(کارکن تحریک پاکستان ٗ ممتاز کالم رائٹر ٗ عاشق قائد اعظم، اور ڈینٹل
سرجن،ایک فرشتہ صفت انسان )
ڈاکٹر ایم اے صوفی 28جولائی1931ء کو تحصیل ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم ایم بی پرائمری سکول میں حاصل کی اور ہندوؤں کی سازش کی بناء
پر سکول کی تعلیم چھوڑنا پڑی۔ تین سال بھیڑ بکریاں ،گائے بھینس اور اُن کی
دیکھ بھال میں گزارے۔1944ء میں دوبارہ بڑی کاوش کے ساتھ سناتن دھر م ہائی
سکول میں پانچویں کلاس میں داخلہ لیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی کلاس میں
اپنی ذہانت کی بدولت مانیٹر مقرر ہوئے اور چھٹی ؍ساتویں کلاسوں کا امتحان
1946 میں پاس کیا اور دونوں میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1947ء میں آٹھویں
کلاس میں ضلعی ریڈکراس کا مقابلہ جیتا اور صوبائی مقابلہ کے لیے پشاور گئے۔
آٹھویں پاس ہوتے ہی پاکستان معرض ِ وجود میں آگیا۔ ان ایاّم میں محمد اسلم
چوہان راجپوت (ایم اسلم صوفی) نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا
نعرے،لگائے،جلسوں کو رونق بخشی ،تقریروں کا سلسلہ شروع کیا۔ نویں کلاس میں
پاکستان بن جانے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول میں داخلہ ہوا اور سائنس کلاس کے
مانیٹر ہوئے۔ اکتو بر1948ء میں دسویں کلاس میں کشمیر کی جنگ میں مجاہد تھے
۔ جنگ میں خاص ٹریننگ حاصل کی اورمجاہدین کے ساتھ چلے گئے ۔ آپ کی ڈیوٹی
ریاست پونچھ تحصیل باغ مکھیالہ کے کیمپ میں تھی۔ 31نومبر1948ء کو کشمیر سے
واپس لوٹے اور میٹرک کے امتحان کی تیاری کی۔ چنانچہ1949ء میں پنجاب
یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت صوبہ سرحد میں کوئی
یونیورسٹی نہیں تھی۔
الحاج خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل پاکستان کے اعزاز میں اسلامیہ کالج
پشاور1948ء میں سارے صوبہ سرحد کے طلباء کی ریلی کو لیڈ کیا اور1949ء میں
میٹرک فرسٹ ڈویژن پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ اسلامیہ کالج پشاور
میں1949-51ء تک FSc میڈیکل کے لیے بٹلر ہوسٹل میں قیا م کیا۔ آپ لازمی فوجی
تربیتCMT کے کیپٹن مقرر ہوئے اور NWFP)UOTC (یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کے
کواٹر ماسٹر سارجنٹ تھے۔ آپ نے پہلے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان ،پہلے
وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان،وزیر اعظم دکن حیدر آبادمیر لائق علی کو
گارڈ آف آنرز پیش کیا۔کیونکہ آپ سمارٹ اور الرٹ کیڈٹ آفیسر تھے۔ آپ نے
محمدرضا شاہ پہلوی شہنشاہ ایران ، مفتی فلسطین امین الا حسینی سے اسلامیہ
کالج پشاور کے دورے کے دوران ملاقاتیں کیں اور خراج تحسین حاصل کیا۔ ان کو
گارڈ آف آنرز پیش کیا۔
اسلامیہ کالج پشاور کے دوران ڈاکٹر ایم اے صوفی نے ایک ڈرامہ ’’ اندھیر
نگری‘‘ ’’کابلی دربار ‘‘ تحریر کیااور اُسے ڈائریکٹ کیا۔ جسے لنڈی
کوتلU.O.T.C(NWFP) ملٹری کیمپ ،روس کیپل ہال،اسلامیہ کالج پشاور اور کوہاٹ
ملٹری کیمپ 1950ء میں سٹیج کیا گیا جسے طلبا ء واساتذہ اور دیگر لوگوں نے
بہت پسند کیا گیا۔محمد اسلم صوفی اسلامیہ کالج سپورٹس ،میجک شواور مباحثوں
میں حصہ لیتے رہے۔ان ہی وجوہات سے بناء پر محمد اسلم صوفی بڑے ہر دلعزیز
طالب علم قرار دیئے گئے۔ کلاس ٹیچر سے لیکر وارڈن اور انگریزپرنسپل اے سی
ٹی برادر ٹن نے اچھے کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ دیئے۔FSc میڈیکل پشاور
یونیورسٹی سے کرنے کے بعد آپ نے دی ماونٹ مورنسی کالج آف ڈینٹسٹری، لاہور
میں چار سالہ کورس کا داخلہ 1952ء میں لیا ۔دوران پڑھائی کنگ ایڈورڈ میڈیکل
کالج ڈرامہ’’ خالہ‘‘سٹیج کروایا ۔محمد اسلم صوفی پبلسٹی کے انچارج تھے اور
20 دسمبر1952 ء کو کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کے سپورٹس ڈے پر چیف گیسٹ محترمہ
فاطمہ جناح کے اعزاز میں انگریزی میں خوش آمدید نظم پڑھی جو اساتذہ اور
طلباء میں تقسیم کی گئی۔1956ء میں BDS کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی
۔ آپ دی ماونٹ مورنسی آف سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری1954-55ء اور
صدر1955-56ء چُنے گئے۔ تقریری مقابلوں میں حصہ لیا۔ مضمون نویسی میں
انعامات حاصل کیے۔اِسی زمانے میں ڈاکٹر ایم اے صوفی بڑے متحرک طالب علم
تھے۔ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن، آل پاکستان سائنس سٹوڈینٹس فیڈریشن اور
پاکستان سٹوڈینٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری تھے۔ پنجاب مسلم لیگ
نیشنل گارڈ کے سیکرٹری تھے۔ گویا تمام سیاسی مشاہیر سے بلواسطہ تعلقات تھے۔
1956ء میں آپ کو بلوچستان کا پہلا ڈینٹل سرجن مقرر کیا گیا۔آپ نے اس فیلڈ
میں بڑی خدمات انجام دیں۔ ریسرچ پیپرز تحریر کیے ۔ وہ شائع ہوئے۔ 66۔1965ء
برٹش کونسل کے سکالرشپ پر ایک سال لنڈن یونیورسٹی سے مسوڑوں کے امراض پر
سرجری کے اُصول سیکھے اور ریسرچ کی جو بین الاقوامی اعتبار سے اتھارٹی مانی
گئیں۔آپ نے ڈنڈی یونیورسٹی سکاٹ لینڈ سے ایک سال کاڈینٹل پبلک ہیلتھ کورس
1969۔1970ء میں کیااور کامیاب ٹیچر اور ماہرامراض دندان کے طور پر سارے ملک
میں مشہور ہوئے پاکستان کے بیشتر وزراء ، جج صاحبان اور اعلی آفیسرز اور
غریب لوگ بھی ڈاکٹر صوفی کے مریضوں میں شامل ہیں۔ محکمہ صحت حکومت مغربی
پاکستان نے ڈاکٹر ایم اے صوفی کوB.D.S کرنے کے بعد23؍نومبر1956ء میں
بلوچستان میں پہلا ڈینٹل سرجن مقررکیا۔ آپ کوئٹہ میں1961ء تک رہے دوبارہ
اِسی ریجن میں ان کی اہلیہ کے ساتھ زیارت1964ء میں تعینات کیے گئے چنانچہ
انہوں نے کوئٹہ ، قلات، سبی اور دیگر جگہوں پر ڈینٹل کلینکس کھولنے کا
