23 مارچ کو سندھ کے عظیم مجاہد، ہوش محمد شیدی کا یوم
شہادت ہوتا ہے، لیکن سندھ کے95 فیصد عوام کو علم نہیں ہے کہ ہوش محمد شیدی
کون تھا؟۔سندھ کے نوجوانوں نے ’’مرسوں مرسوں ، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کا نعرہ بھی
سنا ہوگا بلکہ سیاسی جلسوں میں وہ خود بھی اسےجوش و خروش سے لگاتے ہوں گے۔
لیکن اس نعرے کے تخلیق کار کے نام سے نابلد ہوں گے۔ ہوش محمد شیدی سندھ
دھرتی کا وہ سپوت تھا جس نے دھرتی ماتا کی عزت و ناموس کی خاطر ’’مرسوں
مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی جان نچھاور کردی۔
سندھ کے حکمراں، میر فتح علی خان کے گھر میں جنم لینے والا ہوش محمد شیدی ،
سبھاگو خان کا بیٹا تھا۔ اس کی والدہ ’’دائی بیگم ‘‘ میر فتح علی تالپور کی
ملازمہ تھی اور اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ میر فتح علی کی حویلی میں رہتی
تھی۔ اس کے بھائی کا نام نصیبو جب کہ بہن کا نام سیتا تھا۔ہوشو شیدی کا
بچپن میروں کے گھر میں ہی گزرا۔ ہوشو کا خاندان بھی میروں سے گہری عقیدت
رکھتا تھا۔ وہاںہوشو نے فنون حرب سیکھے اور جوانی کی دہلیز میں قدم رکھتے
ہی میروں کی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اس کی کارکردگی اتنی اچھی تھی کہ جلد ہی
ایک پلاٹون کی کمان سنبھال لی۔ کچھ عرصے بعد ہی اپنی بہادری کے باعث جنرل
کے عہدے تک پہنچ گیا۔
میر فتح علی تالپور کے بعد اس کا بیٹا میر صوبیدار سندھ کا حکمراں بنا۔اس
دور میں سندھ کا خطہ بہت خوش حال تھا۔ سندھ کی خوشحالی دیکھ کر انگریزوں نے
سندھ پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں
نے تالپور حکومت کے چند امیروں سے ساز باز کرکے میر صوبیدار سے راہ و رسم
پیدا کی۔ ان کی میر صوبیدار سے قربت بڑھنے لگی ۔ ہوشو شیدی کو امراء کی
سازشوں اور انگریزوں کےمستقبل کے عزائم کی بھنک پڑ گئی۔ اس نے میر صوبیدار
کو انگریزوں کے منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا لیکن میر صاحب کو اپنے جنرل
کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔ سندھ کے حاکم پر اپنا اعتماد قائم کرنے کے
بعدانگریزوں نے انہی امیروں کے ساتھ مل کر سندھ پر قبضے کی منصوبہ بندی
شروع کردی۔ 11 جنوری 1843 کو انہوں نے سندھ پر شب خون مارا۔میر صوبیدار خان
نے پکا قلعہ سے نکل کر حیدرآباد سے 15کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے
بائیں کنارے پر ان کے خلاف مزاحمت کی لیکن وہ شکست سے دوچار ہوا۔انگریزی
فوج نے میر صوبیدار اور دوسرے سرداروں کوگرفتار کرلیا جب کہ ہوشو شیدی ان
کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ سندھ پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا
اور انہوں نےدوسرے دن میر صوبیداراور دیگر قیدیوں کو گورنر کے حکم پر بمبئی
روانہ کر دیا گیا۔
ہوشو شیدی کے لیے یہ صورت حال بہت تکلیف دہ تھی اور وہ سخت طیش میں تھا۔ اس
نے انگریزوں سے بدلہ لینے کے لیےمختلف مقامات سے بہادر اورمحب وطن سپاہی
اکٹھاکیے۔ ان سب نے فیصلہ کیا کہ چاہے جان قربان کرنا پڑے، سندھ دھرتی کو
آزاد کرانے کے لیے انگریزوں کا مقابلہ کریں گے ۔میر شیر محمد تالپور اس
وقت میرپور خاص میں تھے۔ہوشو اپنے لشکر کے ساتھ ان کے پاس پہنچا۔ میر شیر
محمد، ہوشو سے مل کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے انگریزوں کا مقابلے کے لیے
منصوبہ طے کیا۔ ہوشوشیدی اور شیر محمدتالپور10؍مارچ 1843کو اپنی فوج کے
ساتھ حیدرآباد کی جانب روانہ ہوئے۔ 23 مارچ 1843ء کو ہوشو اور شیر محمد جب
پھلیلی واہ کراس کر کے دو آبہ پہنچے توان کا انگریزی فوج سے سامنا ہوا۔
ہوشو نے اس وقت ’’مرسوں ، مرسوں ، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کا شہرہ آفاق نعرہ
لگایا اور انگریزفوج کی صفوں میں گھس گیا۔اس نے اس جنگ میں جرأت و بہادری
کی نئی تاریخ رقم کردی۔اپنے جرنیل کو بہادری سے لڑتا دیکھ کر تالپور فوج کے
سپاہی بھی جوش میں آگئے اور جدید اسلحہ سے لیس انگریز سپاہیوں پر حملہ
آور ہوئے۔ ہوشو شیدی کے ہاتھوں متعدد انگریز فوجی مارے گئے۔ وہ اپنے تجربے
کو بروئے کار لاکراپنی جنگی مہارت کا مظاہرہ کرتا رہا۔لیکن انگریزوں کی
بندوقوں اور توپوں کے مقابلے میں صرف تلواروں سےلیس ہوشو کے سپاہی زیادہ
دیر تک نہ لڑ سکے اور یکے بعد دیگرے شہید ہوتے گئےحتی کہ ان کی تعداد
انگریز سپاہ کے مقابلے میں بہت کم رہ گئی۔ لیکن پھر بھی ہوش محمد اور اس کے
سر فروشوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور لڑتے لڑتے وہ سب مادر وطن پر قربان
ہوگئے۔شہادت کے وقت بھی ہوش محمد شیدی کی زبان پر یہی نعرہ تھا، ’’مرسوں
مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘
ہوشو تو مادر وطن پر قربان ہوکر سندھ کی تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے
امر ہوگیالیکن اس کے قبیلے کے افراد آج بھی سندھ دھرتی پر موجود ہیں۔
حیدرآباد کے قریب ایک شیدی گاؤں ہے جہاں پر ہوشو شیدی کے خاندان کے افراد
رہتے ہیں۔ وہ یہاں کئی صدی سے آبادہیں ۔ وہ سندھ کی عزت و ناموس کی خاطر
ہر وقت سر کٹوانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
|