پروفیسر ڈاکٹر خالد عباس بابر نے بھی داعی ء اجل کو لبیک
کہہ دیا ۔۔موت کے بے رحم ہاتھوں علم وادب کا ایک اور خورشید غروب ہو گیا ۔
اس بے مثال ادیب اور ذہین و فطین استاد نے پوری دنیا میں اپنی علمی و ادبی
کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے۔۔ انگریزی اور اردو تنقید و تحقیق کے ہمالہ کی
ایک سربہ فلک چوٹی موت کے بے رحم ہاتھوں سے دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہو
گئی۔۔ پاکستان کے شہر فیصل آباد کے علاقہ پیپلز کالونی نمبر1 کے شہر
خاموشاں کی سر زمین نے عالمی ادبیات کے اتنے بڑے آسمان کو اپنے دامن میں
چھپا لیا ہے ۔
انگریزی اور اردو تنقید و تحقیق کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے
والا حریت فکر کا دلیر مجاہد اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا۔ انگریزی
تنقید و تحقیق کو بلند ترین درجہ ء استناد اور وقیع ترین مقام ثقاہت پر
فائز کرنے والا ایک زیرک تخلیق کار ، وسیع المطالعہ ادیب ، یگانہء روزگار
فاضل ،انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا علم بردار اور عالمی ادبیات کا زندہ
دائرۃ المعارف راہی ء ملک عدم ہو گیا۔پروفیسر خالد عباس بابر نے اردو اور
انگریزی تنقید و تحقیق کو اپنے خون جگر سے سینچا۔۔زمین نے اتنے بڑے آسمان
کو اپنے دامن میں چھپا لیا ہے ،اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔یہ
اہل کمال علم وادب کے خورشید جہاں تاب تھے جن کی تابانیوں سے اکناف عالم کا
گوشہ گوشہ منور ہو گیا۔علم و ادب ،تہذیب و ثقافت ،تحقیق و تنقید ،تخلیق ادب
و تاریخ اور لسانیات کے اتنے بڑے دانش ور کا ستاروں کے مانند غروب ہو جانا
ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔ان کی وفات سے اتنا بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی
پر نہیں ہو سکتا۔ انہی کے بقول
حیات کیاہےفقط فاصلوں کی انگڑائی
جو وقت گزرے گا سوگوار گزرے گا
(خالد عباس بابر)
فیصل آباد سے متعلق ، دنیائے ادب کے ممتاز شاعر ، ادیب اور درویش منش استاد
پروفیسر خالد عبّاس بابر کی ادبی شخصیت ہماری تاریخ کے ان یگانہ روزگار
صاحبان قلم میں شامل ہے جو ہماری قوم اور ہمارے وطن ، ہماری زبان اور ہمارے
ادب کی شناخت کا لائق تعظیم و احترام اور معتبر حوالہ سمجھے جاتے ہیں ۔۔ایک
زمانہ تک بطور پروفیسر انگریزی ، ان کے افکار اور علم سے آنے والے زمانوں
میں بھی ان کے نام سے ہماری علم و ادب کی روایت کو دوام حاصل رہے گا ۔۔۔۔۔۔
وہ راقم ( اظہار احمد گلزار) کے زمانہ کالج میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں
انگریزی ادبیات کے ایک زیرک ، محنتی ،سادہ ور سب سے بڑھ کر ایک جری استاد
تھے۔ ۔۔الفاظ اور محاورات کی تو دو اساتذہ کو میں چلتی پھرتی یونی ورسیٹیاں
کہا کرتا تھا ۔۔اور اس میں معمولی مبالغہ بھی نہیں تھا۔۔۔۔پروفیسر خالد
عبّاس بابر اور پروفیسر چودھری محمّد صدیق ناگی ، یہ دونوں زیرک اور باکمال