اعزاز حاصل کیا۔بطور صدر پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن لاہورکالج آف فزیشن
اینڈ سرجن آف پاکستان کو کراچی میں خطاب1978ء میں کیا تاکہ ڈینٹل سرجری میں
پوسٹ گریجویٹ کورس کااجراء(MCPS-FCPS )کیا جائے۔ لیفیٹنٹ جنرل واجد علی
برکی صدر کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان اور ممبران کو اپنے دلائل سے
آمادہ کیا اور ڈینٹیسٹری بھی میں امتحانات شروع کروائے ۔ڈاکٹر صوفی نے ساری
زندگی ڈینٹل سرجنوں کے مسائل اور ضرورت کے لیے خدمات انجام دیں۔ کالج آف
فزیشن کے سابق صدر محترم پروفیسرفاروقی اُنہیں بابائے پبلک ہیلتھ ڈینٹیسٹری
کہتے ہیں۔ اپنے شعبہ سے متعلق تقریباً 142 سائنٹیفک پیپرز شائع کئے۔ جو
دُنیا کی تمام لائبریریوں میں موجود ہیں اورڈاکٹرصوفی کی ریسرچ کا حوالہ
دُنیا میں دیا جاتا ہے اور بین الاقوامی کتب میں اِن کے مضامین موجود
ہیں۔جب پروفیسر صوفی سے پوچھا گیا ۔ آپ یہ کیسے سب کچھ کرتے ہیں۔ جواب میں
وہ فرماتے ہیں :
کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ خُدا نے ہمیں پاکستان عطا کیا۔ اگر پاکستان نہ
ہوتا تو ہم کچھ بھی نہ ہوتے۔ ڈاکٹر صوفی نے ڈینٹل کانفرنسوں میں دُنیا کے
ہر کونے میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ پاکستان کا جھنڈا لہرایابے شمار بین
الاقوامی ڈینٹل اداروں کے اعزازی اور لائف ممبر ہیں۔اِسی طرح پاکستان
میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور کے لائف ممبر خزانچی 73۔1975ء تک رہے۔پبلک ہیلتھ
ایسوسی ایشن آف پاکستان اور میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے
لائف ممبرہیں۔اِسی طرح کنگ سعودیہ یونیورسٹی ،منسٹری آف ہائیر ایجوکیشن کے
دفتر سے ڈینٹل پبلک ہیلتھ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی ترقی کے لیے اُمیدوار
کے کاغذات ڈاکٹر صوفی کے پاس بھیجواتے ہیں۔تاکہ اُمیدوار کے بارے میں صحیح
رائے قائم کی جائے۔انگلستان کی یونیورسٹی بلفاسٹ ڈینٹسٹری میں Ph.D کرنے
والے اُمیدوار کے لیے ان کو بیرونی گائیڈ ؍ٹیچر مقرر کرتی ہے۔پاکستان میں
یونیورسٹی ہائیر کمیشن ریسرچ سکالر کی جانچ پڑتال بھی پروفیسر صوفی کرتے
رہے اور اُن کی سفارش پر اُمیدواروں کو وظیفہ ملتا رہا۔ پنجاب پبلک سروس
کمیشن میں ٹیکنیکل ایڈوائزکے طور پر اپنی رائے اُمیدوار برائے گریڈ 19-20کے
لیے دیتے رہے۔ دُنیا کی چیدہ چیدہ یونیورسٹیوں میں ان کے ریسرچ مقالہ جات
استفادہ کے لیے موجود ہیں۔ ڈاکٹر صوفی نے ڈینٹل پبلک ہیلتھ کتاب پوسٹ
گریجویٹ طلباء کے لیے تحریر کی جو یاد گار اثاثہ ہے۔ اِسی طرح عام لوگوں کے
لیے دانتوں کی حفاظت اور دانتوں کی صحت پر کتب ،کتابچے تحریر کیے اور
دانتوں کے حوالے سے بے شمار مضامین پمفلٹ شائع کیے ۔
حکومت پنجاب کی سروس کے دوران ڈاکٹرایم اے صوفی نے 144 ریسرچ پیپرزتحریر
کیے۔آپ نے لنڈن1981ء ناروے 1987ء، جاپان 1988ء، اور ترکی1990ء میں بین
الاقوامی کانفرنسرز میں اپنے ریسرچ پیپرز پڑھے۔پروفیسر ڈاکٹر صوفی نے بطور
صدر سارک ممالک ڈینٹل ایسوسی ایشن فیڈریشن سری لنکا،بھارت اور بنگلہ دیش
اور پاکستان میں بین الاقوامی کانفرنس میں خطاب کیا۔ڈاکٹرصوفی کی علمی اور
تعلیمی خدمات کے عوض عالمی ادارہ صحت نے(W.H.O ( 1990-91ء میں National
Co-Ordinator for Pakistan برائے منہ کے امراض اعزازی انچارج مقرر کیا۔آپ
کو بین الاقومی ادارہ نے ایکسپرٹ کے طور پر اعزاز دیا۔پروفیسر صوفی پاکستان
میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے سات برس تک پنجاب اور صوبہ سرحد کی طرف سے
منتخب ممبر رہے۔اِسی طرح آپ پاکستان اینڈ ڈینٹل میڈیکل کونسل میں اپنے
خیالات اور مشاورت سے بہت سارے فیصلوں کے حصے دار ہوئے۔پاکستان ڈینٹل
ایسوسی ایشن لاہوربرانچ کے 25 سال(1973ء تا 1996ء) تک صدر رہے اس سے قبل
متحدہ پاکستان کے پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری 1968-67ء
اور1971-69ء تک صدر رہے اور آپ نے تُرکی اور ایران کا دورہ کیا تاکہ R.C.D.
ڈینٹل ایسوسی ایشن فیڈریشن قائم کی جائے۔
ڈاکٹر ایم اے صوفی کو بین الاقوامی ادارہ نے1967ء میں اعزاز ی فیلوشپ آف
انٹرنیشنل کالج ڈینٹسٹ کا اعزاز دیا اور کچھ عرصہ بعد ہی پاکستان
اورافغانستان کے ایجنٹ مقرر کیے گئے۔آپ اِس عہدہ کی بناء پر پاکستان ،بنگلہ
دیش اور افغانستان کے کسی سینئر ڈینٹل سرجن کو اعزازی فیلو شپ دے سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی کی بین الاقوامی سطح پر خدمات کے عوض انٹرنیشنل
کالج آف ڈینٹیسٹ نے اعزازی ماسٹر ڈگری عطا کی۔ پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
دنیائے عالم کے واحد مسلمان ڈینٹل سرجن ہیں جن کو یہ اعزاز1988ء میں دیا
گیا۔ اِسی طرح پیرڈ فاچرڈ اکیڈمی نے آپ کوپاکستان اور افغانستان دونوں
ممالک کا چیئرپرسن مقرر کیا ہے۔ تاکہ آپ بین الاقوامی ادارہ کی جانب سے کسی
ڈینٹل سرجن کو فیلوشپ دے سکتے ہیں۔چنانچہ اِس ضمن میں پروفیسر صوفی نے
چارتعلیمی کانو کیشن منعقد کیے ۔ آپ بین الاقوامی طور پر بڑے موثر ڈینٹل
ریسرچ ورکر اور لیڈر ہیں۔ بطورمسوڑوں کے امراض کے سرجن ہیں۔50سال سے زائد
عرصہ سے نہایت کامیابی کے ساتھ مسوڑوں کی سرجری کر رہے ہیں۔آپ نے بیگم وقار
النساء نون سے ملکرریڈ کراس 1968-67ء میں شروع کروایا۔ ڈینٹل کلینک شاہ
عالم مارکیٹ میں میو ہسپتال آؤٹ ڈورڈینٹل کلینک 1961-64ء سے 1968-66ء تک
جدید لائینوں پر استوار کیاجہاں پرہزاروں کی تعداد میں غریب مریضوں کا علاج
کیا جاتاہے۔
پاکستان میں جتنی ڈینٹل کانفرنس اور ڈینٹل ہیلتھ ویک ہوئے ۔ ڈاکٹر صوفی
اکثر متحرک رہے۔ چوتھی انٹرنیشنل ڈینٹل کانفرنس جو1991ء لاہور میں منعقد
