ہندوستانی سیاست میں بھیشم پتامہ کے مقام پر فائز شردپوار فائز نےپچھلے
ہفتہ ایک انٹرویو سے کر پورے ملک کو چونکا دیا ۔ انہوں نے کہا انتخاب کے
بعد بہت ساری علاقائی جماعتیں نہ صرف کانگریس کے قریب آئیں گی بلکہ کئی ضم
بھی ہوجائیں گی ۔ ان سےجب این سی پی کی بابت پوچھا گیا تو وہ بولے کانگریس
کے ساتھ اس کا نظریاتی اختلاف نہیں ہے۔ این سی کے پی کانگریس میں ضم ہونے
کی بابت سوال کیا گیا تو وہ بولے کہ اس کا فیصلہ اجتماعی طور پرکیا جائےگا
یعنی امکان ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے مرارجی دیسائی کے ساتھ راہل گاندھی کا
موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اول الذکر کسی سے مشورہ نہیں کرتے تھے لیکن راہل
گاندھی لوگوں کی سنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ راہل گاندھی کی قیادت میں
قائم ہونے والی سرکار مرارجی دیسائی کی حکومت کے مانند نہیں بکھرے گی ۔ شرد
پوار کا یہ بیان ہندوستانی سیاست کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ
ہے۔
وزیر اعظم مودی نے بھی اس کے برعکس اپنے حالیہ انٹرویو میں سب کو چونکہ
دیا۔ وہ بولے کہ ’’ ادھو ٹھاکرے میرے دشمن نہیں ہیں۔ کل کو ان پر کوئی
مصیبت آئے تو میں ہیں ان کی مدد کیلئے پہنچوں گا۔‘‘ وزیر اعظم نے بالا
صاحب ٹھاکرے کی تعریف و توصیف کے بعد کہا کہ ’’ ادھو ٹھاکرے بال ٹھاکرے ہی
کے بیٹے ہیں۔ وہ جب بیمار پڑے تھے تو میں انہیں روزانہ فون کیا کرتا تھا۔
رشمی بھابھی ( ادھو کی اہلیہ) کو فون کرکے روزانہ میں ادھو کی خیریت دریافت
کیا کرتا تھا۔ جب ادھو کے آپریشن کی بات ہوئی تو انہوں نے مجھے فون کرکے
پوچھا ’’ آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے ان سے کہا آپ آپریشن کروائیے ، باقی
کی فکر چھوڑ دیجئے۔ پہلے اپنی صحت پر توجہ دیجئے۔‘‘ مودی نے کہا ’’ کل کو
ادھو ٹھاکرے پر کوئی مصیبت آئی تو سب سے پہلے ان کی مدد کیلئے میں پہنچوں
گا۔ وزیر اعظم کو اپنے وقار کا خیال کرتے ہوئے ان ذاتی تعلقات کو انتخاب
میں بھنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی مگر مودی کا تو اصول ہے’انتخابی
کامیابی کے لیے کچھ بھی کرےگا‘۔
وزیر اعظم مودی کی اس پینترے بازی کا بہترین جواب شرد پوار نے دیا ۔ انہوں
نے دو باتیں کہیں پہلی تو یہ کہ خدا نہ کرے ادھو ٹھاکرے پر کبھی ایسا برا
وقت آئے جب انہیں مودی کے مدد کی ضرورت پڑے ۔ دوسرا اور بھی تلخ سوال پوار
نے یہ کیا کہ مودی نے خود اپنے خاندان کا خیال کب رکھا ہے جو دوسروں کا
خیال رکھیں گے؟ اپنی زوجہ جسودھا بین کی حق تلفی کا جو داغ مودی کے دامن پر
لگا ہوا ہے اس کو دنیا کی کوئی واشنگ مشین نہیں دھو سکتی۔ مودی کی اس خود
آگہی کے پس پشت یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ علاقائی جماعتوں کے ساتھ عوام کا اک
قلبی تعلق ہوتا ہے کیونکہ وہ صوبائی وقار کی بات کرتی ہیں ۔ اقتدار کے زعم
اور ہوس میں بی جے پی نے مہاراشٹر کی دونوں علاقائی جماعتوں کو توڑ عوامی
جذبات کو زبردست ٹھیس لگائی ہے ۔ بی جے پی کے ساتھ آنے والے اجیت پوارکے
مقابلے شرد پوار کا قد بہت اونچا ہے بلکہ بھتیجے کی اپنے محسن چچا کے خلاف
بغاوت کو عوام کا بہت بڑا طبقہ نمک حرامی گردانتا ہے۔ ایکناتھ شندےبھی وزیر
