حضرت فضل شاہ نور والے

ودود اللہ تعالیٰ کے صفائی ناموں میں سے ہے۔ جو بندہ اسے اس اسم صفت سے یاد کرتا ہے اللہ اسے اپنی محبت سے نواز دیتا ہے۔ دین و دنیا میں اپنی نعمتوں سے مالا مال کر دیتا ہے۔ حضرت فضل شاہ اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ انسان تھے۔ کہ اللہ تعالیٰ کو ودود کے نام سے یاد کیا اور ایسا یاد کیا کہ ساری عمر یا وَ دُودُ یا وَدُودُ کہتے ہوئے گزار دی اس کا انعام یہ ملا کہ اللہ نے انہیں دین و دنیا میں سر بلندی عطا کی۔ ان کی دعا کو مجیب الدّعوات کیا۔

حضرت فضل شاہ نور والے

نام و نسب
حضرت قطب عالم فضل شاہ کے آباؤ اجداد بکیریاں ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے آپ کے والد ماجد حضرت نبی بخش بھی ہوشیار پور میں رہتے رہے لیکن ایک وقت آیا وہ ہوشیار پور کو چھوڑ کر جالندھر آگئے اور وہاں پر سکونت اختیار کرلی۔ آپ کے والد انتہائی نیک اور صالح انسان تھے طریقت میں حضرت شاہ محمد غوث کے مرید تھے۔ آپ کی والدہ کا نام عمربی بی تھا دونوں میاں بیوی کےشب روز یاد الہٰی میں گزرتے تھے۔آپ کے والد نے آپ کا نام فضل الدین رکھا۔ آپ کے والد کے پیر ہوشیار پور میں رہتے تھے چنانچہ آپ کے والد جب کبھی اپنے مرشد کی خدمت میں جاتے تو آپ کو ساتھ لے جاتے ۔ حضرت شاہ محمد غوث آپ سے بڑا پیار کیا کرتے تھے اور پیار سے کہا کرتے تھے کہ یہ میرا بیٹا فیضی شاہ ہے وقت کا قطب ہوگا ۔ بے شمار مخلوق خدا اس سے فیض یاب ہوگی ۔چنانچہ والد کے مرشد کی دعا پوری ہوئی اور آپ صاحب فضل ہوئے ۔

مرشد سے ملاقات
آپ کے زمانے میں جالندھر سے دو میل کے فاصلے پر ایک بزرگ کا مسکن تھا ان کا نام خدا بخش تھا جو سلسلہ قادریہ کے پیر طریقت تھے۔ نہایت ہی متقی پرہیز گار اور شب بیدار تھے۔ ایک روز آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت دوسرے لوگ بھی ان کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب آپ پہنچے تو انہوں نے فرمایا کہ بیٹا ہم بڑے دنوں سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں ان الفاظ پر آپ رو پڑے اتنے میں انہوں نے آپ کو سینے سے لگا لیا پھر شفقت سے اپنے پاس بٹھا لیا۔
چودہ سال تک آپ اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں رہے آخر جب آپ ہر طرح حصول معرفت میں مکمل ہو گئے انہوں نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا ۔پیر و مرشد کی صحبت سے آپ کے کردار میں چار خوبیاں یعنی قول صادق ،علم باطن ،عمل صالح اور اخلاص نیت پیدا ہوئیں۔ مرشد سے اجازت کے بعد آپ جالندھر اپنے گھر میں رہنے لگے اورکچھ عرصہ بعد پاکستان قائم ہو گیا تو والد محترم کے اصرار پر آپ نے پاکستان کی طرف ہجرت کیلئے سوچا لیکن آپ نے اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو بالائے طاق رکھ کر پریشان حال لوگوں کی مدد کی پھر مہاجرین کے کیمپ میں چلے گئے اور وہاں بھی خدمت خلق میں مصروف رہے آخر کار مہاجر کیمپ کے ذریعے آپ پاکستان آگئے اور ماموں کانجن میں قیام کیا کیونکہ وہاں آپ کے معتقد رہتے تھے اور ان کے کہنے پر آپ وہاں رہے ۔ آپ جتنا عرصہ رہے آپ لوگوں کو اللہ کا راستہ بتاتے رہے۔

لاہور آمد
۱۹۵۳ء میں آپ لاہور تشریف لے آئے ۔ حضرت میاں میرؒ کے قریب انفنٹری روڈ پر برلب سٹرک آپ نے قیام فرمایا اور آخری دم تک یہاں طالبان حق کی رہنمائی میں مصروف رہے ۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ کے پاس جو شخص بھی آتا آپ اس کی حتی الوسع مہمان نوازی کرتے اور آپ کا خاصا تھا کہ آپ کے ڈیرے پر تینوں وقت لنگر عام تھا۔ اور جمعرات کو نماز مغرب کے بعد لنگر کا خاص اہتمام کیا جاتا۔آپ کی خوراک اور لباس بہت سادہ تھا۔ جو زائرین کیلئے لنگر تیار کرتے اسی سے خود بھی تناول فرماتے ۔ لباس کی سادگی کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جس لباس کے پہننے میں غرض و غائت اور خواہش نہ ہو وہ لباس پاک ہے لہذا کرتا اور تہبند کا زیادہ استعمال کرتے تھے۔ آپ کا حلیہ مبارک یوں تھا کہ۔ آپ کا قد میانہ تھا جسم فربہ ہاتھ پاؤں مضبوط تھے سر کے بال منڈوا کر رکھتے تھے اور سر پر سبز رنگ کی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔

