دوسری عالمی جنگ میں فتح یاب
ہونے کے بعد امریکہ نے اپنے استحکام اور دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے
کے لیے آزاد منڈی کی تجارت کو فروغ دیا اور مارکیٹ اکانومی یا ملٹی نیشنل
کمپنیوں کی معیشت کو جنم دیا۔سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھنے والا ،
اشتراکیت کو شکست دینے والا اور پوری دنیا پر حکومت کرنے کا دعویٰ دار یہ
ملک جتنی تیزی سے دنیا کے نقشے پر ایک کامیاب معیشت اور ایک مستحکم ریاست
کے طور پر ابھرا اس سے زیادہ تیزی سے روبہ زوال ہونا شروع ہوااور پہلی
مرتبہ پچھلی صدی کی اسّی کی دہائی میں امریکہ کو معاشی خسارے کا سامنا کرنا
پڑاجس کی وجہ سے مارکیٹ میں اس کی کرنسی کی حیثیت میں نہ صرف کمی ہونے لگی
بلکہ یہ بھی گرادانا جانے لگا کہ یہ کرنسی لین دین کے لیے ساز گار
نہیں۔دراصل یہیں سے امریکہ نے اقتصادی اداروں سے قرضہ جات لینے کا آغاز کیا
اور اپنی ساکھ بچانے کی دھن میں مگن ہو گیا ۔اس ضمن میں عالمی بنک کے
سربراہ کا حالیہ بیان بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے برملا
اس بات کا اظہار کیا ہے کہ امریکی مالیاتی بحران کی وجہ سے دنیامیں اب
امریکی ڈالر سے وابستگی میں کمی آئی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ کی سالانہ مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی
ڈی پی 14 کھرب ڈالر سے زائد ہے لیکن ا مریکی معیشت 2008 سے مندی کی طرف
تیزی سے گامزن ہے صرف 2008 میں اسے484ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا ہواجس
کی وجوہات میں افراط زر، تیل کی بلند قیمتیں اورامریکی پالیسیوں پر سرمایہ
کاروں کا متزلزل اعتماد ہے۔بیشتر ماہرین کے مطابق اپنی ڈانواں ڈول معیشت کا
ذمہ دار کوئی اور نہیں خود امریکہ ہے امریکہ کی جانب سے عراق اور افغانستان
میں حملہ کے باعث امریکہ میں افراط زریا مہنگائی کی شرح میں بتدریج اضافہ
دیکھنے کو ملا جس کے باعث امریکی شہریوں کی قوت خرید متاثر ہوئی ۔
امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق افغانستان پر امریکی حملے کے بعد 2002سے2006
تک 99فیصد امریکیوں کی سالانہ آمدنی میں ایک فیصد اضافہ ہواجبکہ سارا فائدہ
ملک کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد حصے کو ہوا جس کا تعلق اسلحہ ساز فیکٹریوں
یا محکمہ دفاع سے تھا۔عراق اور افغانستان میں جاری کارروائیوں اور وہاں
تعینات امریکی افواج کی رہائش اور دیگر اخراجات پراب تک30کھرب ڈالرکے
اخراجات اٹھ چکے ہیں۔ ان اخراجات کے باعث امریکی حکومت کے قرضوں میں ریکارڈ
اضافہ ہوا ہے صرف 2008 کے دوران ہی امریکی حکومت نے عالمی اداروں کھربوں
ڈالر زائد کے قرضے لئے تھے۔ امریکہ کی افغانستان سے جنگ کی پالیسی کے نتیجے
میں 2002 کے بعد سے امریکہ میں بیروزگاری کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا
ہے ۔دنیا کی سب سے مستحکم معیشت کا دعوی ٰ کرنے اور ساری دنیا کو اپنی
انگلیوں کی پوروں پر نچانے والی مملکت امریکہ کے صدر کا اپنے ملک میں بڑھتی
