سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان اپنا گزشتہ ماہ دو روزہ دورہ مکمل
کر کے کر واپس روانہ ہو چکے ہیں جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف سمیت دیگر
اعلیٰ پاکستانی حکام نے اس دورے کو ہمیشہ کی طرح ملک کے لیے انتہائی ’نتیجہ
خیز اور سود مند‘ قرار دیا ہے۔
سعودی وفد کا یہ دورہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد
محمد بن سلمان کے درمیان ماہ رمضان میں مکہ مکرمہ میں ہونے والی ملاقات کا
تسلسل ہی سمجھا جارہا ہے. اس دوران اقتصادی معاملات بالخصوص پاکستان میں
سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا ایجنڈا سرفہرست رہا۔
دورے کے اختتام پر سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے اپنے پاکستانی ہم منصب
کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں اس دورے کو بہت ، مثبت‘ قرار
دیتے ہوئے معیشت کے حوالے سے کچھ حوصلہ افزا باتیں کیں اور دعویٰ کیا کہ
پاکستان کو معاشی محاذ پر جلد ہی ’بڑے فوائد‘ نظر آئینگے.
گذشتہ ایک دہائی میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری کی طرف
گامزن تھے اس سرد مہری میں کبھی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ کبھی یمن کی جنگ
میں پاکستان کا فریق نہ بننا سعودی عرب کو ناگوار گزرا تو کبھی پی ٹی آئی
کے دور حکومت میں عمران خان کی بطور وزیراعظم ملائیشیا میں اسلامی سربراہی
کانفرنس کے انعقاد کی کوششیں ریاض کو ایک آنکھ نہ بہائی۔
پاکستان میں اس وقت نئی حکومت کے حالیہ دور میں اب دونوں ممالک کے تعلقات
میں ایک بار پھر وہی نواز دور کی گرمجوشی دیکھنے میں نظر آرہی ہیں . اور
ایسے میں پاکستان سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کار پاکستان میں کرنے
کا خواہشمند ہے۔
ابتدائی طور پر سعودی وفد کو آئی ٹی، معدنیات، زراعت، توانائی سمیت دیگر
شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے اور سعودی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ اور تعاون
فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
مگر اس ’نتیجہ خیز‘ اور مثبت قرار دیے جانے والے دورے کے اختتام پر ہونے
والی مشترکہ پریس کانفرنس کا جائزہ کیا جائے تو اب تک دونوں ممالک کے
درمیان سرمایہ کاری کے منصوبوں کے حوالے سے کوئی واضح ایک ٹائم فریم ورک
جاری نہیں کیا گیا جس سے ابھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کونکہ سی پیک
پروجیکٹ کے دوران بھی عمرانی دور حکمرانی میں سعودیہ نے پاکستان میں سرمایہ
کاری کا اعلان کیا تھا وہ ابھی تک کاغذوں میں ہی نظر آتا ہے.