تصنیفات
آپ ظاہراً کسی مکتب یا کسی استاد سے نہ پڑھے لیکن آیات قرآنی کی ایسی تفسیر بیان کرتے کہ بڑے بڑے اہل علم ان نقاط تک نہ پہنچ پاتے تھے اور آپ علم تصوف کے بارے میں علم لدنی کی روشنی میں بات چیت کیا کرتے تھے۔ انہی باطنی نقاط پر آپ کی ایک کتاب انوارِ فاضلی ہے جو طبع شدہ ہے۔ڈاکٹر اشرف فاضلی نے آپ کے وصال کے بعد آپ کی تفسیر قرآن مرتب کر کے شائع کی جو آپ ڈاکٹر اشرف فاضلی کو لکھوایا کرتے تھے جو تفسیر ِ فاضلی کے نام سے مشہور ہے ۔

شادی اور اولاد
آپ نے چالیس سال کی عمر میں شادی کی اورشریک حیات کے ساتھ تیس سال ازدواجی زندگی بسر کی اس دوران میں آپکے ہاں پانچ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تولد ہوئیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی بچپن ہی میں فوت ہو گئے ۔

عقیدت مند
مریدیین اور عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد پڑھے لکھے خواتین و حضرات کی تھی جو بعد میں علم و معرفت کی مسند پر فائز ہوئے ان میں سے چند کے نام یہ ہیں مشہور افسانہ نگار اشفاق احمد ان کی بیگم بانو قدسیہ ، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے ،نواز رومانی ،یوسف اختر صدیقی ،قدرت اللہ شہاب ،ممتاز مفتی ،ڈاکٹر اشرف فاضلی ،حضرت واصف علی واصف ؒ اور دیگر نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا ۔

وصال
آپ کے اس دار فانی سے جانے کا وقت جب قریب آگیا تو آپ بھگندر کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ کچھ عرصہ انتہائی تکلیف میں گزارا لیکن بیماری کے باوجود بھی آپ بیماری کے ابتدائی ایام میں معمول کے مطابق حاجت مندوں کی فیض رسائی میں مصروف رہے لیکن آخر مرض زور پکڑ گیا۔ اور چالیس دن کی علالت کے بعد بروز اتوار ۲۳ شعبان المعظم ۱۳٩٨ء بمطابق ۳۰ جولائی ۱۹۷۸ء کو خالق حقیقی سے جاملے ۔ آپکو ڈیرہ پر ہی دفن کیاگیا۔ آپ کا ڈیرہ نور والوں کا ڈیرہ کے نام سے مشہور ہے۔

مزار مبارک اور عرس
آپ کا مزارپُر انوار انفنٹری روڈ دھرم پورہ لاہور درگاہ حضرت میاں میرؒ کے قریب بر لب سٹرک مرجع خلائق ہے۔ اصل قبر نیچے تہہ خانہ میں ہے اور اوپر قبر کا تعویز مبارک بنا ہوا ہے۔آپ کا عرس ہر سال 22 ،23،24 شعبان المعظم کو ہوتا ہے ۔

خلافت
آپ کے وصال کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت پیر رضا حسین بلالی جمالی مسند خلافت پر مخلوق خدا کی خدمت کرتے رہے ۔آج کل آپ کے ڈیرہ پر سجادہ نشینی کے فرائض آپ کے پوتے حضرت فضل
و دود صاحب فاضلی قادری سر انجام دے رہے ہیں ۔جن کے بارے میں بابا جی سرکار نے پیدائش سے آٹھ سال قبل آپ کے والد پیر رضا حسین بلالی جمالی کو کہہ دیا تھا آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا اور اس کا نام فضل ودود رکھنا ۔میرے اس بادشاہ پُتر کو لوگ سائیں فضل شاہ ہی کہیں گے ۔

حوالہ جات
سیارہ ڈائجسٹ "اولیا کرام نمبر 3
ماہنامہ سبیل ہدایت لاہور ستمبر 2006مضمون نگار "نواز رومانی "
ماہنامہ سبیل ہدایت لاہور ستمبر 2007مضمون نگار علامہ عالم فقری
اولیاء لاہور،، علامہ عالم فقری،، شبیر برادرز اُردو بازار لاہور
اخص الخواص ،مصنف نواز رومانی ��
 

سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 62198 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More