ہوئی ۔ اِس کے چیئرمین ڈاکٹرصوفی تھے۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں ہر کانفرنس
میں سٹیج پر منفرد مقام بطور مہمان خصوصی دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں ڈاکٹر
ایم اے صوفی کو باپو کے لقب سے پکارا جاتا ہے اور بڑی عزت و تکریم دی جاتی
ہے۔
آپ28جولائی1991ء کوحکومت پنجاب کی سرکاری ملازمت سے بطور چیئرمین ڈیپارٹمنٹ
آف ڈینٹل پبلک ہیلتھ اورپرنسپل پوسٹ گریجویٹ کالج آف کمیونٹی میڈیسن
ریٹائرہوئے۔ اِسی میڈیکل ادارہ میں ڈاکٹر صوفی نے 1973ء میں ایک نئے شعبہ
ڈینٹل پبلک ہیلتھ کا بطور ڈیمانسٹر یٹرکااجراء کیا۔ تاکہ عام لوگوں کو
دانتوں کے امراض اور حفاظت کے اُصول خاص کر بچوں اور ماؤں کو وضاحت کے ساتھ
بتائیں جائیں۔دوسالہ ڈینٹل ہائجینسٹ کورس لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے 1978ء
میں شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ اِس دوسالہ کورس سے ( لیڈی ہیلتھ وزیٹر کی
طرح) تربیت یافتہ ڈینٹل ورکر تیار کیے جاتے ہیں۔جن کو حفاظتی اُمور اور کچھ
علاج کے بارے میں سکھایا جاتا ہے۔اِسی طرح پوسٹ گریجویٹ ماسٹر ڈگری
(M.D.S)اِن ڈینٹل پبلک ہیلتھ کے شارٹ کورسز کا اجراء ہوا۔ڈاکٹر صوفی کی
سربراہی میں اِس شعبے نے ریسرچ اور ٹیچنگ میں نمایاں کردار ادا کیااور کئی
ورکشاپ،سیمینارمنعقد کیے اور دانتوں کے بارے میں ریڈیو،ٹیلی ویژن مذاکرے
ہوئے اور اخبارات میں مضامین شائع کیے گئے۔
بیرونی ممالک سے پوسٹ گریجویٹ کورس اور تعلیمی قابلیت اور تجربہ کی بناء
پرڈاکٹر ایم اے صوفی کو 1975ء میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پنجاب پبلک سروس
کمیشن نے سلیکٹ کیا اور حکومت پنجاب کی طرف سے 1976ء میں ایسوسی ایٹ
پروفیسر کا عہدہ دیا گیا۔ 1986ء میں بطورپروفیسرآف ڈینٹل پبلک ہیلتھ
،پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل قوانین کے مطابق ڈاکٹر صوفی چنے گئے
اورسپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کے مطابق1991ء میں پرنسپل کالج آف
کیمونٹی میڈیسن کے عہدہ پر فائز ہوئے۔کیونکہ اس وقت کی حکومت نے ڈاکٹر ایم
اے صوفی کواُن کی سنیارٹی کا حق نہ دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی حکومت
پنجاب کے سینئرترین ریگولر پروفیسر تھے۔لہذا سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب
سے ڈاکٹر صوفی کے حق میں فیصلہ دیاگیا۔ اور آپ پرنسپل کی حیثیت سے میڈیکل
کالج کا چارج سنبھالا۔
اتفاق کی بات ہے کہ سارے پاکستان میں شعبہ ڈینٹل پبلک ہیلتھ صرف کالج آف
کمیونٹی میڈیسن 6 ۔ برڈ وڈ روڈ پرقائم ہے اور سارے پاکستان میں اِس
سپیشلسٹی کے پانیئر صرف ڈاکٹر ایم اے صوفی ہیں اور انہوں نے شعبہ ڈینٹل
پبلک ہیلتھ اور حفاظتی اُمور پراعلیٰ درجہ کے تحقیقی فرائض انجام دیئے۔
چلڈرن کمپلیکس کے موجودہ پروجیکٹ ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر سعید الحق نے
پروفیسرڈاکٹر ایم اے صوفی سے خواہش ظاہر کی کہ ان کے ادارہ میں شعبہ ڈینٹل
امراض طفلان کے لیے مکمل پراجیکٹ تیار کر دیں چنانچہ ڈاکٹر صوفی نے چلڈرن
ہسپتال کمپلیکس میں دانتوں کا شعبہ قائم کرنے میں امداد کی اوراِس شعبہ
دندان کے لیے آنکھ ناک کان کے برابر تمام سہولتیں تیار کیں اوراب چلڈرن
کمپلیکس فیروز پور روڈ میں ڈینٹل شعبہ بڑے شاندار طریقے سے بیمار بچوں کی
خدمت کر رہا ہے اوربچوں کے خاص وعام امراض کے علاج پر خصوصی توجہ سے ہو رہا
ہے۔اِسی طرح پروفیسرایس۔ اے۔آر۔ گردیزی سرجن پرنسپل علامہ اقبال میڈیکل
کالج ٗ جناح کمپلیکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر تھے۔ اُن کی خواہش پرپروفیسر
ڈاکٹرایم اے صوفی نے جناح ہسپتال کے لیے شعبہ ڈینٹل سرجری کا خا کہ تیار
کیا۔جو نہایت کامیابی سے کام کررہا ہے۔ شعبہ امراض دندان آؤٹ ڈور میوہسپتال
میں ڈاکٹر ایم اے صوفی نے پہلی بار1961-64ء تک اور دوسری بار 1966-68 ء
دوران سروس ایک شعبہ قائم کیا۔ اِس سے قبل ڈینٹل کلینک آؤٹ ڈور میوہسپتال
میں ایک کمرہ میں موجود تھا۔
ڈاکٹر ایم اے صوفی،پرنسپل کالج آف کمیونٹی میڈیسن کی ریٹائرمنٹ کے بعد
گذشتہ کئی برسوں سے ڈی ماونٹ مورنسی کالج آف ڈینٹسٹری میں اعزازی پروفیسر
کے طور پر پاکستان سٹڈی اور اسلامک سٹڈی کے مضامین BDS کلاس کو باقاعدہ
پڑھا رہے ہیں۔تاکہ پیشہ کے ساتھ تعلق قائم رہے۔یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز
کے بورڈ آف سٹڈی کے ممبر ہیں اور بے شمار ورکشاپس ڈینٹل اور سیمینار میں
مہمان اعلی کا اعزاز حاصل ہے ۔
پاکستان ا ور قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے بارے میں مختلف کالجوں،سکولوں
اورمجالس میں معلومات پہنچاتے ہیں۔ آپ اخبارات میں لکھتے ہیں۔پاکستان کے
موضوع پرجوکچھ اخبارات،رسالہ جات میں جو تحریر کرتے ہیں بلکہ اپنے عمل کو
صدقہ جاریہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ عطیہ خُدا وندی ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ تو
اﷲ ہی کرا رہا ہے۔آپ تقریباً دس کتابیں تحریر کرچکے ہیں۔ ’’ جناح ؒ سے قائد
،بنگلہ دیش میرا دیش، پختو ن خواہ کیوں؟ آزادی کا سفر قائد کی باتیں ،کالا
باغ ڈیم پاکستان کی ضرورت،مادر ملّت فاطمہ جناح ، پاکستان کیوں؟دوخان ایک
پاکستان، بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت ، پنجا ب کی تعمیر نظریہ پاکستان
کی لکیر ہے‘‘ ڈاکٹر صوفی اِسے صدقہ وخیرات سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کو خُدا
نے ہر قسم کی لالچ ، بدی ، کینہ اور حسد سے محفوظ رکھا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ
آپ کو بزرگوں کی شفقت اور محبت میسّر آئی ہے۔ڈاکٹر ایم اے صوفی کو خُدا نے
