توشہ خانہ کی شروعات ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمی کے
دوران ہوئی ۔ اس کا بنیادی مقصد ان تحائف کو جمع کرنا اور رکھنا ہے جو
ارکان پارلیمنٹ، وزراء، خارجہ سیکرٹریز، صدر اور وزیر اعظم وصول کرتے ہیں۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے توشہ خانہ زبان زد عام موضوع بحث چل رہا ہے۔
توشہ خانہ کے نام پر پاکستان میں سیاست بھی زور وشور سے کی جاتی رہی ہے۔
اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ وطن عزیز کی کئی نامور سیاسی شخصیات
توشہ خانہ سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ جسکی تازہ ترین مثال عمران احمد خان
نیازی جبکہ ماضی قریب میں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا
گیلانی نمایاں ہیں۔ اتنے اہم ترین موضوع کے حوالہ سے پاکستان میں باقاعدہ
کوئی قانون ہی موجود نہ تھا۔ توشہ خانہ کے معاملات وفاقی حکومت کی طرف سے
جاری کردہ قواعد وضوابط کے تابع کابینہ ڈویژن کے تحت چلائے جاتے رہے ہیں۔
اور ہر نئی حکومت قواعد و ضوابط میں من مرضی ترامیم کرلیا کرتی تھی۔ دیر
آید درست آید پاکستانی پارلیمنٹ نے توشہ خانہ کے حوالہ سے باقاعدہ قانون
سازی کرتے ہوئے بل کو منظور کرلیا۔ بالآخر مجلس شورہ کا یہ بل 4 اپریل
2024 کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد قانون بن کر پورے ملک میں نافظ ہوچکا
ہے اور اس قانون کا اطلاق سرکاری وفد کیساتھ بیرون جانے والے پبلک آفس
ہولڈرز کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ افراد پر لاگو ہوتا ہے۔ آئیے اس قانون کی
چند نمایاں خصوصیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
تحفہ سے مراد: ایسی تمام اشیاء جو پبلک آفس ہولڈرز یا پرائیویٹ ممبران کو
بطور سرکاری وفد مقامی یا غیر ملکی معززین یا کسی کمپنی سے موصول ہوتی ہیں،
بہرحال ان میں گلنے سڑنے والی اشیاء جنکی معیاد صرف چند ایام ہوجیسا کہ پھل
وغیرہ تحفہ کی تعریف میں شامل نہیں ہوتے۔ اسی طرح گریڈ ایک تا چار تک
سرکاری ملازمین کو ملنے والی ٹپ بھی تحفہ کی تعریف میں شامل نہیں ہوتی۔
توشہ خانہ سے مراد: توشہ خانہ ایک ایسا ادارہ ہے جسکے ذمہ تحفے کو محفوظ
اور اسکے ریکارڈ کو مرتب کرنا اور بالآخر اسکے تصرف کا انتظام کرنا ہے۔
پبلک آفس ہولڈر: پبلک آفس ہولڈر سے مراد ایک شخص، اس کی شریک حیات یا بچے
ہیں جیسا کہ صدر مملکت ، صوبائی گورنر، وزیراعظم، سینٹ چیئرمین، اسپیکر
قومی اسمبلی، ڈپٹی چیئرمین سینٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، وفاقی وزیر،
وزیر مملکت، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل، سنٹرل لا آفیسرز آرڈیننس 1970
کے تحت مقرر کردہ ایسے دیگر لاء افسران، وفاقی پراسیکیوٹر جنرل اور اس طرح
کے دیگر لاء افسران، وزیر اعظم کے مشیر، وزیر اعظم کے معاون خصوصی، وفاقی
پارلیمانی سیکرٹری، رکن پارلیمنٹ، آڈیٹر جنرل، پولیٹیکل سیکرٹری، اور وہ
شخص جو وفاقی وزیر یا وزیر مملکت کے عہدے کے برابر کوئی عہدہ رکھتا ہو۔