ابھی یہ بھی نظر نہیں آیا کہ سعودی عرب درحقیقت کن کن شعبوں میں سرمایہ
کاری کرے گا اور اس سرمایہ کاری کا حجم کیا ہو گا؟ اور یہ کہ پاکستان جیسی
غیر مستحکم اور کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے سعودی عرب کو کیا فائدہ
حاصل کرنا چاہتا ہے ؟ اب کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان سمیت دیگر دوست
ممالک کو براہ راست امداد فراہم کرنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کی پالیسی
پر کیوں عمل پیرا ہے؟
جبکہ بقول ایک وفاقی وزیر کہ پاکستان نے سعودی عرب کو آئی ٹی، معدنیات،
زراعت، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی ہے۔
جبکہ اقتصادی امور کے کئی ماہرین نے یہ ہی کہے پائے کہ اس میں کوئی شک نہیں
کہ پاکستان اور سعودی حکام اب تک اس معاملے پر رازداری برت رہے ہیں جس کے
باعث خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
’لگتا یہ ہی تھا کہ اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی جانب سے سعودی
عرب کو سرمایہ کاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس کے جواب میں ایک سعودی
وفد نے پاکستان کا دورہ کر کے یہاں سرمایہ کاری کے مواقع کے متعلق جانکاری
حاصل کی۔
سعودی وفد اب واپس جا کر ان شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کے بارے میں اپنے
فیصلے سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرے گا۔ نظر یہی آتا ہے کہ ’حکومت پاکستان
کی خاموشی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ابھی پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو
سرمایہ کاری کے ممکنہ مواقع کی ایک فہرست دی گئی ہے جہاں وہ سرمایہ کاری کر
سکتا ہے اور کچھ منافع کما سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان
کی جانب سے بتائے گئے مواقع میں سے کتنے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کی
پیشکش کو قبول کرے گا۔
پاکستان ابھی ان منصوبوں میں سعودی سرمایہ کاری اور اس کے حجم سے متعلق
واضح نہیں ہے، اس لیے پاکستانی حکام اس بارے میں بات کرنے میں زیادہ عجلت
میں نہیں دیکھا پارہے ہیں ۔ لگتا یہی ہے کہ سعودی عرب کی اس وقت جو دلچسپی
ہے اس میں معدنیات، کان کنی خصوصاً ریکو ڈیک کا منصوبہ ہے۔
اس وقت پاکستان کی معیشت کا غیر مستحکم ہونا کئی ادوار کی حکومتوں کی معاشی
پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ پاکستانی معیشت کی کارپوریٹ
پرافٹبلٹی (یعنی نجی شعبے کی کمپنیوں کے منافع بخش ہونے کی شرح) دیکھیں تو
معلوم ہوتا ہے کہ ان نجی کمپنیوں کے منافع بہت اچھے ہیں۔
اگر پاکستان کی مارکیٹ یا معیشت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے
کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں لسٹڈ تقریباً 83 کمپنیوں کے منافع ایشیا کی
باقی مارکیٹوں میں ایسی کمپنیوں کے منافع سے کہیں زیادہ ہے۔ ’اس سے یہ ظاہر
ہوتا ہے کہ پاکستان کے نجی شعبے کے اندر ڈیمانڈ بھی موجود ہے اور مواقع بھی
ہیں۔
نظر یہی آتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری اس لیے کرنا چاہتا ہے
کیونکہ وہ اپنی معیشت کو اپنے ویژن 2030 کے تحت خطے میں متنوع بنا رہا ہے،
اور پاکستان چونکہ اس کا سٹریٹجک اور سفارتی اتحادی ہے چنانچہ بطور ایک
مسلم ملک کے وہ یہاں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔ جو آج کل کی ہر
ملک کی ضرورت بن گئی یہ ضرورت معاشی ، داخلی ، خارجی و اسٹریجیک وغیرہ کو
دیکھ کے بنائی جارہی ہیں.
جبکہ پانچ سال پہلے سعودیہ نے جس طرح کے صورتحال کو مدنظر دیکھ کر سرمایہ
کاری پر مبنی اس اشتراک کے خدوخال کو وضع کیا تھا اور اس میں تین چیزوں کو
بنیاد بنایا گیا تھا ایک مذہبی سیاحت، دوسرا وہاں کام کرنے والی پاکستانی
افرادی قوت اور تیسرا ہماری دفاعی پارٹنرشپ۔
جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ عراق و کویت وار کے بعد سعودی عرب گذشتہ تین چار
دہائیوں سے تیل سے حاصل ہونے والے پیسے کی اب تقریباً وہ تمام دیگر شعبوں
میں سرمایہ کاری کرنا چارہا ہے۔ مگر اس سے پہلے زیادہ تر یہ سرمایہ کاری
سعودی عرب کے اندر ہو رہی تھی اور اب وہ مصر سے لے کر پاکستان تک ایسی
منڈیوں کی تلاش میں گریزاں ہے جہاں وہ نہ صرف اپنا سرمایہ لگا سکے بلکہ
جغرافیائی اعتبار سے اپنا اثر و رسوخ بھی ان مُلکوں میں بڑھا سکے جبکہ
پاکستان کا جنوبی ایشیا میں میں جو جغرافیہ بنتا ہے تو یہ واحد مُلک ہے جس
کی سرحد چائینہ، ایران، انڈیا و افغانستان سے جا ملتی ہیں یہ ہی نقطعہ عرب،
مغرب و مشرق بعید کے مُلک نہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں.