اعلیٰ ہونے کے باوجود ادھو ٹھاکرے بہت کم مقبول ہیں ۔
اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے چھگن بھجبل جیسے رہنما نے برملا اپنے انٹرویو
میں کیا۔ بی جے پی کے ساتھ ہونے کے باوجود وہ بولےیہ بہت برا ہوا اس
لیےریاست میں شرد پواراور ادھو ٹھاکرے کے حق میں ہمدردی کی لہر ہے۔سچائی تو
یہ ہے کہ وزیر اعظم کے پیروں تلے سے زمین کے کھسکنے نےانہیں گرگٹ کی مانند
رنگ بدلنے پر مجبور کرکے یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ’’ بالا صاحب کا فرزند
ہونے کی وجہ سے میں ان (ادھو ٹھاکرے) کا ادب واحترام کرتا آیا ہوں اور
آئندہ بھی کروں گا لیکن میں بالا صاحب ٹھاکرے کے نظریات کو نبھاؤں گا۔ وہ
مجھ سے بےحد محبت کرتے تھے ۔ میں ان کا قرض بھلا نہیں سکتا۔‘‘ جس شخص نے
اپنے گرو اورمحسن اور لال کرشن اڈوانی کی عزت نہیں کی اور انہیں عوام میں
رسوا کردیا ہو اس کی زبان پر یہ منافقانہ جملے زیب نہیں دیتے۔ وزیر اعظم نے
مزید کہا کہ ’’ گزشتہ الیکشن ہم نے آمنے سامنے لڑا لیکن میں نے بالا صاحب
ٹھاکرے کے تعلق سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ادھو ٹھاکرے میرے تعلق سے کتنا ہی
کچھ کہہ لیں لیکن میں بالا صاحب سے عقیدت رکھتا ہوں ان کے تعلق سے کچھ نہیں
کہوں گا۔ میں بالا صاحب کا احترام کرتا ہوں اور عمر بھر کرتا رہوں گا۔ ‘‘
وزیر اعظم کو ان چکنی چپڑی باتوں کے بجائے یہ تو بتانا چاہیے کہ آخر بالا
صاحب ٹھاکرے سے یہ محبت اچانک کیونکر عود کر آئی ؟ پچھلے دس سالوں تک یہ
کہاں تھی ؟ پہلے وہ مخالفت کے ڈر سے بالا صاحب ٹھاکرے کی مخالفت نہیں کرتے
تھے مگر اس طرح کھل کر تعریف بھی نہیں کی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہےکہ بی جے پی
کی امیدوار نونیت رانا کے اس خیال سے وہ متفق ہوگئے ہیں کہ فی الحال ملک
میں مودی لہر نہیں ہے۔ نونیت رانا فی الحال دوہری پریشانی میں مبتلا ہے۔
ایک تو مودی لہر ندارد ہے دوسرے مقامی بی جے پی کیڈر ان کا مخالف ہے کیونکہ
پچھلا انتخاب انہوں نے این سی پی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کے طور پر
لڑا تھا مگر کامیاب ہونے کے بعد ہنومان چالیسا پڑھنے کے سوا کوئی قابلِ ذکر
کام نہیں کیا اور عوامی فلاح بہبود سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ وزیر
اعظم کے لیے بیک وقت بال ٹھاکرے کی تعریف و توصیف اور ان کے وارث ادھو
ٹھاکرے کی مخالفت پل صراط سے کم نہیں تھا اس لیے وہ توازن قائم نہیں رہ سکے
اور اوندھے منہ گر گئے۔ انہوں نے کہہ دیا ’’ جن لوگوں نے ساورکر کی توہین
کی ، اورنگ زیب کی تعریف کی، انہی کے ساتھ جا کر بالا صاحب کا بیٹا بیٹھ
گیا۔ لوگوں میں اسی بات کا غصہ ہے۔ لوگوں میں اس بات کی چڑ ہے کہ بالا صاحب
نے جو کچھ کہا ان کا بیٹا اقتدار کی خاطر اس کے خلاف کام کر رہا ہے۔‘‘
اس چرب زبانی کی حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کی خاطر مودی کن لوگوں کو تھوک کے
بھاو میں اپنی پارٹی کے اندر شامل کررہے ہیں وہ جگ ظاہر ہے۔ مودی جن پر
الزام لگا رہے ہیں ان میں سے ایک اشوک چوہان کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے
انہوں نے ایوانِ بالا کا رکن بنوا دیا۔ ملند دیورا جیسے نہ جانے کتنے لوگوں