وزیراعلیٰ۔ سپیکر صوبائی اسمبلی، ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی، صوبائی وزیر،
وزیر اعلیٰ کے مشیر، وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی، صوبائی پارلیمانی سیکرٹری،
رکن صوبائی اسمبلی، ایڈووکیٹ جنرل، صوبائی پراسیکیوٹر جنرل یا اس طرح کے
دیگر لا افسران، پولیٹیکل سیکرٹری اور کوئی ایسا شخص جو صوبائی وزیر کے
عہدے کے برابر کوئی عہدہ رکھتا ہو۔ کوئی بھی شخص، جو کسی بھی پیمانے یا
گریڈ یا کسی بھی عہدے پر سرکاری خزانے سے کچھ فوائد حاصل کرتا ہے اور اس
میں وہ سبھی افراد شامل ہوں گے، چاہے وہ منتخب ہو، نامزد کیا گیا ہو یا کسی
معاہدے کی ذمہ داریوں کے تحت ہو جہاں سرکاری خزانہ مکمل یا جزوی طور پر
شامل ہو، اس میں کوئی بھی ایسا شخص شامل ہے جو پاکستان کی کسی بھی خدمت میں
عہدہ رکھتا ہو یا وفاقی، صوبائی یا مقامی حکومتوں کے معاملات یا
کارپوریشنوں، بینکوں، یا کسی مالیاتی ادارے، فرموں یا کسی دوسرے اداروں کے
انتظام میں کوئی خدمت پیش کرتا ہو۔ وفاقی یا صوبائی حکومت کےزیر کنٹرول یا
زیر انتظام کوئی تنظیم۔ اسکے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج اور عدلیہ کے
ارکان شامل ہیں۔
تحفہ کی قبولیت اور توشہ خانہ میں جمع کرنا: پبلک آفس ہولڈر/سرکاری افسر
یا نجی شخص کو سر کاری وفد کا حصہ بن کر ملنے والا تحفہ تیس دنوں میں یا
مقررہ وقت اور طریقہ کار کے تحت حکومت پاکستان کے توشہ خانہ میں جمع کروانا
لازم ہے۔
توشہ خانہ کا انتظام اور ضابطہ کار: اس قانون کے تابع توشہ خانہ کا انتظام
و ضابطہ کار وفاقی حکومت کے مختص کردہ ڈویژن کے سپرد ہوگا ۔فی الوقت نافذ
العمل کسی دوسرے قانون میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود؛ توشہ خانہ کے
حوالے سے معلومات ان شرائط، حدود اور پابندیوں کے تحت معائنہ کے لیے کھلی
ہوں گی۔
جرم اور سزائیں: اس قانون میں درج سیکشن تین کی جو کوئی بھی خلاف ورزی کرتا
ہے یا اس کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس قانون کے تحت بنائے گئے
کسی بھی قواعد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایسے فرد کو تحفہ کی مارکیٹ کی تعین
کردہ قیمت کے پانچ گنا کے برابر جرمانے کی سزا لاگو ہوگی۔ اور اگر یہ جرم
کوئی سرکاری ملازم کرے تو اس قانون میں درج سزا کے علاوہ ایسا فرد متعلقہ
قوانین اور قواعد کے مطابق محکمانہ کارروائی کا سامنا کرنے کا بھی ذمہ دار
ہوگا۔
قوائد بنانے کا اختیار: اس ایکٹ کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے قواعد بنانے
کے لئے وفاقی حکومت بااختیار ہے۔ اور سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے
ایسے قواعد کی تشہیر کی جائے گی۔
تحائف کے تصرف سے فنڈز کا استعمال: توشہ خانہ میں موصول ہونے والے موجودہ
اور مستقبل کے تحائف کھلی نیلامی کے ذریعے نمٹائے جائیں گے۔ نیلامی سے حاصل
ہونے والی آمدنی کو الگ اکاؤنٹ میں رکھا جائے گا اور اسے ملک کے پسماندہ
ترین علاقوں میں خواتین کی پرائمری تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے
گا۔
|