استاد اپنی مخصوص چال ،ڈھال ، گفتگو ، سادگی اور منکسر المزاج استاد فنون
لطیفہ کے بہت رسیا تھے۔ ۔۔بات بات سے محاورے، اشعار اور ایک ایک لفظ کے کئی
معانی بانٹتے چلے جاتے ۔۔۔۔آفاقی انسانی قدروں اور مجبور مظلوم طبقوں کے
احساسات و جذبات ، خوابوں ، امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوۓ احترام آدمیت کا
بہت خیال رکھتے اور گاؤں سے آنے والے سادہ طلباء سے زیادہ نرمی اور ہمدردی
کرتے کہ یہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔۔۔
انسانی وقار کا خیال رکھنا اور دوسروں کی خوبیوں کا برملا اظہار کرنا خالد
عبّاس بابر کی بہت بڑی خوبی تھی۔
سادگی کا یہ عالم تھا کہ پورے کالج میں صرف چند اساتذہ کے پاس ہی با سائیکل
تھا ۔۔ان میں خالد صاحب بھی شامل تھے ۔ کبھی سائیکل چلانے میں عار محسوس نہ
کی ۔۔۔انسان کی خوبیوں کا اعتراف کرنے میں پورے خلوص سے داد دیتے کہ سننے
والے کے پورے وجود میں خوشی کی لہر گردش کرنے لگ جاتی ۔۔۔۔
ایک بار میں نے ان کو سائیکل کو پنکچر کی حالت میں سائیکل کو پیدل کھیچ کر
پنکچر والے مکینک کے پاس لے جاتے ہوۓ دیکھا ، راستے میں میری ان پر نظر پڑی
تو گویا مجھے بھی ساتھ آنے کو کہا۔میں نے احتراما استاد محترم کا سائیکل
پکڑنے کی کوشش کی۔تو انکار کرتے ہوۓ کہنے لگے، بیٹا اپنا وزن آپ ہی اٹھانا
چاہیے۔کسی پر بوجھ بننے سے گریز کرناچاہیے ۔۔گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے عقب
میں جناح کالونی کی طرف جاتے ہوۓ کالج کی دیوار کے ساتھ شیشم کے درخت کے
نیچے پنکچر لگوانے کے لیے ہم وہاں کتنی دیر بیٹھے رہے ۔
جتنی دیر ہم وہاں بیٹھے رہے ، خالد صاحب نے پند و نصاح کی زنبیل کھول لی
اور مجھے نصیحتیں کرنے لگے۔۔رہنے لگے کہ ہمیشہ دوسروں کی خدمات اور نیکیوں
کا کھلے دل سے اعتراف کرنا سیکھیں ۔اس میں بخل سے کام نہیں لینا
چاہیے۔۔مطالعہ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں ،ایک ایک لفظ کے کئی کئی
معنی اور مفاہیم کو یاد کریں۔۔زندگی اور وقت کو عارضی سمجھیں۔۔اپنی کسی
خوبی پر اترانے سے ہمیشہ پرہیز کریں ۔۔۔ پھر خالد عبّاس بابر صاحب نصاب میں
شامل ایک سبق " riding a bicycle" کے حوالے سے سائیکل کی سواری کی افادیت
اور فوائد گنواتے رہے ۔۔اور ساتھ ہی معمولی سے پنکچر کی وجہ سے سواری کا
بیکار ہو جانا ۔۔۔اور مجھے بہت دکھی دل سے کہنے لگے یار ! ہم ان چھوٹے
چھوٹے پیشہ ور لوگوں کا صحیح طور پر شکریہ بھی ادا نہیں کرتے ۔۔اگر یہ شخص
بر وقت پنکچر نہ لگاتا تو ایک چھوٹی سی خرابی کے ساتھ ہمیں کتنی تکلیف کا
سامنا کرنا پڑے۔.وہ ہر معمولی کاریگر کو بھی اپنے فن کا بادشاہ گردانتے تھے
اور بھر پور طریقے سے کسی بھی پیشہ ور کاریگر کو کھل کر داد دیتے تھے ۔۔۔ان
کا کہنا تھا کہ کبھی کسی کے کام کی ستائش کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا
چاہیے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔پھر استاد محترم نے جس انداز سے اس پنکچر لگانے والے کو اس
