ کو ’انجام‘ تک پہنچانے کے بعد امریکی افواج اور انتظامیہ جو جشن منا رہی تھی اس کے رنگ میں افغان طالبان نے بھنگ ڈال دی ہے ۔ طالبان نے کابل میں نیٹو ہیڈ کوارٹرز پر حملے اور دیگر کارروائیوں سے انہیںشدید دھچکا پہنچایا ہے۔ ان کے تمام حفاظتی اقدامات کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ردعمل کے طور پر انہوں نے پاکستان پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے ۔ ان کے مطابق کابل حملوں میں حقانی گروپ ملوث تھا جس کی پشت پناہی آئی ایس آئی کررہی تھی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اس کے حقانی نیٹ ورک سے قطعاََ تعلقات نہیں اور نہ کابل کو طالبان سے بچانا اس کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کو مورودِالزام ٹھہراتے ہوئے امریکہ کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کی افواج نے افغانستان پر قبضہ جما رکھا ہے۔ افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں کے عوام نے کبھی بھی کسی بیرونی قوت کو قبول نہیں کیا۔ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر ہونے والے حملے اسی کا نتیجہ ہیں۔ افغان عوام اپنی سرزمین کو غیرملکی افواج کے قبضے سے چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان پر حملوں کا الزام قطعی طور پرغیرمنطقی ہے۔ امریکہ کی پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کے پیش نظر اب ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ پاکستان اور عوام امریکہ کی ’یاری‘ کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس سے دوستی نبھاتے ہوئے ہم خود عدم استحکام اور بے حال ہوچکے ہیں۔ ہماری معیشت تباہ اور ہمارا سکون چھن چکا ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کے چکر میں ہمیں آپس میں ہی لڑاتا جارہا ہے حتیٰ کہ اس نے پاکستان کی سالمیت کو پارہ پارہ کرکے ایبٹ آباد میں آپریشن کر ڈالا۔ اب وہ ڈو مور کی رٹ کو جاری رکھتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کرنے پر زوردے رہا ہے۔ کابل حملوں کا الزام لگا کر پاکستان پر چڑھ دوڑنے اورامداد بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ ان حالات میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد صائب مشورہ تھا۔ امید ہے کانفرنس نے جو قرارداد منظور کی ہے اس کی روشنی میں تمام فیصلے قومی مفادات کے تحت کئے جانے چاہئیں۔ قرارداد پر عمل درآمد کویقینی بنایا جائے بصورت دیگر ماضی میں ایسی بہت سی کانفرنسیں ہوچکی ہیں ۔ جن میں بہت سے بلند و بانگ دعوے بھی کئے گئے مگر آخر میں قوم نے دیکھا کہ ہمارے یہ لیڈرپھر سے امریکہ کی جھولی میں بیٹھے اسی کی منشاءاور مفادات پورے کرتے نظر آئے ۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63131 views Columnist/Journalist.. View More