" />

تحقیق اور علاج

*"ویکسین بحوالہ علاج"*

*"ویکسین بحوالہ علاج"*
دنیا میں انسانی صحت کے حوالے سے جدید دور میں علاج کے لئے جہاں نئی تحقیقات کی جا رہی ہیں وہاں پرانی تحقیقات پہ ویکسینیشن کے عمل کی مانگ بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
ویکسینیشن قبل از وقت طریقہ کار علاج کے زمرہ میں اہم حیثیت کا حامل ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں مختلف بیماریوں کے خلاف قبل از وقت ویکسینیشن سے کچھ امراض ایسے ہیں جن کے لاحق ہونے کی شرح بہت کم ہو جاتی ہے۔
ان ممالک میں دو تین طرح کی ویکسینز کو ضروری سمجھا جاتا ہے ان میں پولیو' ایڈز اور ٹی بی وغیرہ ہیں' لیکن بڑھتی ہوئی علمی اور عملی تحقیق کے پیش نظر اب ویکسینیشن کے دائرہ کار کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے جس میں ہیپٹائٹس *B* اور *C'* ٹیٹنس' شوگر ایلرجی (Asthma) اور جلد کے امراض سے متعلقہ بیماریوں سے محفوظ رہنا اہم ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں بدقسمتی سے ان متذکرہ امراض کے بڑھنے کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے!!
موسمیاتی تبدیلیوں اور بین الاقوامی موسمی اثرات کی وجہ اور درجہ حرارت ایک دم بڑھنے اور کم ہونے پہ جلد کی عجب سی بیماریوں نے جگہ بنا لی ہے۔
ملکی معیشت کی بد ترین صورت حال کی وجہ سے لوگوں کی سوچ و غم میں مبتلا رہنے پہ شوگر' ہائی بلڈ پریشر اور دماغی امراض نے بھی تیزی اختیار کر لی ہے۔
آئے دن حادثات روڈ ' ٹرین وغیرہ کی وجہ سے زخمیوں کی طبعی امداد میں بھی جس ویکسینیشن کی فوری ضرورت ہے وہ مہیا ہی نہیں ہیں.
جن میں پرانی تحقیق پہ *Inj* : T T متعارف تھا اب وہ بھی مارکیٹ میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کے نعم البدل کوئی ویکسین بنائی گئی ہے۔
فوری کیسز میں کتے یا سانپ کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماریوں پہ کوئی تحقیق یا علاج کی صورت میں عام آدمی کو علم ہی نہیں ہے اور نہ ہی مارکیٹ میں کوئی ویکسین مہیا ہے۔
موروثی بیماریوں تھیلیسیمیا فالج اور مرغیی بھی وہ بیماریاں ہیں جن پہ ویکسینیشن ہو سکتی ہے اور ادارہ صحت کی تحقیقاتی سرگرمیوں میں شامل بھی ہیں۔
لیکن کیا کریں کہ اس ملک میں کوئی بھی بندہ اپنے کام میں ماہر نہیں اور نہ ہی شعبے سے وہ مخلص ہے۔
اگر کسی ملک میں صرف ادارہ تعلیم ' صحت اور زراعت پہ *50* فیصد بجٹ خرچ کر دیا جائے اور اس پہ پانچ سالہ منصوبہ بندی کی جائے تو وہاں کے تمام مسائل جو معیشت' بیروزگاری اور پریشانی سے جڑے ہیں وہ خود ہی حل ہوتے ہیں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی ترقی کے بنیادی ٹول میں شامل ہمیشہ اس ملک کی تعلیم' صحت اور پروفیشنلز کی طاقت شامل غور رہی ہے۔
پاکستان میں سب سے بڑے مسائل صحت اور تعلیم کے حوالے سے نوٹ کیئے گئے ہیں جن کے تدارک کیلئے نہ تو کوئی خاص بجٹ ہے اور نہ ہی کوئی ماہر ٹیم جس کی وجہ سے عوام جسمانی طور پہ تو بیمار ہے ہی۔۔۔۔ساتھ ساتھ نفسیاتی طور پہ بھی کوئی فیصلہ کرنے کی حامل نہیں ہے!!!
جس طرح کہ پڑھا لکھا با صحت معاشرہ ہوتا ہے اور اس کے فیصلے بھی آمدہ قوم کیلئے مشعل راہ ہو سکتے ہیں۔
یہ ایک المیہ ہے کہ اس ملک سے ہر سال ہزاروں ڈاکٹرز ڈگری وصول ہوتے ہی ویزہ لیکر نکل جاتے ہیں۔
اس لیئے کہ اس ملک میں روزگار کا فقدان ہے۔
اور پھر یہاں پہ پروفیشنلز کہاں سے آئیں!!؟
ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک میں دماغی امراض کیلئے ہر پانچ لاکھ لوگوں کیلئے صرف ایک ڈاکٹر مہیا ہے۔
اس ملک میں صحت کے حوالے سے یہ چیلنج ایک وقت سے رہا ہے اور اب بھی اسی شرح سے موجود ہے۔
ایک میٹروکولیٹ بندہ جب وفاقی وزیر صحت اور صوبائی وزیر برائے صحت ہو گا تو وہ کیا پالیسی صحت کے حوالے سے بنائے گا؟؟
وہ تو صرف اپنا گھر ہی بنائے گا۔۔۔
اسمبلی میں صحت اور تعلیم کے شعبہ پہ بل پیش کرنا اور منظور کرنا بھی پڑھے لکھے لوگوں پہ ہی منحصر ہوتا ہے۔۔۔!!؟
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Basharat
About the Author: Muhammad Basharat Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.