ایک بار پھر جمہوری اور عوامی
حکومت کی جانب سے عوام کو ایک ایسے تحفے سے نواز گیا ہے جس کے نتیجہ میں
پیدا ہونے والی مہنگائی اور روزگار کے مواقعوں میں واقع ہونے والی کمی کے
اثرات نسل در منتقل ہوتے رہیں گے ۔عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں کمی کے رجحان کے برعکس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر
دیا گیاہے ۔اس نئے حکومتی اعلان کے مطابق اس دفعہ پٹرول کی قیمت میں4.15
اورڈیزل کی قیمت میں 1.51روپے بڑھائی گئی ہے جبکہ سی این جی کی قیمت میں 4
روپے تک اضافہ کرنے کے بارے میں بھی جلد فیصلہ ہونے والا ہے۔ حکومت کی جانب
سے اس طرح کی بار بار کے منی بجٹ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی
ہوشربا شرح نے عوام کی کمر پہلے ہی توڑ کر رکھ دی ہے اورجو غربت اور بے
روزگاری میں تیزی سے اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ ہے۔پٹرول ،ڈیزل اور گیس
بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف ملک میں مہنگائی بڑھنے کا ہی سبب نہیں ہے بلکہ
ملک میں غربت اور بے روزگاری اورگدا گری میں اضافے کا دوسرا نام بھی ہے۔
بدامنی، کرپشن اور بد انتظامی کے نتیجہ میں پیدا ہونےو الے اثرات کے نتیجہ
میں ورلڈ بنک کی رینکنگ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں غربت کے لحاظ سے
پانچویں نمبر پر جبکہ دنیا بھر میں 100ویں نمبر پر آ چکا ہے ایک رپورٹ کے
مطابق پچھلے سال تک پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 5.5فیصد تھی اور بے
روزگار افراد کی تعداد 29 لاکھ سے زائد تھی ۔ مہنگائی تیسری دنیا کا ہی
نہیں بلکہ پاکستان کا بھی سنگین ترین اور گھمبیر مسئلہ ہے یو این ڈی پی کی
2009کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 22.6فیصد آبادی سوا ڈالر (ایک سو روپے
پاکستانی) یومیہ سے بھی کم آمدنی پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ تو دوسری
طرف ملک بھر میں مہنگائی کے آنے والے طوفان بد تمیزی نے عام آدمی کیلئے جسم
اور روح کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی ناممکن بنا دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق موجودہ جمہوری حکومت کے دور میں مہنگائی خطرناک حد تک بڑھی
ہے ۔سٹیٹ بنک پاکستان کے مطابق گزشتہ ایک سال میں مہنگائی کی شرح 22فیصد
بڑھ گئی ۔ جبکہ ایشائی بنک کا کہنا ہے کہ رواں سال پاکستان میں مہنگائی
13فیصد تک بڑھے گی۔ پاکستان میںمہنگائی کی شرح سب سے زیادہ جبکہ اقتصادی
ترقی کی شرح خطے کی اوسط شرح نمو سے بھی آدھی بھی نہیں رہی ۔آئی ایم ایف کی
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 3.8 فیصد رہے گی جبکہ
مہنگائی کی شرح اس سال14فیصد رہنے کا امکان ہے اور پاکستان میںمہنگائی کی
شرح خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے ۔ا س مہنگائی کے نتیجہ میں عام شہری
انتہائی بری طرح متاثر ہوا ہے اورا س کیلئے اشیاءضروریہ کی خریداری بھی
ممکن نہیں رہی ۔غریب شہری حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق خوراک تو درکنار
غیر معیاری دال اور سبزیاں بھی کھانے کو ترس رہے ہیں گزشتہ کئی دنوں ٹماٹر
جیسی بظاہر معمولی چیز بھی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر تھی جبکہ اس وقت
غریب کی خوراک کوئی دال بھی ڈیڑھ سو سے کم قیمت پر دستیاب نہیں ہے۔وفاقی
ادارہ شماریات کے مطابق پچھلے تین ماہ میں آٹ چودہ فیصد دال چنا ساڑھے بارہ