گھریلوزندگی میں بڑااطمینان دیا۔ آپ کو دولت اکٹھا کرنے کی لالچ نہ پہلے
تھی نہ اب ہے۔ خُدا نے گھر میں اتنا پُرسکون ماحو ل دیا ہے کہ کسی
عہدہ،پوزیشن کا لالچ نہیں۔
انجمن حمایت اسلام کی کئی سالوں سے خدمت کر رہے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے
پرچار میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ایم اے صوفی زندگی
بھر کسی سینما ہاؤس نہیں گئے۔نہ کوئی فلم دیکھی۔دُنیا کے تمام ممالک کی سیر
کر چکے ہیں۔ گندگی سے دُور رہے۔ نہایت سادہ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔
اپنی رائے کا اظہار کالم میں کرتے ہیں۔
نظریہ پاکستان ورکرز ٹرسٹ جب قائم ہوا تھا اس کے ساتھ منسلک ہوگئے اورتحریر
و تقریر کاکام جاری رہا۔ سارک ممالک ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر چنے گئے۔ سری
لنکا،ڈھاکہ گئے اور بین الاقوامی سطح کے سکالرز سے ملاقات ہوتی رہی۔
ڈاکٹر ایم اے صوفی کی زندگی میں ایک خاص امتیاز ہے۔ رات سونے،نیند سے اٹھنے
اور دوپہر کو قلولہ کے اوقات مقرر ہیں، باقاعدگی سے پانچ وقت نماز کی بروقت
ادائیگی ٗ صبح تلاوت قرآن پاک روزانہ کا معمول ہے۔ ڈاکٹر صوفی کے پاس فرصت
کے لمحات بہت کم ہیں۔ ورزش اور روزانہ سیرساری زندگی جاری رکھی۔ خوش رہتے
ہیں۔ لوگوں کو خوش کرتے ہیں۔ضد نہیں کرتے ، گلہ نہیں کرتے ، چھوٹی چھوٹی
چیزیں محسوس نہیں کرتے۔آپ خوش رہتے ہیں اور سب کو خوش رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صوفی کا کہنا ہے……’’اگر آپ کی آرزو یہ ہے کہ آپ کی اُولاد مسکراہٹ
اور خوش اُسلوبی کی فضیلت سے سرشار ہو ۔ آپ کو اپنی زندگی میں، اولاد کی
مسکراہٹ کے لیے خوش رہنے کے لئے اپنے اندرایک تبدیلی لانا مقصود ہوگی کہ آپ
کو اپنی بیوی(اہلیہ)کے جذبات کے لیے مثبت احساس پیداکرناہوگا۔ اس کے ساتھ
محبت و پیار ، عزت ، یاری ہمراہی ہونے کاطریقہ اپنانا ہوگا۔ اس کے جذبوں کی
قدر کرنا ہوگی۔اس کے والدین کی عزت ،تعظیم کرنی ہوگی کہ ایسے والدین نے بچی
پال کر تعلیم دے کر آپ کے حوالے کی۔کیونکہ آج آپ کی بیوی کل آپ کے بچوں کی
ماں ہے۔جس نے ایک عمدہ معاشرہ کی تشکیل کرنی ہے۔ معاشرہ میں کوئی انسان
عظیم اُس وقت تک نہیں ہو سکتاجب تک کہ اُس کی ماں عظیم نہ ہو۔آپ اگر چاہتے
ہیں کہ آپ کی اولاد اچھی ہو تواس کی ماں کی عزت کریں۔پیار کریں تب اچھا
ہوگا۔‘‘
"There was never a great man who had not a great Mother."(Oliver
Schreine)
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد اچھی ہو ، آپ بھی خوش خروم ہوں تو آپ اپنے
بچوں کے سامنے اپنی بیوی کی قدر کریں ، اس کی عزت کریں،اُس کی بڑائی بیان
کریں،ہنسی مذاق کریں تو آپ کی اولاد اچھی ہوگی اور آپ بھی ہمیشہ ہنستے رہیں
گے۔ اگرگھر میں خاوندبیوی کی قدر نہیں کرتا تو اولادمیں ر دِ عمل پیدا ہوتا
ہے اور وہ بُری عادت اختیار کرلیتی ہے۔قرآن مجید بیوی سے محبت کرنے کی
تصدیق کرتا ہے۔ قرآن مجید یوں کہتاہے:
وَمِن ایتہ ان خلق لکم مِن اَنفُسِکُم اَزواجاً لِتَسکُنوآالیھا وَجَعَلَ
بَینَکُم مَّوَدَّۃً وَّرَحمَۃً o اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَایٰتٍ لِقَومٍ
یَتَفَکّرُونَo
And among His Signs is this,that He Created for you mates among
yourselves,that ye may dwell in tranquility with them,and He has put
love and mercy between your hearts Surely in this are Signs for those
who reflect.(Surah:30,Ayat:21)
eاُردو ترجمہ:اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ جس نے تمہارا جوڑا
تم سے پیدا کیا۔تاکہ تمہیں راحت وسکون میسّر آئے اور اُس میں محبت کا بندھن
باندھ دیا اور اُسے رحمت قرار دیا۔
گویا انسانی مسکراہٹ کی بنیاد میاں بیوی کی آپس میں محبت ہے۔ ایک دوسرے کے
لیے احساس ہے۔ایک دوسرے کے لیے توجہ اور انسان دوستی پر ہے۔ کسی کی بات
کرنا ،برداشت اور محبت کرنا ایسی خوبصورت کڑی ہے جس کے اثرات جامع ہیں۔
غصہ، جلد بازی، مسکراہٹ کے حقائق کے خلاف ہیں۔ اگر آپ خود خوش و خرم رہنا
چاہتے ہیں ، اپنی شخصیت میں خیر و مصلحت پیدا کریں۔ کسی کے لیے اپنے ذہن
میں نفرت نہ رکھیں۔ اگر آپ نے اپنے ذہن میں کسی کے لیے (Hate) نفرت رکھی تو
آپ کے اپنے ذہن میں Conflictفتور پیدا ہو جائے گا۔اگر ایسا ہو گا تو اس شخص
کے لیے Affectionate انسانی ہمدردی سے محروم ہو جائیں گے اوراُس سے محبت
کرناچھوڑ دیں گے اور پھر آپ اُس کی مدد نہیں کر سکیں گے۔اصل بات خوشی کی یہ
ہے کہ دوسروں کے کام آنا ہے،مدد کرنا ہماری زندگی پیدائش اور موت کا مقصد
ہے۔’’لیبلوکُم اَیکُم اَحَسنُ عملاً……سورہ ملک پارہ نمبر۲۹‘‘’’ موت اور
زندگی کاتعین اس لیے کیا ہے کہ آپ کوئی اچھا عمل کر جائیں۔‘‘
لہٰذا اس نفرت کوAvoidکریں کیونکہ پھر آپ کسی کی مشکل کے وقت اُس کی مدد
نہیں کر سکتے۔اس طرح یگانگت پیدا نہیں ہوگی۔ آپ کی خوشی کا مقصدختم ہو جائے
گا۔ اُس شخص (جس کو آپ پسند نہیں کرتے )کی ہر خصلت اور اچھی بات بھی آپ کو
بُری لگنے لگے گی اور آپ کی ہنسی و مسکراہٹ غائب ہوجائے گی۔ آپ نقطہ چین ہو
جائیں گے۔ ہر بات میں چڑ چڑاپن ہو گا۔ غصہ ہوگا، دماغ میں کیمیائی تبدیلی
ہو گی۔ آپ کی شخصیت میں غلط سوچ پیدا ہوجائے گی۔ آپ ہمہ وقت کُڑکُڑ کریں
گے۔ حالانکہ کہ ہر شخص میں حماقت کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ خوبی ہوتی ہے۔ آپ
انسان کی خوبیوں پر نظر رکھیں۔ انسان کی غلطی ، حماقت اور کی باتوں
کوبرداشت کرنا لازمی ہے۔دوسروں کی غلطی یا کوتاہی کو درگذرکرنا ضروری ہے
اور ہر شخص سے محبت کرنا ہی سیدھا راستہ ، حضور نبی کریمؐ نے برداشت کیا
اور نہایت پیار سے لوگوں کو تلقین کی اور فرمایا ’’خیر الناس می ینفع الناس