کی اجرت کے ساتھ اس کی اپنی طرف بھر پور توجہ مبذول کرا کے جس عقیدت سے
سلیوٹ کیا ۔۔۔۔۔مجھے ان کے دائیں ہاتھ کا وہ "سلیوٹ " آج تک نہیں بھولا
۔۔۔۔۔۔عظمت انسان اور انسانوں سے پیار کی بہت سی مثالیں ہیں جو خالد عباس
بابر صاحب کے حوالے سے ذہن پر نقش ہیں ۔۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی محبّت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،ایک
دفعہ خالد عبّاس بابر میرے دفتر آئے اور مجھے کہنے لگے کہ تجھے ایک تحفہ
دینا ہے ، اس کو حرز جان بنائے رکھنا ، اپنے دست مبارک سے لکھ کر دیا اور
فرمایا بیٹا اسے اپنے سامنے شیشے کے نیچے رکھ لو، حضور صل اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی شفاعت نصیب ہو گی ۔(ان شاءاللہ) ۔۔ اور دنیاوی کامیابیاں تمہاری
چشم براہ رہیں گی۔ ۔۔وہ قصیدہ بردہ شریف کا یہ مصرعہ تھا ۔۔۔
ھو الحبیب الذی ترجع شفاعتہ لکل ھول من الاھوال
مقتحمیم ۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میری گفتگو کا موضوع پروفیسر خالد عبّاس بابر کی آفاقی شاعری ہے
۔۔۔۔۔۔بعض لوگوں کو ان کی اس خوبی کا علم نہیں تھا کہ ان کے باطن میں ایک
سخن ور چھپا بیٹھا ہے ۔۔۔۔ خالد عبّاس بابر غزل اور نظم پر برابر دسترس
رکھتے تھے ۔ان کی نظموں اور غزلوں میں جدت فکر ، مضامین کا تنوع اور نیا
اسلوب ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔خالد عبّاس بابر کا مجموعہ کلام " تیشہ تخلیق "کےعنوان
سے 1975 میں جمال پبلی کیشنز لائل پور سے چھپا ۔۔ان کی زیادہ تر نظمیں نثری
ہیں۔ ۔۔ان کو زبان و بیان کے تمام وسائل پر قدرت حاصل ہے۔۔۔ان کی نظم کی سب
سے بڑی خوبی لفظی تصویر کشی ہے ۔۔۔۔۔
خالد عبّاس بابر اب تک مختلف النوع ادبی ، ثقافتی اور تعلیمی مسائل پر
انگریزی اور اردو میں مختلف اخبارات اور رسائل میں اپنے خیالات کا اظہار
کرتے رہتے تھے ۔ علاوہ ازیں یہ بات قابل داد ہے کہ انھوں نے شعر و سخن جیسے
باریک اور مشکل فن کے لیے بھی وقت نکالا ۔۔انگریزی زبان کے با ذوق رفقا
جانتے ہیں کہ " پیام سحر "مجلہ گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں چھپنے والی
طویل نظم "نغمہ روح " کتنی خوبصورت تھی اور اس کی گونج ہر عہد میں سنائی دی
۔۔۔
" تیشہ تخلیق " خالد عبّاس بابر صاحب کا پہلا شعری نقش ہے ۔۔اس مجموعہ کلام
میں نظموں کے علاوہ غزلیں بھی ہیں ۔۔یہ سب بیس پچیس سال پہلے کی شعری
کاوشیں ہیں ۔۔خالد عبّاس بابر بینادی طور پر ایک درویش منش اور صاحب ایمان
شاعر تھے ۔۔وہ دوسروں سے اتنی محبّت کرتے تھے کہ راقم (اظہاراحمد گلزار)
بطور ان کا شاگرد ہوتے ہوۓ اس بات کا صحیح اظہار بھی نہیں کر سکتا ۔۔۔شعر
گوئی کا ملکہ انھیں والدین سے وراثت میں ملا تھا ۔۔ان کے والد گرامی رحمت
علی بہترین آرٹسٹ رہے ہیں ۔اور والدہ کو پنجابی کے ہزاروں اشعار زبانی یاد