فیصد گھی نو فیصد سرخ مرچ پاوڈر اکیس فیصد اور نمک چھ فیصد مزید مہنگا ہو
چکا ہے۔انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹی ٹیوٹ نے کچھ عرصہ قبل اپنی رپورٹ میں
مہنگائی کوپاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے رپورٹ میں دہشتگردی
کو مہنگائی سے نیچے رکھا گیا ہے ۔ایسی صورتحال میں کہ جب ملک میں جمہوری
حکومتیں موجود ہوں تو عوامی توقعات بھی بڑھ جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور میں مہنگائی
کو کنٹرول کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں عوام سے تحریری اور زبانی وعدے
بھی کئے جاتے ہیں مگر عمل کچھ بھی نہیں۔ اگرچہ آج کل دہشتگردی کے متواتر
واقعات، ڈینگی مچھر سیلاب کی تباہ کاریوں جیسے ایشوز ٹی وی چینیلز اور
اخبارات میں چھائے نظر آتے ہیں مگر اس سے کہیں سنگین مسئلہ ملک میں مہنگائی
کے طوفان بد تمیزی کا ہے جس نے پہلے سے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر عالمی تنظیمیں مسلسل مہنگائی کے اس مسئلے پر
زور دے رہی ہیں ۔مگر افسوسناک بات تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اسے کنٹرول
کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نظر ہی نہیں آتی۔ صورتحال مزید تشویشناک
اس وقت ہو جاتی ہے جب عوام کے حقوق اور انکے ووٹوں کی صحیح حقدار کی
دعویدار سیاسی جماعتوں کے پاس قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور برقرار رکھنے
کیلئے کوئی قابل عمل حل ہی موجود نہ ہو۔ میںنے اس حوالے سے جب مرکز اور
صوبوں میں قائم عوامی ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والی یا مستقبل میں حکومت میں
آکر عوامی مسائل کو حل کرنے کی دعویدار سیاسی جماعتوں کے منشور کا جائزہ
لیا تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ان کے پاس اس وقت تک مہنگائی کے اس
عفریت کو کنٹرول کرنے کا کوئی قابل عمل اور سنجیدہ لائحہ عمل موجود نہیں ہے
۔ اس انکشاف کے بعد میں یہاں پر میں قومی تعمیر نو بیورو کے سابق چیئرمین
اور جیوے پاکستان جیوے مقامی حکومت کے چیئرمین دانیال عزیز کے اس موقف کی
حمائت کرنے پر مجبورہوں کہ وفاقی ا ور صوبائی حکومتیں مہنگائی کے ا س مسئلے
کی برابر ذمہ دار ہیں خواہ وہ مرکز اور صوبوں میںپاکستان پیپلز پارٹی اور
اس کی حلیف جماعتوں کی حکومت ہو یا پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی شکل
میں ہوں دونوں ذمہ دار ہیں۔ وہ حکومت کے اندر اور باہر تمام سےاسی جماعتوں
کو اس مسئلے کا ذمہ درا قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھاری خسارے کے بجٹ
نے عوام کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ میرے خیال میں ان حالات میں موجودہ
حکومت سے اصلاح احوال کے حوالے سے کسی بہتر پالیسی کی کوئی توقع نہیں ہے۔
کیونکہ موجودہ حکومت کفائت شعاری کے نام پر جو ڈرامہ کرچکی ہے وہ سب کے
سامنے ہے۔ حکومت موجودہ معاشی صورتحال پر شور تو مچاتی ہے اور اس کا موقف
جو کسی حد تک درست بھی ہے کہ دہشتگردی اور سیلاب نے معیشت کو بری طرح نقصان
پہنچایا ہے ۔ لیکن دوسری طرف حکومت اپنے فضول اخراجات اور عیاشیوں کو ترک
کرنے پر بھی تیار نہیں ہے اور ان اضافی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے منی بجٹ
لاتی رہے گی۔ جس سے نہ تو ملکی معیشت سنبھلے گی اور اس کے نتیجہ میں
مہنگائی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ تو ہوتا ہی رہے گا اور مہنگائی کے
پسے ہوئے عوام کیلئے ریلیف ایک خواب ہی رہے گا ۔ |