‘‘ بہتر لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں۔ بھلائی کرتے ہیں۔ معاف
کرتے ہیں۔
محمد اسلم چوہان راجپوت سے ایم اے صوفی کیسے؟
چوہان راجپور ت ہمارے بزرگ لوگ ہونے پر بڑا فخرکیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو
پرتھوی راج چوہان یامکرماجیت کی اولاد گردانتے تھے ۔اس لیے کہ مکرماجیت بڑے
سخی تھے یہاں تک کہ پرندے بھی اُن کے گیت گاتے تھے۔ہمارے بزرگ راجپوت کی وہ
خیرات کھلی کیا کرتے تھے۔ ساتھ بہادری کا ذکر بھی خوب کرتے تھے کہ راجپوت
بہادر تھے، نڈرصاف گو اورمعاملات میں درست ہوتے تھے۔اگرکسی دشمن سے جنگ ہو
جائے تو راجپوت اپنی بہادری کے جوہر دکھاتا ہے،پیٹھ نہیں دکھاتا ۔
چوہان میں چم چوہان کاٹھے وغیرہ وغیرہ اُسی طرح جگی ، بندرا،سوروئے
وغیرہ،ہر ایک گوت کی خاصیت کردار ذدق و شوق علیٰحدہ ہوتا ہے مثلاً ہمارا
قبیلہ چم چوہان ہے صاف گو،ہربات بتادینی ہے،کہہ دینی ہے۔ کھل کر بات کرنی
ہے۔بندرا دل کی بات بتاتے نہیں۔ہم اکثر کہتے ہیں کہ اُن کے دانت پیٹ میں
ہیں مگر یہ لوگ بڑے دانا ہیں۔ ہماری ایک چوہان بزرگ رشتہ دارخاتون سو سال
کی ہو کر فوت ہوئیں۔ بنی تائی،اُن کی راجپوت قبیلہ کے بارے میں بڑی معلومات
تھیں۔ کاش ہم وہ تحریر کرلیتے تو نسلوں تک وہ بات پہنچ جاتی۔ تاہم ہمارا
عقیدہ یہ ہے کہ ذات اﷲ کی ہے۔ ہم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں،اﷲ ہمارے
اعمال اچھے کردے۔بس کافی ہے۔
بچپن اورسکول کا زمانہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے۔ آدمی انفرادیت چاہتا ہے۔ ہم
اپنی کاپی یا کتاب پر محمد اسلم چوہان راجپوت لکھتے تھے۔ہمارا قدلمبا تھا۔
جسم دبلا اور پتلا تھا۔ لڑکے شرارت کرتے چوہان کا ’’ن‘‘ہٹا دیتے اور مجھے
چوہا کہہ کر پکارتے جو بڑا بُرا لگتا۔اتفاق کی بات ہے کہ جب ہم دسویں کلاس
میں گئے تو کشمیر کی جنگ چھڑ چکی تھی۔ کشمیر کی90%آبادی مسلمانوں پر مشتمل
ہے اور لوگوں کی زبان، لباس، تمدّن ،رسم و رواج ،بیاہ مرگ ساتھ ہے۔کشمیر
اور پاکستان کے لوگ یہ چاہتے تھے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان ڈومنین کے ساتھ
ہو جائے۔ مگر کشمیر کے مہاراجہ اور پنڈت نہرو کی سازش سے کشمیر متضاد
بنادیا گیا۔
ہم نے1948ء میں طلباء کا ایک گروہ مجاہدین کشمیر تیار کیا۔ ہم نے باقاعدہ
کشمیر جانے کے لیے ملٹری ٹریننگ حاصل کی۔ شہر مظفر آباد، کوہالہ اور راولا
کوٹ سے کیمپ بوری نمبر7نزد مکھیالہ گاؤں میں سپلائی کی ڈیوٹی نبھانے پہنچ
گئے۔ دن رات ہوائی جہاز اور بھارتی فائرنگ کے نظارے دیکھتے ۔ گھنے جنگل کی
زندگی عجیب و غریب تھی بڑے بڑے درخت ،آسمان سے بجلی کا چمکنا، بارش کا
ہونا،ہم نے وہاں پر ایک چھوٹی سی جگہ نماز ادا کرنے کے لیے تھڑا بنا
لیا۔چونکہ ہم بچپن ہی سے نمازی تھے۔ ہمارے والدین نمازی تھے۔ ایک دوفوجی
ہمارے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے آجاتے تھے۔ہماری ٹھیوڑی پر چند بال تھے،
نماز پڑھتے تھے، فوجی راقم نمازی کو صوفی کہہ کر پکارنے لگے۔
ہم31نومبر1948ء کو کشمیر کی جنگ سے واپس لوٹے تو اپنا نام محمد اسلم صوفی
پکا ہو چکا تھا۔ 1949ء میں میٹرک کے امتحان کے لیے فارم پُر کرنا تھا۔ سکول
ٹیچر انچارج نے ہمارے میٹرک کے فارم پر محمد اسلم صوفی تحریر کیا ۔ اس طرح
ہم محمد اسلم چوہان راجپوت سے محمداسلم صوفی ہوگئے اور اﷲ نے اس نام کی
بدولت اچھے اور نیک کام کروائے۔جب کالج میں گئے رہبر ملّت حضرت قائداعظم
محمد علی جناحؒ کے افکار سے لگاؤ ہوا۔ اس نقل میں محمد اسلم صوفی کی بجائے
’’ایم۔اے صوفی‘‘ ہوگئے۔
ویسے ذات پات پر ہمارا لگاؤ نہیں۔ ہم نے اس طرف راجپوت ہونے پر خصوصی توجہ
نہیں دی کہ ہم سب حضرت آدم ‘ کی اولاد ہیں اور قرآن میں آیا’’ہم نے تمہارے
قبیلے اس لئے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اﷲ کے نزدیک وہ مقرب
ہے جو زیادہ متقی ہے۔ اسی طرح حضور نبی کریمؐ نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں
ارشاد فرمایا’’سن لو……نہ کسی عرب کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے،نہ کسی
عجمی کو کسی عرب پر ،نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے ۔ہاں بُزرگی
اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔‘‘ ویسے صوفی کاتعلق اﷲ سے ہوتا
ہے۔ وہ اﷲ کی خوشنودی طلب کرتا ہے۔ ہندوستان کشمیر میں ان صوفیاء اکرام کی
بدولت اسلام پھیلا ہے۔ صوفیاء کرام نہایت خوبصورت طریقے سے اﷲ وحدہ کی
عبادت دلجوئی سے کرتے ہیں او راپنے آپ کو عاجز بندہ خدا سمجھتے ہیں۔ اﷲ
ہمیں نیک کرنے کی اوراﷲ کے بندوں کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔لہٰذا
Genteticطور پر والدین کے خلیے کا اثر ہوگا۔
میں کن کن کی دعاؤں سے اس مقام پر کیسے پہنچا……؟
تقسیم ہند سے قبل میرے دادا کے بزرگواررجوعیہ تحصیل حویلیاں سے ہجرت کرکے
تحصیل ہری پور شہر میں آباد ہوگئے۔ میرے والد ماجد کا اسم گرامی محمد عبداﷲ
اور دادا کو لوگ مولوی بختاور پکارتے تھے۔ دادا مولوی نہ تھے۔صبح کے وقت
نماز کے بعد وہ حسبِ معمول قرآن شریف بلند آواز سے پڑھتے تھے، بڑے خوش
الحان تھے۔ محلے کے ہندؤ بھی اُن کا قرآن سنتے تھے۔ گھر کا ماحول نمازی اور
نیک تھا۔
میرے دادا ،دادی بڑی اچھی محبت پیار والی جوڑی تھی۔ مگراُن کی اولاد نہ
تھی۔ پہلی دادی بڑی دانا بردبار خاتون تھی۔ دادی نے ہمارے دادا بختاورکا
ایک بیوہ خاتون جس کے چار بیٹے یتیم رہ گئے تھے، اس سے خود دوسری شادی
کرادی تاکہ دادا کی اولاد ہو جائے۔اﷲ کا احسان ہوا اُس سے ہمارے والد محمد
عبداﷲ اور ایک بیٹی ہماری پھوپھی پیدا ہوئی۔ ہمارے والد کو پیار سے پہلی
دادی نے پالا پرورش کی، حالات کے مطابق اخلاقی تربیت کی، ہمارے والد بڑے