تھے ۔۔خالد عبّاس بابر کو شعر کہنے میں کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ، یہ تو
اہل فن ہی بتا سکیں گے ۔
مختلف تقریبات اور مواقع پر احباب ان سے ان کے دبنگ لہجہ سے ان کا کلام سن
کر محظوظ ہوتے رہتے تھے لیکن انھیں اپنے اس کلام کو شائع کرنے کا خیال کبھی
نہ گزرا ۔۔اس لیے ان کا مسودہ ، سالہا سال تک بے ترتیبی میں دیگر فائلوں
میں پڑا رہا ۔۔اس کو یکجا کرنا اور پھر اس کا انتخاب سب سے اہم کام تھا
،۔کچھ عرصہ کے لیے ان کا مجموعہ کلام کے اشاعتی پروگرام سے ٹاطہ تو ضرور
منقطع۔ ہو گیا مگر ایم - اے سطح پر تنقیدی تدریس سے انھیں اپنے کلام کو
جانچنے میں بے حد مدد ملی ۔۔۔وقت بہتا رہا ۔۔۔۔۔
شہر فیصل آباد کے ممتاز ادیب ، محقق ، نقاد اور منجھے ہوۓ استاد پروفیسر
ڈاکٹر شببر احمد قادری ، جو خالد عبّاس بابر صاحب کے حلقہ تلامذہ میں شامل
ہیں ۔۔وہ اپنے استاد پروفیسر خالد عباس بابر کے بارے میں یوں خامہ فرسائی
کرتے ہیں کہ
""پروفیسر خالد عباس بابر مرحوم گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں انگریزی کے
استاد تھے بہت محترم استاد، انٹر اور بی اے مجھے انگریزی مضمون پروفیسر
رفیق احمد ڈوگر صاحب ،پروفیسر عزت علی بیگ صاحب اور پروفیسر خالد عباس بابر
صاحب سے پڑھنے کا موقع ملا ،تینوں بہت شفیق اور قابل استاد تھے ۔
خالد عباس بابر صاحب دراز قد خوبصورت آدمی تھا۔بلند آہنگ بھی تھے ، اوراد و
وظائف خود بھی پڑھتے اور طالب علموں میں بھی تقسیم کرتے۔ ایک تعویز امتحان
میں کامیابی کے لیے مجھے بھی عطا کیا ،الفتح گراٶنڈ پیپلز کالونی نمبر ایک
کے قریب رہتے تھے ، مجھے ان کے دولت کدے پر بھی حاضر ہونے کی سعادت حاصل
رہی ، ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں نہ صرف دلچسپی تھی بلکہ اس سے مریضوں کا
علاج بھی کرتے ،کلینک گھر میں ہی بنا رکھا تھا ،
انھوں نے بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی مگر ستم یہ کہ وہ
یونورسٹی جعلی ثابت ہوٸ ۔اس واقعہ کا انھوں نے گہرا اثر لیا ، اور اپنے نام
سے پہلے ڈاکٹر لکھنا ترک کر دیا ۔
خالد عباس بابر صاحب اردو اور انگریزی کے شاعر بھی تھے ،اردو شاعری میں ان
کا ایک مجموعہ" تیشہ تخلیق " تھا۔۔اس مجموعے کا ایک نسخہ اپنے دستخط کے
ساتھ مجھے بھی عنایت کیا تھا ،یہ مجموعہ میرے ذاتی کتب خانے کی زینت ہے"
خواجہ عتیق الرحمان نظامی ان کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔"
انھوں نے شوقیہ ایم اے سیاسیات بھی کیا تھا
1996 ہمارا مشترکہ متحانی مرکز بالائی منزل سائنس کالج فیصل آباد تھا
۔ہومیوپیتھی اور ادبیات پر مفصل گفتگو رہتی تھی۔شاید اس شعبے کے ڈاکٹر بھی
تھے
نہایت ملنسار، پیکر اخلاص علمی شخصیت رہے ۔
ایک پنجاب نظم غالبا ً انھی کی ہے روشنی کالج جریدے میں چھپی تھی
علم دی گڈی
چن تک اڑی
اڈدی جاوے
ہتھ نا آوے
ممتاز شاعر اور دانشور شفقت اللہ مشتاق ان کو خراج تحسین یوں پیش کرتے ہیں
۔"خالد عباس بابر صاحب ایک عظیم استاد اور دانشور تھے۔ ان کا درس دینے کا