ہوئی بے روزگاری کا اقرار کرتے ہوئے یہ بیان انتہائی اہم ہے:2008کی کساد
بازاری سے لے کر اب تک جو 80 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، ان کی بحالی میں
ابھی کافی وقت لگے گالیکن میں امریکہ کے لوگوں سے اور دنیا میں اپنے شراکت
داروں سے جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم اس مشکل پر قابو پا لیں گے۔
حالات بہتر ہو جائیں گے اور ہم ضرور اس منزل پر ایک ساتھ پہنچیں گے۔شاید
امریکی صدر نہیں جانتے کہ امریکہ میں بے روزگاری میںروز افزوں اضافے کے
باعث جرائم کی شرح میں سوفیصداضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس وقت ہر پچاس
میں سے ایک امریکی بچہ بے گھر ہے۔اسی طرح کی ایک رپورٹ امریکی ادارے اربن
انسٹیٹیوٹ نے بھی پیش کی ہے جس کے مطابق: امریکہ میں عورتوں اور بچوں سمیت
35لاکھ شہری سڑکوں پر سوتے ہیں۔ ان میںسے ساڑھے تیرہ لاکھ بچے ہیں۔
جہاں امریکہ کی معیشت کو عراق اور افغانستان کی جنگوں نے نقصان پہنچایاوہیں
امریکی حکام کی بدعنوانیوں نے بھی امریکی معیشت پر اپنے منفی اثرات مرتب
کیے ۔ اس ضمن میں ہم امریکی موقر جریدے ٹائمزکی دسمبر 2008میں شائع ایک
رپورٹ پیش کر رہے ہیں جس میں کھل کر بتایا گیا تھا کہ سابق امریکی صدر جارج
بش اور ان کی انتظامیہ نے صرف 2008کے دوران عراق کی تعمیر نوکیلئے مختص کئے
گئے 170ارب ڈالر سے بدعنوانی، اقربا پروری، نااہلی اور کھلے عام کساد
بازاری کے ذریعے امریکی عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی کواپنے مقاصد کی تکمیل کے
لیے خرچ کیا ۔
امریکی حکومت کی بے ایمانی، دھاندلی اور اخلاقی گراوٹ کے بارے میںمشہور
امریکی مصنف پیٹرک سیل اپنی کتاب The Collapse of American Empire میں
لکھتے ہیں: اس وقت امریکی اداروں کا شمار دنیا کے انتہائی بدعنوان اداروں
میں ہوتا ہے۔ عوام انصاف کے حصول کیلئے ترس رہے ہیں اور ساری دنیا کو
انسانی حقوق کا درس پڑھانے والا امریکہ خود اپنے عوام کے بنیادی حقوق غصب
کرنے کیلئے قانون سازی کررہا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ امریکہ کی صنعتی ترقی
نمائشی ہے کیونکہ اسکی مجموعی قومی پیداوار میں صنعت کا حصہ صرف13 فیصد ہے۔
انھی وجوہات کی بنا پر امریکی عوام اپنی حکومت سے شدید نالاں ہیں اور
امریکی تھنک ٹینکس ، مفکر اور سکالرز اب یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ
آیا امریکہ ان دگرگوں حالات میں اپنا وجود قائم و دائم رکھ سکے گا یا
بالاخر سوویت یونین کی طرح اس کا بھی شیرازہ بکھر جائے گا۔
امریکہ میں پائی جانے والی مایوسی ، اضطراب اور بے چینی کوئی ایک دو سال
پرانی بات نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے امریکی حکومت کی ریشہ دوانیوں سے وہاں
کے عوام پیچ و تاب کھا رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ امریکہ کی مختلف
ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ نے لگیں۔حالیہ امریکی معاشی زبوں
حالی کے نتیجے میں ان ریاستوں میں آزادی کی تحریکوں میں مزید تیزی دیکھنے