عمدہ،نوجوان تھے۔ان کی قابلِ رشک جوانی تھی۔ گفتگو میں یکتا تھے۔ اُن کا
قدوجسم نہایت موزوں تھا۔ لین دین،بیوپار میں صاف ستھرے تھے۔ خیانت اور بے
ایمانی سے دور اور دیانت پر مبنی اُن کی زندگی تھی۔ وہ قناعت پسند تھے۔ رزق
حلال کمانا ان کا وطیرہ اور حسن تھا۔جب ہم چھوٹے تھے، والد نے فرمایا بیٹا
محنت کرنے سے شرم نہ کرنا، نفرت کرنا تو حرام چیزوں سے ، ملاوٹ سے ،بے
ایمانی خیانت سے ،چوری سے اور دوسروں کے مال ہڑپ کرنے سے،اپنی والدہ کریم
جان بھی بڑی نیک، سلیقہ شعار،کفایت شعار، تقدیر پر راضی رہنے والی بے مثل
خاتون تھی۔ ان کا حسن جمال اُن کی ذہنی شعو راور نیکی ظاہرکرنا تھا۔ وہ
لالچ سے دور تھیں۔ دوسروں کے کام آنا ہمارے والدین کی روش تھی۔ محلے داروں،
عزیزوں ،مسافروں کے کام کرنا،مدد کرنا ان کا اخلاق تھا۔ دیانت اور نیکی کی
وجہ سے ہندوؤں میں بھی ہر دلعزیز تھیں۔
اﷲ کے فضل و کرم سے ہم صحت مند ہری پور ہزارہ پیدا ہوئے۔ ہمارے دادا مولوی
بختاور زندہ تھے۔ دادی نمبر1،دادی نمبر2 زندہ تھیں۔ نانا،نانی حیات تھے۔
اُس زمانے میں تحصیل ہری پور میں لیڈی ڈاکٹر،لیڈی ہیلتھ وزیٹر، نرس کا
ہسپتال میں وجود نہ تھا۔کمیٹی کی طرف سے بھی کوئی ایسی چیز نہ تھی۔ اکثر
3بچے پیدائش کے وقت مرجاتے تھے۔ عورتیں ڈلیوری کے وقت موت کی وادی میں چلی
جاتی تھیں،کیونکہ دائی یہ کام کیا کرتی تھیں اور ہم اﷲ کے فضل سے موت سے بچ
نکلے۔
لہٰذا ہم دادا دادی ،نانانانی اور والدین کی دعاؤں سے بخیریت اس دنیا کے
سفر کے لیے والدہ ماجدہ کریم جان کے بطن میں42ہفتے بارونق گذار کردنیا میں
باہر آئے۔ خوشنما لمحات سب خاندان کے لیے تھے۔ دادا نے کان میں نہایت خوش
الحان آواز میں اذان دی اور مجھے پہلے روز آگاہ کیاکہ اﷲ بڑا ہے۔ اﷲ بڑاہے۔
اور کوئی عبادت کے لائق نہیں ،اﷲ بڑا ہے اور ساتھ شہادت دلوائی کہ محمد ﷺ
اﷲ کے رسول ہیں……اور میری اچھی زندگی کے لیے دل سے،گڑگڑا کر دُعا مانگی، اس
دُعا میں سب شامل تھے۔ ماں نے بھی مجھے مُڑ کر دیکھااور فرمایا’’اﷲ تیری
زندگی اچھی کرے اورتو ہر میدان میں فتح پائے۔میرے دادا اکثر بیمار رہتے
تھے۔ اُس زمانے میں آج کی طرح ڈاکٹر،ادویات یا مرض کو تشخیص کرنے کے آلات
نہ تھے۔دادا نے میری پیدائش پر کہا’’اگر بیماری سے کوئی مرتا تو میں مرچکا
ہوتا،اگر خوشی سے کوئی اُڑسکتا تو میں اِس پوتے کی پیدائش پر آسمان پر
شاہین کی طرح اڑ جاتا،میری پیدائش بروز جمعۃ المبارک کوہوئی تو دادا جی نے
میرا نام جمعہ رکھنا چاہا،مگر پھوپھی کے کہنے پر میرا نام محمد اسلم رکھا
گیا۔تاریخ پیدائش 31جولائی1931ء لکھی گئی۔
میراعقیقہ بڑی دھوم دھام ،سے شریعت کے مطابق کیاگیا۔ دوبکرے ذبیح ہوئے۔
عزیز رشتہ دار دور دراز سے مدعو ہوئے اور خوشی اور سنت حنفیہ میں شریک محفل
تھے۔ ہر ایک رشتہ دار نے میرے لیے دُعا کی اور والدین اور دین کی تابعداری
کے لیے دُعائیں مانگی گئیں۔ میرا ختنہ دیر سے ہوا۔ہندؤ بنیا نے سود کی
خاطرپنڈت نے والد صاحب سے یہ کہہ کر روکوا لیا اورکہا کہ اتنا لاڈلا بیٹا
ہے دھوم دھام سے ختنہ ہونا چاہیئے ۔ یہ چھوٹی شادی ہوتی ہے۔ لہٰذا مجھے
اپنے ختنہ کی رسم اور حجام سرجن تیز دھارکا اُسترا سب یاد ہیں۔ یہ کس قدر
درد ناک واقعہ ہوا ہے اورحجام کتنے روز زخم پر راکھ لگاتے رہے۔ اُس زمانے
میں نہ تو کوئی انجکشن تھا اور نہ ہی درد کو کم کرنے والی دوائیاں تھیں۔
حجام سرجن بن کر ہی ختنے کرتا تھا۔اس کا خاص طریقہ ہے۔جو میں بیان
کررہاہوں۔جب میں تین چار سال کی عمر کو پہنچا، دادا اس سے قبل اﷲ کو پیارے
ہو چکے تھے تاہم میں انتہائی کم عمر میں ہی محلہ کی مسجد میں جانے لگا۔
ہماری مسجد بڑی ہونے کی وجہ سے جامع مسجد کہلاتی تھی۔ مسجد کاصحن کھلا تھا۔
اس میں درخت بھی تھے۔ پانی نکالنے کا پختہ اعلیٰ درجہ کا کنواں جس کی
گہرائی 60گز تھی۔ نمازی بزرگ مجھے پیار کرتے اور دُعا دیتے ۔ جب میں ذرا
بڑا ہوا تو مسجد میں اذان دینے کی کوشش کی۔ مسجد میں چٹائیاں بچھانے میں
مدد کرنے لگا اور گرمی کے موسم میں نمازیوں کو ٹھنڈا پانی مٹکے سے لاکر مٹی
کے پیالہ سے دینے لگا۔ اس زمانے میں بجلی نہ تھی۔ روشنی کے لیے مسجد میں
سرسوں کے تیل کا دیا جلایا جاتا تھا۔ درس قرآن میں میں باقاعدگی سے شریک
ہوتا۔ تلاوت قرآن میں بیٹھا استاد مجھ پر خاص توجہ دینے لگے۔ جامع مسجد کے
پیش امام مولانا اسحاق تھے۔ ان کا تعلق امرتسر کے غزنوی خاندان سے تھا۔ وہ
بڑے خوبصورت سفید رنگ کے عالم تھے۔ وہ توحید پر بڑی گہری رغبت رکھتے تھے۔
قرآن اور حدیث کے علم پر فوقیت تھی۔ اُن کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن
امام مسجد مقرر ہوئے جو میرے اتالیق اور تربیت کرنے والے عالم تھے۔ ان کا
قرآن کی تفسیر پر بڑا عبور تھا۔ عمدہ ، سچی داڑھی،سر پر سفیدپگڑی والالباس
روایتی کھلا کُرتا اور اونچی شلوار رکھتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے تفسیر
تحریر کیں۔ وہ بڑے مدّبر، صاحبِ زیرک اور موحد تھے۔ اﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ
ان کی دونوں آنکھوں سے روشنی چلی گئی۔ آنکھ میں کنکرے ہوگئے۔علاج یا ڈاکٹر
آج کی طرح نہ تھے۔ تحصیل ہری پور شہر میں سرکاری ہسپتال تھا۔ اس میں صرف
ایک مردمیڈیکل ڈاکٹر ہوتا تھا۔ان کو بڑا ڈاکٹر کہتے تھے۔تقسیم ہند سے قبل
مندسنگھ میڈیکل ڈاکٹر ساری تحصیل کے لیے تھا۔
مولا نا فضل الرحمن صاحب نماز فجر کے بعد درس قرآن دیتے تھے۔پھر بچوں کو
قرآن سکھاتے تھے۔ ان کا گھر مسجد کے ساتھ تھا۔ تو میں اُن کی چھڑی اور ان
کے جوتے اُٹھاتا اور گھر تک لے جاتا جس پر وہ دعائیں دیتے۔ جب وہ بازار
جاتے تو اُن کو پکڑ کر سہارا دے کر لے جایا کرتا اور حجرے تک واپس لے آتا۔
ان کی خدمت بڑے اچھے طریقے سے کی۔مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ کی عادت یہ
