“کیا انڈیا کا سپر پاور بننے کا خواب پورا ہوسکتا ہے؟”

وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کے جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی ملک میں تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرسکتی ہے. اس مہینہ 19 اپریل یعنی جمعہ کے روز سے انڈیا میں عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ انڈیا میں ان انتخابات کا یہ عمل اگلے چھ ہفتوں تک جاری رہے گا جس کے دوران لگ بھگ 96 کروڑ 90 لاکھ اہل ووٹر حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

اس وقت انڈیا دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور گذشتہ سال مودی کی حکومت کے دوران ہی انڈیا چاند کے قطب جنوبی پر اُترنے والا پہلا ملک بنا تھا۔

دنیا میں انڈیا اس وقت سب سے زیادہ گنجان آبادی والا ملک ہے جبکہ انڈیا نے گزشتہ سال ہی میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی پانچویں بڑی معیشیت کی سیڑھی پر اپنا قدم جمالیا ہے. اس ہی پر اس کا اکتفا ہی نہیں اب انڈیا اور اس کے حکمران دنیا کی اگلی عالمی سپر پاور بننے کا خواب سوچ رہے ہیں جبکہ کئی عالمی مبصرین کی رائے عامہ اس بات کی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ انڈیا دنیا کی اگلی عالمی سپر پاور بن جائیگا. لیکن اس ملک کو ملنے والا عروج اُمید اور خطرے دونوں ہی کا امتراج ہے۔ درجہ بھی حاصل کر لیا ہے۔

انڈیا کے وزیراعظم نے نریندر مودی نے اپنے دورہ جنوبی افریقہ میں اگست 2023 میں اعلان کیا تھا کہ’انڈیا دنیا کی ترقی کا انجن‘ ہو گا۔ اور پھر سنہ 2023 کے آخر میں انڈیا نے دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت کے طور پر اپنا اعزاز حاصل کیا۔ جبکہ انڈیا کی گذشتہ سال کے آخری تین مہینوں میں اس کی معیشت کے حجم میں 8.4 فیصد اضافہ ہوا تھا( جو ہم جیسے مُلکوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہے. کہ ہم تختہ پر چڑھانہ اور اُتارنے میں ہی لگے رہے کہ شاید یہی ہماری معشیت کا حجم و افراط زر یہاں سے ہی نکلے گا.)

حالیہ سال میں امریکی سرمایہ کاری بینک ’مورگن سٹینلے‘ سمیت متعدد مالیاتی اداروں کے ایک اندازے کے مطابق انڈیا سنہ 2027 تک جرمنی اور جاپان کو بھی پیچھے دھکیل کر دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہو گا۔

جبکہ سنہ 1947 میں انڈیا اور پاکستان اپنی آزادی کے وقت پاکستان کے پھر بھی معاشی حالت انڈیا سے بہتر تھے اور اُس وقت کرہ ارض پر انڈیا دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک تھا۔ ( اور ہم اس وقت کرہ ارض پر شاید قرضہ لینے والوں میں ایک سے دس میں ہمارا نمبر ہو) آزادی کے بعد کے اندازوں کے مطابق انڈیا میں لوگوں کی متوقع عمر 35 سال تھی تاہم ورلڈ بینک کے مطابق آج یہ تقریبا دگنا ہو کر 67 سال ہو گئی ہے جبکہ عالمی اوسط 71 برس ہے۔

ورلڈ بینک کی حالیہ رہورٹ میں انڈیا دنیا کا دسواں بڑا برآمدات کرنے والے ملک ہے۔ اس کی بڑی برآمدات میں تیل، ہیرے، اور ادویات شامل ہیں۔ سنہ 1990 کے بعد انڈیا کی معیشت تیزی سے مستحکم ہوئی جب ملک میں سروس انڈسٹری، ٹیلی مواصلات اور سافٹ ویئر کے شعبوں میں ترقی در ترقی ہوئی ( جبکہ ہم بھی اُس ہی تیزی سے شیروانی سلواتے اور اُترواتے رہے)

اس وقت دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں انڈیا کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انڈیا کی کُل آبادی 1.4 ارب افراد پر مشتمل ہے اور انڈین ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ سنہ 2030 تک ملک میں کام کرنے کی عمر کے اہل افراد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر جائے گی۔
کرہ ارض پر اس وقت دنیا میں بیرون ملک رہنے والے اور کام کرنے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد انڈیا کے لوگوں کی ہے۔ انڈیا سے ہر سال تقریباً 25 لاکھ افراد بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں. جن میں کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ ( جبکہ ہمارے یہاں سے حج اور عمرہ سیزن میں مانگنے کے غرض سے کثیر تعداد سعودیہ کا رُخ کرتی ہے جو زرمبادلہ کا ایک بیش بہا حصہ اپنے وطن لیکر آتے ہیں جو یہ بھی ہمارے لیے اور ہمارے حکمرانوں کے لیے دنیا میں ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ باہر ملکوں میں مانگنے والے ہم ہیں.)

جنوبی ایشیا کے واحد ملک انڈیا میں دوہری شہریت کی اجازت نہیں ہے۔ سنہ 2022 میں 225,000 سے زیادہ لوگوں نے اپنی انڈین شہریت منسوخ کرتے ہوئے دیگر ممالک کی شہریت اختیار کی۔

اکثریت انڈین نوجوان بھی افسردہ ہیں۔ اُنکا یہی کہنا ہے کہ انڈیا میں ’اقتصادی ترقی نے شاہراہوں اور ہوائی اڈوں جیسے نئے بنیادی ڈھانچوں کو تو کو تو کھڑا کردیا ہے اور ارب پتیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا لیکن انڈیا میں بھی عام لوگ اب بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ ( مگر کسی بھی انڈین کہ منہہ سے یہ نہیں کہتے سُنا کہ پہلے والے چور تھے اور آنے والے بھی چور ہیں.)