میں آئی ہے۔ جن ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں عروج پر ہیں ان میں سب سے
پہلے الاسکا کا شمار ہوتا ہے۔ یہ ریاست رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی سب سے
بڑی ریاست ہے جوامریکہ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔اس ریاست میں الاسکن
انڈیپنڈننس پارٹی کے نام سے امریکہ سے آزادی کی تحریک1970 سے جاری ہے ۔اس
پارٹی کے مقاصد میں یہ شامل ہے کہ الاسکا کے عوام کو ان کاجائز حق دیا جائے
، ان کی اپنی ایک الگ شناخت ہو اور یہ سب حاصل کرنے کے لیے یہ پارٹی قانون
کے دائرہ میں رہتے ہوئے عمل کرے گی اور الاسکا کی آزادی کی تحریک کو یقینی
بنائے گی۔ امریکہ میں آزادی کی تحریک چلانے والی دوسری اہم ریاست اوریگان
ہے جو واشنگٹن کے ساتھ بحراوقیانوس کے ساحلوں پر واقع ہے۔امریکی
بحراوقیانوس کے ساحل پر مشتمل اوریگان اور واشنگٹن سمیت متعدد خطوں کو
مشترکہ طور پرکاساکاڈیاکہاجاتا ہے۔اس خطے کی آزادی کی تحریک کاساکاڈین
نیشنل پارٹی چلا رہی ہے یہ پارٹی بھی اس بات کا دعوی کرتی ہے کہ اسے امریکہ
سے آزادی چاہیے اور یہ آزادی پر امن طریقے سے حاصل کی جائے گی۔یہاں یہ بات
انتہائی اہم ہے کہ یہ پارٹی اپنی آزادی کی تحریک میں کامیابی کے حوالے سے
اس قدر پر امید ہے کہ اس نے اپنی مستقبل کی ریاست کا جھنڈا بھی تیار کر
رکھا ہے جس میں دوسنہری ستارے ہیں جو دوریاستوں اوریگون اورواشنگٹن کو ظاہر
کرتے ہیں۔اس تحریک سے وابستہ بعض لوگوں نے تو مستقبل کی اس ریاست کانام بھی
تجویز کررکھاہے اور اسے جمہوریہ کاساکاڈا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
امریکہ میں جاری آزادی کی تحریکوں میں ریاست ہوائی بھی شامل ہے ۔ 21
اگست1959 کو امریکہ کا حصہ بننے والی آخری ریاست تھی ۔اس ریاست کے لوگ
ہوائی کی آزادی کی تحریک چلائے ہوئے ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہوائی
کے لوگوں نے 5 جولائی 2011 کو اقوام متحدہ میں ایک شکایت بھی درج کروائی
تھی جس کا عنوان تھاHawaiin Kingdom filed Complaint with UN Security
Council against the United States.139 صفحات پر مشتمل اس شکایت کو ہوائی
کے وزیر داخلہ نے اقام متحدہ میں پیش کیا جس کا مقصد اقوام متحدہ کو یہ
باور کروانا تھا کہ ہوائی کے عوام امریکہ سے آزادی چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ
ورمانٹ،نیو انگلینڈ،نووا کاڈیا،لبرٹی،نیو ہیمپشائر،لانگ ائی لینڈ نیویارک
،نارتھ کیرولینا،اوہائیو،پنسلوانیا،پورتو ریکو،ساؤتھ کنفڈریٹ ریجن،ساؤتھ
کیرولینا،ٹیکساس ،ورمونٹ،منی سوٹا،وسکنسن اورمشی گن میں بھی امریکی حکومت
کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور ان تمام ریاستوں اور علاقوں میں
آزادی کی تحریکیں جاری ہیں۔ہمارے خیال میں امریکی حکومت جس جنگی جنون میں
مبتلا ہے وہ اپنی کسی بھی ریاست کو کبھی بھی پر امن تحریک چلانے کے نتیجے
میں حق آزادی نہیں دے گی ان ریاستوں کے افراد کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی
کی ضرورت ہے تا کہ وہ جلد از جلد متحدہ امریکہ کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے
نکال سکیں۔
امریکہ کی دیگر ممالک کے معاملات میں بے جا عمل دخل، جنگی جنون، اس کی
متزلزل معیشت اور اندرونی طور پر امریکہ میں جاری بے یقینی ، بے چینی ،کس
مپرسی اور علیحدگی کی تحریکوں کے برعکس چین نے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے آہستہ آہستہ امریکی برآمدی منڈیوں پر قبضہ کر لیا اور اپنی معتدل
پالیسیوں کی وجہ سے تمام دنیا میں اپنی ساکھ کو بہت بنایایہی وجہ ہے کہ آج
امریکہ کی معیشت کا انحصار چین کی سرمایہ کاری پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی
مبصرین چین کو عالمی طاقت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
امریکہ کے حالیہ بحران میں بھی چین نے900 ارب ڈالر میں امریکہ کے بانڈ خرید
کر اس کی تباہ حال معیشت کو سہارادیا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ اپنی ازلی
ڈھٹائی ،دھونس اوردھاندلی پر قائم رہتے ہوئے چین پر الزام لگا رہا ہے کہ اس
نے مصنوعی طور پر اپنی کرنسی کی شرح تبادلہ میں تبدیلی کردی ہے تاکہ اس کی
برآمدات میں اضافہ ہو۔اپنے اس الزام کے ثبوت میںامریکہ کہتا ہے : اس نے چین
سے 340 ارب ڈالر کی اشیاءدرآمد کی ہیں جب کہ چین امریکہ سے اس کا دسواں حصہ
بھی درآمد نہیں کرتا۔ اس الزام کے جواب میں چین کہتا ہے: کسی ملک کی کرنسی
کی شرح تبادلہ کا دارومدار اس کی کل تجارت پر ہے جب کہ امریکہ نے اپنی
معیشت میں 600 ارب ڈالر لگا کر دوسرے ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر
کی قیمت کو مصنوعی طور پر کم کردیا ہے جس سے دوسرے ممالک کوناقابل تلافی
نقصان پہنچے گا۔امریکہ سے درآمدات کے حوالے سے چین کا موقف ہے کہ وہ امریکہ
سے بھاری ٹیکنالوجی درآمد کرنا چاہتا ہے مگر امریکہ اپنی چین سے درآمدات کو
صیغہ راز میں رکھنا چاہتاہے۔
اگرچہ حالیہ امریکی معاشی بحران کے نتیجے میں چین ایک مستحکم معاشی ملک کے
طور پر سامنے آیا ہے مگر تاحال چین ٹیکنالوجی اور عسکری شعبہ جات میں
امریکہ سے بہت پیچھے ہے ۔ لہٰذا چین کے لیے ضروری ہے کہ وہ روس اور ایران
سے اپنے تعلقات میں مزید بہتری لائے تا کہ دنیا معاشی طور پر مستحکم ہونے
کے ساتھ ساتھ عسکری طور پر بھی امریکہ کے ہم پلہ ہو سکے اور آنے والے دنوں
میں سپر پاور کا کردار بخوبی نبھا سکے۔
ایک طرف تو امریکہ اپنی متغیر معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے قرضوں کے بوجھ
تلے دبتا چلاجارہا ہے تو دوسری طرف اس کے اپنے ہی عوام اس کی منافرانہ
پالیسیوں کے خلاف غم و غصہ کے جذبات رکھتے ہوئے آزادی کی تحریکیں چلائے
ہوئے ہیں، ایسے حالات میں متحدہ امریکہ کے لیے اپنی من مانیاں جاری رکھنا
تو درکنار اپنا وجود قائم رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ان حقائق
کومد نظر رکھتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ پوری دنیاکوخاک وخون میں نہلا
دینے والا امریکہ یقیناًٹوٹ کر رہے گا۔ |