تھی کہ وہ خط ڈاک خانے یاڈاک کے بکس میں خود ڈالتے کہ یہ سنت ہے۔ ہم نے اُن
کے ساتھ یہ کام بھی کروایا۔ مجھے دُعاؤں کے ساتھ یہ فائدہ ہوا کہ قرآن کی
کئی سورتیں چھوٹی عمر میں یاد ہوگئیں اور ساتھ دُعامانگنے کاطریقہ بھی سیکھ
لیا۔ مولانا فضل الرحمن کی شفقت ،ذہنی تربیت سے قرآن وحدیث سے لگاؤ پیدا
ہوا۔ بچپن ہی سے تہجد کی نماز کے لیے گھر سے اُٹھتا،مسجد جاتا،موسم سرما ہو
یا گرما ہو تہجد کی نماز ادا کرنی ہے اور جماعت کے ساتھ نماز فجر ادا کرنی
ہے۔ مولانالمبی سورتیں پڑھتے تھے۔درس کے بعد مسجد میں ہی آرام کرتا۔ ذرا
بڑا ہوا تو صبح درس کے بعد اکھاڑے میں چلا جاتا۔ پہلوان بننے کا شوق تھا۔
ڈاکٹر محمد جان ڈینٹسٹ امرتسر سے آئے تھے۔ وہ اکھاڑے کے استاد تھے۔ زور
کرتا،ڈنڈ بیٹھک لگاتا۔ اکھاڑ،کھودتا،استاد کو لڑاتا۔
مولانا فضل الرحمن کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ آج تک میری نماز فجر قضا نہیں
ہوئی۔ قرآن کی تلاوت جاری ہے۔ مسجد کے نمازی مجھے بڑا پیار کرتے۔ میری
دیکھا دیکھی کئی بزرگ نماز تہجد کے لیے آجاتے اور ہر روز ہمارے ایک رشتہ
دار بزرگ دین بابا(جو کبڑے ہوگئے تھے اُن کی عمر 90سال کی ہوگئی)سحری کے
وقت وہ چھڑی کے ساتھ ہماری پختہ اینٹوں والی گلی سے گذرتے اُن کی ٹھک ٹھک
سے ہم چھت پر سوئے ہوئے بچے اُٹھتے اور تہجد پڑھنے پہنچ جاتے۔ دیگر رشتہ
دار ملک خدا بخش جو ہمارے سامنے رہتے تھے وہ کہاکرتے کہ اسلم مجھے بھی سحر
ی کے وقت اُٹھا دیا کرو۔ آواز دیا کرو۔ ہماری چھت اور اُن کی چھت آمنے
سامنے تھی۔ یہ کہتے ہوئے مجھے ایک لمبی لکڑی دے دی گئی کہ اپنی چھت سے مجھے
ہلا دیا کرو، ہم اس نیکی میں حصہ دار ہوگئے اور مفت کی دُعائیں ملنے لگیں،
گویا ہمیں نیکی کے کام کرنے کا موقع قدرتی میسّر آجاتااور بڑی تسلی رہتی۔
جب ہری پور میں موسم گرم تھا۔ بجلی نہ تھی، آج کی طرح ائرکنڈیشن ائیر کولر
نہ تھے۔ کھجور کے پتوں سے بنا ہوا بڑا پنکھا ،چھوٹی پنکھی کی طرز کا ہوتا
تھا۔ جب نمازی نماز کے لیے جماعت میں کھڑے ہوتے میں صف کو پنکھا سے ٹھنڈی
ہوا دیتا اور رکوع میں شامل ہوجاتا۔ سلام پھیرنے کے بعدنمازیوں کو ٹھنڈا
پانی پلاتا اور سب دعائیں کرتے ’’اﷲ تجھے بڑا آدمی بنائے، تیری قسمت اچھی
ہو،اور تجھے خدا اچھی زندگی دے‘‘ اس طرح بچپن سے ہی اﷲ نے نیک کام مجھ سے
کرائے اور لوگوں کی دعائیں حاصل ہوئیں۔جب مزید بڑا ہوا ۔پرائمری چہارم کلاس
پاس کی رمضان کے مہینے میں اﷲ نے بڑے عمدہ کام لیے ۔ مثلاً……
٭ سحری کے وقت تمام محلے داروں کو جگایا، اندھیرا ،گھٹا ٹوپ،موسم خراب ہو،
بارش ہو، میرے ہاتھ میں ایک موٹی چھڑی ہوتی تھی ہر دروازے کو ٹھک ٹھک کرتا،
آواز دیتا اُٹھو سحری کا وقت ہوگیا۔ جب لوگ اُٹھ کر سحری پکانے میں لگ جاتے
اور مجھے دُعائیں دیتے۔
٭ مسجد میں غریب یا مسافر ہوتے۔ اُن کے لیے محلہ میں آواز لگاتاکہ مسافروں
کے لیے روٹی دو، لوگ پراٹھے، روٹی سالن دیتے، مسجد میں آکر مسافروں کے
سامنے رکھتاوہ سحری کھاتے۔ دل سے دُعائیں دیتے۔
٭ مولانا فضل الرحمن ……امام مسجد تھے ان کی سحری کے لیے بھی محلہ داروں سے
مانگتا۔
٭ سحری کا وقت ختم ہونے سے قبل 60گز گہرے کنویں سے پانی نکالتا،ٹھنڈے پانی
میں بالٹی لے کر محلہ میں جاتا،آواز لگاتا، ٹھنڈاپانی ،کنویں کا پانی اس
زمانے میں برف نہیں ہوتی تھی۔محلہ کی عورتیں،مائیں میرا انتظار کرتیں،اپنی
چھت سے رسی کے ساتھ چھکا،گلی میں لٹکاتی تو ایک دو گلاس پانی ڈال دیتا، اس
طرح سارے محلہ کے رشتہ دار ٹھنڈے پانی سے سحری کرتے اور دُعائیں کرتے۔
٭ سحری کے وقت اپنی روٹی اس وقت شروع کرتا جب مؤذن صبح کی آذان شروع کرتا۔
آذان کے دوران کھالیتا، ہمارا مؤذن اذان بڑی لمبی اور آہستہ دیتا تھا اور
اس تیزی سے روٹی ختم کرکے پانی پی لیتا۔اسی سحری کے وقفہ کے دوران میں ڈنڈ
پیلتا ۔
گویا مسجد کی خدمت میں لاتعداد بزرگوں ،نمازیوں کی دعائیں میسّر آئیں۔
مسافروں،راہ گذروں اور رشتہ دارخواتین کی بے بہا دُعائیں کام آئیں۔ ایک
بزرگ رشتہ دار بڑے باغبان زمیندار سائیں گوہر بابا کے چھ یا سات بیٹے تھے۔
باباسائیں گوہر بڑے نمازی تھے۔ اذان دیتے تھے وہ میرے والد ملک عبداﷲ سے
کہنے لگے ’’میرے چھ بیٹے لے لیں اپناایک محمداسلم دے دو‘‘
جب میں نے چوتھی جماعت پاس کرلی تو مجھے سکول سے اُٹھا لیا گیا۔ڈنگر،بھینس
،بیل ،گائے، بکریاں، مرغیوں کی دیکھ بھال کر نا میرا کام تھا، میں نے کسی
جانور کے بیٹھنے کی جگہ گندی نہیں چھوڑی فوراً ان کا گوبر اُٹھایا۔اُن کو
اچھی خوراک کھانے کے لیے فراہم کرتا۔ ٹوکے سے بھوسا کاٹتا،جوار،مکئی اور
دیگر گھاس کاٹنے میں ماہر ہوگیا۔ بھینسوں کو دریا میں نہلاتا۔ انسانوں کے
ساتھ ساتھ مویشی مجھ سے خوش تھے۔ اُن کی حفاظت کرتا۔اُن کو اچھا چارہ خوراک
،پانی دیتا،غر غرا لگاتا۔سینگوں کو سرسوں کے تیل سے ترکرتا،اس طرح جانور
بھی مجھ سے خوش تھے اور اُن کے بچے مجھ سے پیار لیتے۔ بھینس کی بیٹی کٹی
بڑی پیاری ہوتی۔ میں اس کو پیار کرتا، اسی طرح بکری کی اولاد بھی
پیارکرواتی۔جانور بھی مجھ سے بے حد مانوس تھے۔
تقسیم ہند تک کافی ایسے اچھے کام کیے۔ یہ اِن دُعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ہم
پڑھائی کو جاری رکھ سکے۔ اعلیٰ تعلیم خدا نے دلوائی، اونچا مقام معاشرہ میں
میسّر آیا۔ طب کی دنیا میں سرخرو ہوئے اور سماج میں بڑا نام پیدا کیا اور
زندگی میں نیک کام کرنے کی طرف دھیان دیا۔ گھر میں امن، رشتہ دار
تابعدار،نیک اولاد خدائے بزرگ وبرتر نے عطا کی۔
پاکستان اب بن کے رہے گا ہندوستان اب بٹ کے رہے گا
شادی اور اولاد :
میرا نکاح3جون1961ء کو سنڈیمن (سول)ہسپتال کوئٹہ میں ڈاکٹر اقبال سے ہوا۔
