وزیر اعظم نریندر مودی نے دس سالوں تک دہلی میں بیٹھ کر
ملک بھر پر راج کیا مگر راجدھانی کو فتح نہیں کرسکے ۔ انہوں نے جس وقت حلف
لیا دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی مشترکہ حکومت تھی۔ عآپ کے
پاس صرف 28؍ ارکان ِ اسمبلی تھے ۔اس نے کانگریس کے 8؍ لوگوں کو ساتھ لے کر
حکومت سازی کی تھی جبکہ سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کے 32؍ ارکان اسمبلی تھے۔
2014؍کے اندر بی جے پی نے دہلی کے ساتوں حلقہ ٔ انتخاب سے اپنے امیدوار بہت
بڑے فرق کے ساتھ کامیاب کرکے زبردست دبدبہ قائم کرلیا ۔ ایک سال بعد اروند
کیجریوال نے استعفیٰ دے کر انتخاب کروا دیا ۔ وہی اروند کیجریوال جو اب جیل
میں جانے کے باوجود استعفیٰ نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے بعد جب دہلی اسمبلی کے
انتخابات میں سب کو یقین تھا کہ مودی جی بڑے آرام سے دہلی میں کمل کھلا
دیں گے ۔ اس کے باوجود اس وقت بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے پورا زور لگا
دیا اور سو ارکان اسمبلی کو انتخابی مہم میں جھونک دیا لیکن نتیجہ دیکھ کر
ساری دنیا دنگ رہ گئی کیونکہ بی جے پی 32 سے 3پر آگئی تھی۔ وزیر اعظم
نریندر مودی کی یہ سب سے کراری ہار تھی۔
4؍ سال بعد یعنی 2019کے قومی انتخاب میں بی جے پی نے پھر سے دہلی کی ساتوں
نشستوں پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے ووٹ کا تناسب 10 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا ۔
کانگریس نے بھی پہلے سے 7؍ فیصد زیادہ ووٹ پائے اور عآپ کا تقریباً ۱۵ ؍
فیصد کا نقصان ہوگیا۔ اس کے بعد جب اسمبلی انتخابات ہوئے تو بی جے پی خوش
تھی کیونکہ اس کی حریف اول عآپ کی مقبولیت میں کمی نظر آرہی تھی لیکن جب
نتائج سامنے آئے تو پھر ایک بار بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگا ۔ بی جے پی
نے تقریباً 7؍ فیصد ووٹ اضافہ کرکے اپنی 5؍ نشستیں بڑھا تو لیں مگر عآپ کے
ووٹ کا تناسب ایک فیصد بھی نہیں گھٹا اور وہ پھر سے 62 ؍ نشستوں پر کامیاب
ہوگئی ۔ یہ وہی الیکشن تھا جس میں انوراگ ٹھاکر نے ’گولی مارو سالوں کو ‘
کا نعرہ لگایا تھا اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایسے ای وی ایم کا بٹن دبانے
کی بات کہی تھی کہ شاہین باغ تک اس کا جھٹکا محسوس ہو لیکن کرنٹ بی جے پی
کو لگ گیا ۔ یہ مودی کی دوسری بڑی شکست تھی ۔
وقت کا پہیہ اپنا چکر مکمل کرچکا ہے۔ دہلی کے اندر اس بار بی جے پی کو عام
آدمی پارٹی اور کانگریس کے مشترکہ محاذ سے مقابلہ کرنا پڑاتو بی جے پی کا
مہورت ہی غلط نکل گیا۔ اس کو شروع میں احساس ہوگیا کہ کانگریس اور عام
آدمی پارٹی کے اتحاد سے مقابلہ کرنا سہل نہیں ہے ۔ پچھلے دس سالوں میں بی
جے پی ارکان پارلیمان کی کارکردگی مایوس کن رہی تھی اس لیے منفی اثرات کو
زائل کرنے کے لیے نئے امیدواروں کو میدان میں اتارنے کافیصلہ کیا گیا تاکہ
پرانے شکاری کے نئے جال میں رائے دہندگان پھر سے پھنس جائیں لیکن بی جے پی
کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کے نام پر ووٹ نہیں مانگتی ۔ اس لیے
عوام کا غم غصہ بھی اپنے ارکان پارلیمان کے خلاف نہیں بلکہ ان کو نامزد
کرنے والے پردھان سیوک پر ہوتا ہے۔ پردھان جی کے سر پر کامیابی کا سہرا
باندھنے والے اگر ان پر ناکامی کا ٹھیکرا پھوڑیں تو اس میں غلط کیا ہے؟
بی جے پی کےارکان پارلیمان کو اندازہ ہوگیا کہ ان کا ٹکٹ کٹ سکتاہے پھر بھی
بیشترنے صبر کرلیا مگر گوتم گمبھیر سے یہ نہیں ہوسکا۔ انہوں نے ناموں کی
فہرست کے اعلان سے قبل معذرت چاہ کر سیاست کے بجائے کرکٹ پر توجہ دینے کے
فیصلہ کیا یعنی ان کے نزدیک ایوان پارلیمان میں مودی کی جئے جئے کار کرنے
سے زیادہ اہم امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کی واہ واہ کرنا تھا۔ 4؍جون کو آنے
والے نتائج کا اس قدر پہلے اندازہ لگالینا گوتم گمبھیر کے ذہین سیاستداں
ہونے کا ثبوت ہے اور وہ کامیابی کے مستحق ہیں۔ دہلی کے دو چار کوارکان ِ
پارلیمان کو ہٹانا تو قابلِ فہم ہے مگر سربراہ کو چھوڑ کر سبھی کی چھٹی
ہیبت کی علامت ہے یعنی جملہ ۷؍ میں سے ۶؍ کا ٹکٹ کاٹ کر بی جے پی نے اپنے
عدم اعتماد کو تسلیم کرلیا ۔ اس کے ساتھ ہی گوتم گمبھیر کاپہلا اندازہ تو
درست ثابت ہوگیا اب دیکھنا یہ کہ ملک کے عوام ان کے دوسرے اندازے کی بابت
کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
دہلی میں بی جے پی کی کمان کسی سنگھ کی شاکھا سے آنے والے سیاستداں کے پاس
نہیں بلکہ فحش بھوجپوری نغموں کی تھاپ پر ناچنے گانے والے منوج تیواری کے
ہاتھوں میں ہے۔ بی جے پی کو اگر معلوم ہوتا ہے انڈیا محاذ کی جانب سے
تیواری کے خلاف کنھیا کمار کو میدان میں اتارا جاسکتا ہے تو وہ سب سے پہلے
تیواری کا ٹکٹ کاٹتی مگر انڈیا والوں نے ترپ کے اپنے پتےّ کو آخر تک صیغۂ
راز میں رکھا اور جب اسے ڈالا تو بی جے پی والے دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
ایسے میں تیواری کا مشہور بھوجپوری نغمہ ’’چٹ دینی مار دہلئے کھینچ کے
طمانچہ، ہی ہی ہنس دہلئے رینکیا کے پاپا ‘یاد آگیا۔ بعید نہیں کہ تیواری
کی شکست کے بعد یہ نغمہ ایسے گایا جائے’بھوبھو روئے دہلئے رینکیا کے بابا‘۔
بی جے پی نے اس مرتبہ ایک طرف تو منوج تیواری کو پھر سے اکھاڑے میں اتارا
مگر ڈاکٹر ہرش وردھن جیسے معمر رہنما کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔ وہ دہلی
کے پرانے سیاستداں ہیں ۔ بی جے پی اگر دہلی میں جیت جاتی تو وہ وزیر اعلیٰ
ہوسکتے تھے۔
ہرش وردھن کا بچپن آر ایس ایس کی شاکھا میں گزرا۔ انہوں نے ذاکر حسین کالج
دہلی میں تعلیم حاصل کی اور کپل سبل کو چاندنی چوک سے ہرا رکن پارلیمان
بنے۔ ان کو وزیر اعظم نریندر مودی نے مختلف وزارتوں کے قلمدان دئیے جن میں
وزیر صحت اور خاندانی فلاح و بہبود ، سائنس اور ٹکنالوجی نیز ارضیات کی
سائنس بھی شامل تھے ۔ ایسے رہنما کو جس نے کورونا کی وبا کے دوران وزارت
صحت کی ذمہ داری سنبھالی ہو بیرنگ بھیج دینا افسوسناک تھا۔ اس ذلت آمیز