کو اپنی شرن( پناہ) میں لے لیا اس وقت انہیں یاد نہیں آیا کہ یہ لوگ پہلے
کیا کررہے تھے اور کیا مودی جی نے یہ سب اقتدار میں بنے رہنے کے لیے نہیں
کیا؟ وزیراعظم نے کہا ’’بالا صاحب ٹھاکرے مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ان
کا اپنا پن میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ آج کی تاریخ میں مہاراشٹر اسمبلی میں
ہمارے سب سے زیادہ اراکین ہیں، اس کے باوجود شیوسینا کو وزیراعلیٰ کی کرسی
دے کر ہم نے اس پر ایکناتھ شندے کو بٹھایا۔ یہ بالا صاحب ٹھاکرے کو خراج
عقیدت ہےکیونکہ بالا صاحب کے نظریات کو ایکناتھ شندے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ‘‘
وزیراعظم مودی کی اس نام نہاد احسانمندی کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے شیوسینا
(ادھو) کے ترجمان سنجے راؤت نے سود سمیت سارا حساب کتاب چکا کردیا ۔ انہوں
نے سانگلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ’’ وزیر اعظم جھوٹ بول رہے
ہیں۔ مودی ایک خسارے میں چل رہے تاجر کی طرح ہیں۔ چانکیہ نے کہا تھا کہ جب
تاجر خسارے میں ہو تو جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ ‘‘ راؤت نے مودی سے ایسے سوالات
کیے کہ ان جواب ملک کے لوگ ای وی ایم پر بٹن دبا کر دیں گے انہوں نے پوچھا
’’ اگر نریندر مودی کو محبت کا اتنا ہی پاس تھا تو انہوں نے بالا صاحب کی
شیوسینا کو کیوں تقسیم کیا؟ ‘‘ انہوں نے کہا’’ مودی نے نہ صرف شیوسینا کے
دو ٹکڑے کئے بلکہ پارٹی کا نام اور نشان ایک بے ایمان آدمی کے ہاتھ سونپنے
کا جرم بھی کیا۔ اس لئے اب جو وہ محبت کا دعویٰ کر رہے ہیں ، وہ جھوٹا
ہے۔‘‘ وزیر اعظم اپنی حرکات سے مخالفین کو انہیں جھوٹا بولنے کا موقع دیتے
ہیں۔
وزیر اعظم نے انتخابات کے دوران عوام کو کنفیوژ کرنے کی جو ایک مذموم کوشش
کی اس کا ازالہ کرنے کی خاطر سنجے راؤت نے بی جے پی سے مفاہمت سے متعلق
ایک سوال کا جواب میں کہا کہ ’’ نریندر مودی اب ہمارے لئے چاہے کھڑکی
کھولیں یا دروازہ، ہم ان کے در پر کھڑے نہیں ہوں گے۔ مہاراشٹر میں عزت نفس
نام کی چیز اب بھی باقی ہے۔ ‘‘ وزیر اعظم کی اس پینترے بازی کی وجہ سنجے
راؤت نے یہ بتائی کہ ’’ان سب باتوں کا مطلب ہے کہ نریندر مودی یہ الیکشن
ہار رہے ہیں۔ انہیں اکثریت ملنے کا امکان نہیں ہے اس لئے وہ اب کھڑکی ،
دروازے اور دریچے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر
نانا پٹولے نے مودی کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے ’’ نریندر
مودی کتنے بڑے جھوٹے ہیں یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ وہ کب ہنسیں گے، کب روئیں
گے کسی کو نہیں معلوم‘‘ پٹولے کے مطابق مودی نے نوٹ بندی کے بعد جاپان جا
کر تالیاں بجانے بیٹھ گئے۔ ملک کی بربادی کے دوران لوگ اپنے ہی پیسے نکالنے
کیلئے قطاروں میں کھڑے تھے بلکہ کئی لوگوں نے اپنی جانیں بھی گنوادیں مگروہ
جاپان میں بیٹھ کر ہنس رہے تھے۔ اس دنیا میں ان سے بڑا کوئی ڈرامے باز نہیں
ہے۔‘‘ بدقسمتی سے مودی جی اب خود اپنا پول کھول رہے ہیں مگردیکھنا یہ ہے کہ
کیا اس کے باوجود عوام ان کے جھانسے میں آتے ہیں یا الیکشن میں ان کوقرار
واقعی سبق سکھاتے ہیں؟
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|