نریندر مودی کی حکومت کے دوران اس وقت ملک میں کام کرنے والی خواتین کا تناسب 33 فیصد ہے یعنی ہر 100 میں سے 33 خواتین کام کرتی ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ امریکہ میں یہ شرح 56.5 فیصد، چین میں 60.5 فیصد اور پاکستان میں صرف 05 فیصد ہے جبکہ خواتین کے کام کرنے کی عالمی اوسط 49 فیصد ہے۔

اس وقت بہت سی کام کرنے والی خواتین اپنا کام کر رہی ہیں یعنی سیلف ایمپلائڈ ہیں۔ اس وقت ’ملازمت کے معاہدوں اور سماجی تحفظ کے فوائد کے ساتھ باقاعدگی سے تنخواہ دیے جانے والے کاموں میں خواتین کی شرکت بڑھانے کے لیے بھی انڈین ادارہ کام کررہے ہیں جو اس وقت ضرورت بنتا جارہا ہے.

انڈیا اور خاص کر نریندر مودی کے دوران حُکمرانی میں اب بھی انڈیا دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں بہت زیادہ عدم مساوات ہے۔ اس وقت انڈیا میں مڈل کلاس طبقہ پھل پھول رہا ہے وہیں انڈیا میں بڑے پیمانے پر عدم مساوات بھی میں روز بروز اضافہ بڑھتا جارہا ہے۔ اور یہی ایک بڑی وجہ بنتا جارہا ہے کہ کیا انڈیا بڑے پیمانے پر اصلاحات کے بغیر سپر پاور بن جائے گا۔

اس وقت انڈیا دنیا کے مبصرین اور خود انڈیا کے تجزیہ نگار کی رائے یہی ہے انڈیا میں جن تبدیلیوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک سماجی اصلاحات ہیں جو اس عدم مساوات کو ختم کرتی ہیں۔ ان اصلاحات میں انڈیا کا صحت عامہ کے نظام کو مضبوط اور دیرپا بنانا بھی ضروری ہے. اس وقت انڈیا میں صحت عامہ کی صورتحال انتہائی ناگفتہ ہے (اس میں پاکستان اور انڈین ایک ساتھ کندھا ملائے کھڑے نظر آتے ہیں.)

جبکہ انڈیا میں سیاسی تقسیم آج کی نہیں یہ قیام ( پاکستان سے قبل کی ہے اس کی بنیاد پاکستان آزاد ہوا ) کئی ادوار سے انڈیا میں یہی بحث ابھی تک جاری ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے یا ہندو قوم ہے، یہاں کی 80 فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے۔ یہ بحث و مباحثہ اس وقت اپنی شدت کے اس نہج پر پہنچ گیا جب نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے سنہ 2014 میں بڑی کامیابی حاصل کی۔

نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف انتہائی نفرت انگیز پر مبنی جرائم کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور مارچ میں اقوام متحدہ اور امریکی حکومت دونوں نے ایک ایسے قانون کی منظوری پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر مسلم مذہبی اقلیتوں کے لیے انڈین شہریت حاصل کرنا انتہائی آسان ہو جائے گا۔

اس وقت انڈیا کا میڈیا یا انٹرنیشنل میڈیا دونوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں جبکہ انڈیا میں ’فرقہ وارانہ بدامنی‘ کی لہر کا کئی بار بہتے مُسلمانوں و عیسائی اور نچلی زات کے ہندوؤں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نریندر مودی کے 2014 کے الیکشن نے لوگوں کو دوستوں اور خاندان کی سطح پر بھی تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔

’انڈین شہری آزادیوں پر اندھے پن کا سمجھوتہ کیا گیا ہے اور فرقہ وارانہ بدامنی میں متواتر اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح کی آگ کئی شہروں میں اپنا رنگ جما چکی ہے اگر یہ کبھی بھی بے قابو ہو جائے تو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

کئی دہائی سے مغربی ممالک یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انڈیا ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کو زرا پیچھے دھکیلنے والی قوت بن کر کھڑا ہو ۔
اس وقت انڈیا جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے پاس دنیا کی دوسری سب سے بڑی افواج بھی ہے جس کے اہلکاروں کی تعداد اس وقت ساڑھے 14 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے. لیکن انڈیا ہمیشہ سے اپنا پلو سنبھالتا آرہا ہے مغرب سے مگر انڈیا اس وقت وہ برتاؤ نہیں چاہتا جیسا مغرب اس سے چاہتا ہے۔

حالیہ دو برسوں کے دوران روس اور یوکرین کی جنگ میں غیر جانبدارانہ موقف اپنانے اور اختیارات کرنے اور ماسکو کے خلاف مغربی پابندیوں کے باوجود رعایتی قیمتوں پر روسی تیل خریدنے پر اسے تنقید کا بھی بہت سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس وقت نظر یہی آتا ہے کہ مغرب یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ انڈیا چین کے مقابلے میں ’کم مشکل‘ ہو گا۔ اگر مغرب انڈیا سے ’یہ توقع کرے کہ انڈیا مغرب کے سفیر کے طور پر خِطے میں کام کرے گا۔ تو اس کی خام خیالی ہے. کیونک انڈیا ہمیشہ یعنی اپنی آزادی کے 76 سالوں سے ہی مغرب کے ساتھ تعاون کرتا کبھی کسی موڑ پر نظر نہیں آیا.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 192092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.