رویہ سے بد دل ہو کر سنگھ کاقدیم سیوک سیاست سے کنارہ کش ہوکر سبکدوش
ہوگیا۔ یہ سنگھ کی اس تربیت کے خلاف تھا جس میں سب سے اوپر قوم اور پھر
جماعت نیز سب سے نیچے ذات کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ہرش وردھن نے بلا اعلان یہ
کہہ دیا کہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں بی جے پی امیدوار کا پرچار نہیں کریں
گے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن کا اپنے علاقہ میں کام تھا اور وہ کڑی ٹکر ّ دے سکتے
تھے مگر چونکہ بھگتوں میں ان کا شمار نہیں ہوتا تھا اس لیے ان کا ٹکٹ کاٹا
گیا۔ موجودہ بی جے پی میں چاپلوسی اور وفاداری کو ساری خوبیوں پر فوقیت
حاصل ہے۔
دہلی کے ارکان اسمبلی میں رمیش بھدوڑی بدنام ہو کر خوب نامو ہوئے ۔ اس
بدتمیز انسان نے ایوان پارلیمان میں دانش علی کے خلاف اتنی گندی زبان
استعمال کی کہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو معافی مانگنی پڑی ۔ اس کے باوجود
ڈیڑھ سو ارکان کو معطل کرنے سے پس پیش نہیں کرنے والی بھدوڑی کو صرف
سمجھانے پر اکتفاء کیا گیا۔ اس سانحہ کے بعد راجستھان کے صوبائی انتخابات
میں بھدوڑی کو ٹونک کا نگراں بنایا گیا تاکہ وہاں کے گوجر رائے دہندگان کو
لبھایا جاسکے ۔ اس ذمہ داری کو دانش علی کی توہین کے عوض انعام کے طور پر
پیش کیا گیا اس لیے انہیں ٹکٹ کے معاملے میں اطمینان رہا ہوگا لیکن ایسا
نہیں ہوا۔ رمیش بھدوڑی کا ٹکٹ کاٹ کر رام ویر بھدوڑی کو دیا گیاجن کی ابن
الوقتی کا یہ عالم ہے کہ سنگھ کی اے بی وی پی سے تربیت حاصل کرنے کے بعد
پہلی بار جنتا دل سے اور اس کے بعد دوبار این سی پی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی
بنے۔ آگے چل کر بی جے پی میں آئے تو اس نے انہیں اسمبلی میں حزب اختلاف
کا قائد بنادیا اور اب پارلیمانی ٹکٹ بھی تھما دیا ۔ بی جے پی اس طرح ابن
الوقتوں کو نوازتی ہے اوررمیش بھدوڑی جیسے لوگوں کو ٹائیلیٹ پیپر کی مانند
استعمال کرکے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔
دہلی کا ایک بدزبان رکن پارلیمان پرویش ورما بھی ہے۔ اس نے شاہین باغ کے
حوالے سے کہا تھا کہ یہ لوگ تمہارے گھر میں گھس کر بہن بیٹیوں کو اٹھا کر
لے جائیں گے ۔ اس کے بعد بھی راجناتھ سنگھ کو اپنی پارٹی کا دفاع کرنے کے
لیے سامنے آنا پڑا۔ انہوں نے کہا تھا ’ ’’ہم ایسی جیت نہیں چاہتے جو نفرت
کی بنیاد پر حاصل کی گئی ہو۔ اگر ہم جیت بھی گئے تو بھی ہمیں ایسی جیت قبول
نہیں۔ ملک کے وزیر دفاع ہونے کی حیثیت سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک
کا ہر مسلمان ہندوستانی شہری ہے۔ شہریت ختم ہونے کو بھول جائیں۔ میں یقین
دلاتا ہوں کہ کسی بھی ہندوستانی مسلمان کی شہریت کوکوئی چھو نہیں سکتا۔‘‘
انوراگ ٹھاکر کا بھی ٹکٹ کٹ گیا اوروہ بے آبرو کرکے نکا ل دیئے گئے ہیں ،
بعید نہیں کہ اس بار ملک کے عوام مودی جی کو باہر کا راستہ دکھا دیں اور ان
غالب کا یہ شعر صادق آجائے؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
|