ذیابیطس میں دنیا کا نمبر1ملک پاکستان

دنیا میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا پاکستان یک دم تنزلی کی طرف گیا یا آہستہ آہستہ اس پر سوچنے سے پہلے بس اتنا یاد رکھیں کہ یہ وہ علمی ملک تھا جس کے تعلیمی اداروں میں بیرون ممالک سے بچے آکر پڑھا کرتے تھے پاکستان ایک ایسا خوبصورت ملک تھا جہاں دنیا پھر کے سیاح گھومنے آیا کرتے تھے اسکے ادارے ان میں کام کرنے والے لوگ اتنے پیارے ،مخلص اور باصلاحیت تھے کہ بچپن میں جس کو دیکھتے بڑے ہوکر وہی بننے کی خواہش ہوتی تھی لوگ صحت مند ہوا کرتے تھے اور وہ بیماریاں جو آج پورے پاکستان کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں انکا نام تک نہیں آتا تھا پھر وقت نے پلٹا کھایا اور ملک اندھیروں کے راستے پر گامزن کردیا گیا اپنے ہی بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے اس شعبہ میں ایسے ایسے کاریگر قسم کے لوگ آئے جنہوں نے امیروں اور غریبوں کی تعلیم کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا بلکہ غریبوں سے تعلیم کا حق ہی چھین لیا گیا آ ج ہمارے بچے جس طرح کرغستان /بشکیک سمیت دنیا بھر میں خوار ہورہے ہیں وہ پوری دنیا میں مزاق بن چکا ہے رہی بات صحت کی اس میں بھی ڈاکٹروں نے جو ہمارا حشر کردیا ہے وہ بھی ناقابل یقین ہے سرکاری ہسپتالوں میں انسانوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک ہورہا ہے ڈاکٹر بچوں کو جان سے مارتے بھی ہیں اور پھر انکے والدیں کو احتجاج بھی نہیں کرنے دیتے الٹا انہیں بھی مارتے ہیں اور پھر تھانوں میں پرچے بھی کرواتے ہیں ہماری پولیس اپنی کرتوتوں کی وجہ سے کبھی فوجیوں سے مار کھاتی ہے تو کبھی کھسرے انہیں تھانوں میں گھس کر مارتے ہیں رہی بات عوام کی انہیں ہمارے حکمرانوں نے اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ وہ کچھ کرسکیں الیکشن سے پہلے کوئی 2سو یونٹ بجلی مفت دے رہا تھا تو کوئی 3سو یونٹ مفت بجلی کا لالی پاپ ہاتھ میں پکڑے عوام کو ترسا رہا تھا جبکہ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے تو اپنے کپڑے بھی بیچنے کا وعدہ کررکھا تھا لیکن جب یہ لوگ فارم47کی مدد سے جیت گئے تو پھر انکے سارے وعدے اور دعوے بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے عوام کو حکمرانوں کے سارے وعدے بھول گئے گیونکہ وہ بے روزگاری ،غربت ،مہنگائی اور بیماریوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں بیماریاں بھی ایسی جو لاعلاج ہیں ان میں ایک شوگریا ذیابیطس بھی ہے جو ایک دائمی بیماری ہے جس میں انسان کا جسم یا تو مناسب انسولین پیدا کرنے یا استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے وہ ہارمون جو جسم کے خلیوں کو خون کے دھارے سے گلوکوز، یا شوگر کو جذب کرنے کے قابل بناتا ہے انسولین کی کمی کے نتیجے میں خلیات بھوکے مرتے ہیں اور خون میں شوگر کی سطح بلند ہوتی ہے یہ حالت ہائپرگلیسیمیا کہلاتی ہے جس کا علاج نہ ہونے پر جسمانی نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے اگر مناسب طریقے سے علاج نہ کیا جائے تو ذیابیطس ایک سنگین اور جان لیوا مرض بھی بن سکتی ہے ذیابیطس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صحت کی پیچیدگیوں میں گلوکوما اور موتیابند، گردے کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر (ہائی بلڈ پریشر)، ذیابیطس ketoacidosis (DKA)، جلد کی پیچیدگیاں، اعصاب اور خون کی نالیوں کو نقصان اور پاؤں کی پیچیدگیاں شامل ہیں انتہائی ذیابیطس ہارٹ اٹیک، فالج، یا کسی عضو کو کاٹنے کی ضرورت کا باعث بھی بن سکتی ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2019 میں 15 لاکھ اموات کی براہ راست وجہ ذیابیطس تھی بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (IDF) کے اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں 6.7 ملین اموات صرف ذیابیطس کی وجہ سے ہوئی تھیں اوردنیا میں 20 سے79 سال کی عمر تک 10فیصدلوگ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے جو 2030 تک بڑھ کر 643 ملین اور 2045 تک 783 ملین تک پہنچنے کی توقع ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق 240 ملین لوگ ایسے ہیں جنہیں ذیابیطس ہے اور ان میں ان لوگوں کی بھی اکثریت ہے جنہیں اس مرض کا علم ہی نہیں ہے اگر ہم شوگر کے مرض کے حوالہ سے دنیا کے ٹاپ 10 ممالک کا ذکر کریں تو ان میں پاکستان 30.8فیصد کے حساب سے سب سے اوپر ہے جہاں شوگر کے مریض سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں جبکہ فرانسیسی پولینیشیا 25.2 فیصد کے حساب سے دوسرے نمبر ،کویت 24.9فیصدسے تیسرے نمبر پر،نیو کیلیڈونیا 23.4 فیصد سے چوتھے نمبر پر،شمالی ماریانا جزائر 23.4 فیصد سے پانچویں نمبر پر،ناورو 23.4 فیصد سے چھٹے نمبر پر،مارشل جزائر 23 فیصد سے ساتویں مبر پر،ماریشس 22.6 فیصد سے آٹھویں نمبر پر،کریباتی 22.1 فیصد سے نویں نمبر پر،مصر 20.9 فیصد سے دسویں نمبر پر ہے جبکہ دنیا میں ذیابیطس کی سب سے کم شرح والا ملک بینن ہے جہاں کی 1.1 فیصد آبادی ذیابیطس کے ساتھ رہ رہی ہے پاکستان میں اس موذی مرض کو لگام ڈالنے کے لیے اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ)کے سیکریٹری جنرل ثناہ اﷲ گھمن بہت کام کررہے ہیں وہ ہمارے آنے وال کل سے بہت خوفزدہ ہیں اسی لیے تو انکی کوشش ہے کہ بچوں کو اس بیماری سے بچایا جائے ہمارے ہاں تو ویسے بھی دو نمبری بہت زیادہ ہے اور جو جوس مارکیٹ میں دستیاب ہیں وہ انتہائی خطرناک ہیں یہ جوس نہ صرف صحت عامہ کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ اس پر کافی منفی اثرات بھی مرتب کرتے ہیں میٹھے مشروبات سے پیدا ہونے والے شدید صحت کے خطرات بشمول موٹاپا، ٹائپ ٹو ذیابیطس،دل اور گردے کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں 33 ملین سے زائد افراد کے ساتھ ذیابیطس کا مرض آسمان کو چھو رہا ہے اور پاکستان میں ہر تیسرا بالغ ذیابیطس کا شکار ہے جبکہ ثناء اﷲ گھمن نے ترک سفیر کے نام خط ایک خط بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے پالیسی پراسس میں مداخلت پر سخت غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے کہ کہ آپ نے حالیہ دنوں میں وزیر خزانہ اور دوسرے پالیسی سازوں سے مشروبات کمپنیوں کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی ہے کہ آنے والے بجٹ میں میٹھے مشروبات پر ٹیکسوں کو کم کیا جائے آپ نے پالیسی پراسس میں مداخلت کر کے پاکستانی عوام کی صحت پر مشروبات کمپنیوں کے کاروباری مفاد کو ترجیع دی ہے کیونکہ جوسز سمیت میٹھے مشروبات کا باقاعدہ استعمال بچوں اور بڑوں میں کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے یہ عمل نہ صرف پاکستانی عوام کی صحت کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہے بلکہ پاکستانی معشیت کے لیے بھی ایک چیلنج ہے پاکستان پہلے ہی زیابیطس کے پھیلاؤ میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے اور اگر فوری پالیسی اقدام نہ کیا گیا تو 2045تک زیابیطس کا شکار لوگوں کی تعداد 6کروڑ 20لاکھ تک ہو جائے گی روزانہ 1100لوگ صرف پاکستان میں ذیابیطس یا اس سے ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے دنیا سے جا رہے ہیں اس لیے ہماری آپ سے درخواست ہے کہ آپ پاکستانیوں کی صحت سے کھلواڑ کرنے والی کسی بھی ایسی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں ہم پاکستان کی سول سوسائٹی اور ہزاروں ماہرین صحت کے نمائندے کے طور پر آپ سے درخواست اور توقع رکھتے ہیں کہ آپ مشروبات کمپنیوں کے کاروباری مفاد کی بجائے پاکستانی عوام کی صحت کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔


 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611343 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.