اس وقت سعودی عرب ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے جہاں سے اسے
منافع بھی حاصل ہو اور اس کی معیشت اور سٹریٹیجک اہمیت کو بھی اس مُلک میں
وسعت ملے۔
جبکہ سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ایک اور وجہ مشرقی وسطیٰ اور
عرب دنیا میں تیزی سے بدلتی جیو پولیٹیکل صورتحال اور کشیدگی ہے۔ ’سعودی
عرب کو پاکستان کی دفاعی مدد اور سفارتی حمایت کی بھی اس وقت اشد ضرورت ہے،
اسی لیے یہ سرمایہ کاری نجی شعبے میں نہیں آ پائیگی بلکہ یہ پیسہ صرف اور
صرف حکومتی منصوبوں کو دیا جائیگا.
جبکہ سعودی عرب چند سال پہلے سے دیگر دوست ممالک کو امداد دینے کے معاملات
سے اپنے آپ کو نکال باہر کیا ہے.
حالانکہ گزشتہ کچھ سالوں میں سعودی عرب کی جانب سے ایسا صرف پاکستان کے
ساتھ نہیں کیا گیا بلکہ اس نے سعودی امداد لینے والے تمام ممالک کو مطلع کر
دیا تھا کہ اگر آئندہ آپ کو کوئی ضرورت ہے تو امداد کی بجائے سرمایہ کاری
کے منصوبوں کو تیار کریں۔
اس وقت سعودی عرب سے صرف پاکستان ہی نہیں مصر بھی بہت امداد لیتا تھا اور
سعودی عرب نے کچھ عرصہ پہلے اپنی امداد کی بجائے سرمایہ کاری کی پالیسی کو
واضح کر دیا تھا۔
سعودی عرب کی اسی نئی پالیسی کے تحت پاکستان نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کو
ملک میں سرمایہ کاری کی کئی دفعہ اپنے سفارتی و وزارتی وغیرہ کے زریعے دعوت
دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کرے جس کے بعد
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان نے دورہ بھی کیا تھا۔
اس وقت ولی عہد کی یہ ہی خواہش ہے کہ وہ خطے میں اس مارکیٹ کے اندر منافع
اور سٹرٹیجک اعتبار سے سرمایہ کاری کرے۔
دیکھا جائے تو دوسری طرف پاکستان کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ خطے میں جو
لیکیوڈیٹی ہے اس کو اپنی جانب راغب کریں کیونکہ پاکستان کو زرمبادلہ کے لیے
ڈالرز کی ضرورت ہے جبکہ سعودی عرب کو سرمایہ کاری کے لیے نئی منڈیوں کی
تلاش، لہذا یہ دونوں ممالک کے لیے وِن وِن صورتحال ہے۔
اگر سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کریگا کہ اس سرمایہ کاری سے حکومت
کو کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے میں مدد ضرور ملے گی مگر اس سے عام
آدمی کو ریلیف ملنا خام خیالی ہی رہیگا.
کیونکہ یہ پیسہ ترقیاتی منصوبوں کا پیسہ نہیں ہے بلکہ پیسہ ’سوورن ویلتھ
فنڈ‘ کا پیسہ ہے، جسے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ بھی کہا جاتا ہے اور جو سعودی عرب
کے زرمبادلہ کے ذخائر کو توازن دیتا ہے۔
|