شادی کے چند روز کے بعد میرا تبادلہ بطور ڈینٹل سرجن میوہسپتال لاہور ہوگیا
اور میری اہلیہ ڈاکٹر اقبال کو سنڈیمن (سول)ہسپتال کوئٹہ میں ہی رہیں۔
20اگست کو رخصتی بھی ہوگئی۔یہ بڑے مشکل دن تھے۔ ڈاکٹر اقبال کو شادی کے چند
روز بعد کوئٹہ جانا پڑا۔ کبھی میں چھٹی لے کر کوئٹہ چلاجاتا،کبھی وہ چھٹی
لے کر لاہور آجاتی۔ بالآخر کوئی پانچ ماہ کے بعدڈاکٹر اقبال کا تبادلہ
لاہور ہوا ۔ اﷲ نے ہمیں نہایت خوبصورت صحت مند بچہ احمر بلال25نومبر1962ء
کو عطا کیا۔
اسی طرح بیٹی ربیعہ 12دسمبر1963ء کو لیڈی ولنگٹن میں پیدا ہوئی۔ دوسری بیٹی
مدیحہ14مارچ1965ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئی۔ تیسری بیٹی سعدیہ 17اگست1967ء
میں لاہورگھر میں پیدا ہوئیں۔ 1965-66ء مجھے سکالر شپ لندن یونیورسٹی میں
ریسرچ کرنے کے لیے ملا۔ 1966ء میں واپس آیا۔حکومت نے دوبارہ ڈینٹل آؤٹ ڈور
میوہسپتال لاہور میں ڈینٹل سرجن مجھے تعینات کردیااور بیگم کو ہری پورہزارہ
سے تبادلہ کر کے مینٹل ہسپتال لاہور کےFemaleوارڈ میں لگادیا ۔دوسرا اور
آخری بیٹا عامر کمال 5جون1972ء فیروز والا گھر میں پیدا ہوا۔میں اور میری
اہلیہ نے تمام تر توجہ اپنے بچوں کو تربیت اورتعلیم پر مرکوز رکھی یہی وجہ
ہے کہ میرے تمام بچے اعلی تعلیم یافتہ اور پاکستان کے معزز شہری ہیں بلکہ
شادیوں کے بعد اپنے اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اﷲ کا
شکر ہے کہ ہماری اولاد نیک ہے اور یہی بزرگوں کی دعاؤں اور دکھی انسانیت کی
خدمت کا بہترین صلہ ہے ۔
(نوٹ ۔یہ انٹرویو بذات خود مجھے ڈاکٹر ایم اے صوفی مرحوم نے فراہم کیا تھا
تاکہ میں اس انٹرویو کو اپنی کتاب میں شامل کرسکوں ۔کتاب تو چھپ نہیں سکی
لیکن ڈاکٹر ایم اے صوفی مرحوم کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے انکا دیا ہوا
انٹرویو قارئین کی نذر کیا جارہا ہے ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ 1978ء میں اردو
سٹینو گرافر کی حیثیت سے میں فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان -3اے
ٹمپل روڈ لاہور میں ملازم تھا ۔ایک دن ڈائریکٹر کمیونیکیشن جنا ب سلیم چشتی
صاحب نے مجھے اپنے آفس میں بلا کر حکم دیا کہ میں روزانہ دو گھنٹوں کے لیے
علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ڈاکٹر ایم اے صوفی صاحب ڈینٹل سرجن کے پاس
جایا کروں ۔وہ جو کچھ لکھائیں ڈکٹیشن لے کراگلے دن ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرکے
ان کی خدمت میں پیش کردیا کروں ۔علامہ اقبال میڈیکل کالج جو ااس وقت جیل
روڈ سے ملحقہ تھا، میں سائیکل پر پیڈل گھماتا ہوا وہاں پہنچ جاتا ۔ڈاکٹر
ایم اے صوفی صاحب نہایت خوش اخلاق اور اچھے مزاج کے بہترین انسان تھے ۔وہ
جتنے بڑے مرتبے پر فائز تھے ان کا مزاج ان سے میچ نہیں کرتا تھا ۔ وہ مجھے
دانتوں اور مسوڑھوں کی اہمیت اور انہیں صاف رکھنے کی اہمیت پر ڈکٹیشن دیا
کرتے تھے ۔ جتنا عرصہ بھی میں ان سے ڈکٹیشن لیتا رہا ۔میں نے یہی اخذ کیا
کہ انسانی مونہہ پورے جسم کا مین گیٹ ہے ۔یہاں سے گزر کر ہی خوراک معدے تک
پہنچتی ہے۔ پھر معدہ اس خوراک کو ہضم کرکے طاقت انسان کے اندرونی اعضا کر
فراہم کرتا ہے اور فضلہ بڑی آنت کے ذریعے جسم سے خارج کردیتا ہے ۔ ڈاکٹر
صوفی کے مطابق اگر انسانی جسم کا مین گیٹ ہی صاف نہ ہو ا تو وہاں سے گزرنے
والی خوراک انسان کو کیسے صحت مند رکھ سکتی ہے ۔ان کے مطابق بہترین انسانی
صحت کے لیے دانتوں کا اچھی طرح صاف رکھنا ، مسوڑوں کو بیماری سے محفوظ
رکھنا ازبس ضروری ہے ۔باتوں ہی باتوں میں ہم دونوں دوست بن گئے ۔بعد میں
کبھی کبھا رمیں الہی بخش کلینک انہیں ملنے جایا کرتا تھا۔ انہوں تحریک
پاکستان اور جنگ آزادی کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے بروشر چھاپ کر ریک میں رکھے
ہوتے ۔ جو بھی کوئی ان سے ملنے آتا وہ بروشر انہیں یہ تاکید کرکے ضرور دیتے
کہ پاکستان لاکھوں انسانوں کی جانی و مالی قربانیو ں کے بعد حاصل کیا گیا ۔
خدارا اس کی قدر کریں اور اپنے رویوں سے پاکستان کو ہر سطح پر مضبوط و
مستحکم کریں ۔بلکہ بطور خاص نوائے وقت اور روزنامہ پاکستان میں ان کے کالم
اور مضامین بھی تسلسل سے شائع ہوتے تھے۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ ڈاکٹر
ایم اے صوفی مرحوم کے چھوٹے صاحبزادے عامر کمال صوفی صاحب نے نوائے وقت سے
میرا موبائل نمبر لے کر مجھ سے رابطہ قائم کیا ۔ عمر کے اعتبار سے تو وہ
میرے بیٹوں جیسے ہی ہیں لیکن اب ان سے بیٹوں کی طرح ہی اچھی دوستی ہوچکی ہے
۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو گا جب ہم دونوں کے درمیان موبائل پر رابطہ
نہ ہوا ہو۔عامر کمال صوفی اپنے عظیم والد کی طرح بہت اچھے اور سلجھے ہوئے
انسان ہیں ۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور قائداعظم فورم
کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ بڑوں کی عزت کرنے اور خوش اخلاقی کے اعتبار سے وہ
وکیلوں سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔میں بھی انہیں اپنے بیٹوں کی طرح ہی سمجھتا ہوں
اور وہ بھی مجھے اپنے والد کے دوست کی حیثیت سے باپ ہی کا درجہ دیتے ہیں ۔
بلال احمر صوفی صاحب کے کارناموں کے بارے میں اخبارات و جرائد پڑھتا تو
رہتا ہوں لیکن ان سے میرا براہ راست کوئی تعلق ابھی تک نہیں ہوا لیکن ڈاکٹر
صوفی مرحوم کے بیٹے کی حیثیت سے وہ بھی میرے لیے قابل احترام ہیں ۔عامر
کمال صوفی اور بلال صوفی سمیت ڈاکٹر ایم اے صوفی مرحوم کی تمام بیٹوں اور
بیٹیوں کے لیے میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ اﷲ تعالی ان سب کو اپنی حفاظت
میں رکھے ۔پاکستان سے محبت کرنے والا یہ گھرانہ ہمیشہ آباد و شاداب رہے
۔آمین
|