ایک منفرد انداز تھا۔ وسیع المطالعہ کے حامل وہ ایسے استاد تھے جو طلبا کو
غور وفکر کرنے پر مجبور کردیتے تھے۔ طلبا کو سوچنے پر مجبور کرنا ہی درس و
تدریس کی اصل غرض وغایت ہوتی ہے۔"
استاد ،اپنے طالبِ علموں کے لیے اپنی شخصیت اور علم و فضل کی بدولت مثالی
نمونہ ہوتے ہیں ، خالد صاحب کو میں کبھی بھول نہیں پایا ،کسی رکھ رکھاٶ کے
بغیر طالب علم کی ذہنی سطح کے مطابق شفقت آمیز اور میٹھے لہجے میں باتیں
کرنا انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا،ایک من موہنی مسکرہٹ ان کے گورے چٹے
چہرے پر رقصاں رہتی تھی ۔اللہ کریم میرے اس عظیم استادِ گرامی کے درجات
بلند فرماۓ ۔آمین ثم آمین،""
نمونہ
۔۔€ میری تنہائیاں میری دم ساز ہیں
بحر کی وسعتیں میری ہم راز ہیں
خالد عبّاس بابر کی نظموں میں قومی اور ملی تصورات کی جلوہ گری اور امت
مسلمہ کے فکر و عمل کے تضادات کی بازی گری ہے ۔۔ان کی نظموں میں مسلمانوں
کی عظمت رفتہ کی باز گشت اور اسلام کے پیغام کی دعوت ہے ۔۔عمل اور حرکت کا
درس ہے ۔۔وطن کی محبّت یوں جھلکتی ہے ۔۔
اے میری خاک وطن ، تیری بہاروں کو سلام
تیری ناموس کے گل رنگ چناروں کو سلام
خالد عبّاس بابر فیصل آباد کے ایک معروف شاعر تھے ۔۔ان کی مقبولیت اور شہرت
کی بنیادی وجہ غزل اور نظم ہے ۔۔انھوں نے دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے
۔۔ان کی کچھ نظمیں قومی نوعیت کی بھی ہیں ۔۔ان کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی
واقفیت اور زبان کی سلاست ہے ۔۔۔خالد عبّاس بابر نے اپنے کلام میں طویل اور
مختصر دونوں قسم کی بحریں استعمال کی ہیں ۔۔وہ الفاظ کو اس طرح باہم ملاتا
ہے کہ ترنم اور موسیقی کا احساس ہوتا ہے ۔۔۔ان کے ہاں ایسے الفاظ کا
استعمال ہے جو صوتی اعتبار سے بڑے مترنم اور کھنکتے محسوس ہوتے ہیں ۔الفاظ
کے زیرو بم پر خالد عبّاس بابر کی نظر خاص طور پر رہتی ہے ۔۔ ڈھیلے
ڈھالےاور اکھڑے اکھڑے الفاظ اس کے انتخاب میں نہیں آتے ۔۔۔ان کی نگاہیں صرف
اسی عالم قدس کے روح پرور مناظر کی ادا شناس ہیں جہاں بجز ایک لازوال تاثر
، ایک ابدی لذت ، ایک جان فروز تجلی ، ایک نشاط آفریں رقص ،ایک دلگداز ذوق
،ایک آتش فشاں وجد کے سوا اور کوئی سماں نظر نہیں آتا ۔۔۔۔ان کی شاعری کی
ابدی گونج ہر عہد میں سنائی دیتی رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ مضبوط آوازیں کبھی
ختم نہیں ہوتیں بلکہ زمانے میں صحیفہ شاعری پر اپنے ابدی نقوش چھوڑ جاتی
ہیں ۔۔
اللہ کریم نے استاد محترم پروفیسر خالد عباس بابر کو اطاعت خداوندی ،ضبط
نفس ،تحمل ،بردباری اور توازن کی فراواں دولت عطا کی تھی ان کے ذوق سلیم
اور عمدہ صفات کا ایک عالم معترف تھا ۔زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ میں
انھوں نے گہری دلچسپی لی ۔انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے وہ قلم کی
حرمت پر اصرار کرتے تھے ۔ایک نکتہ طراز نقاد کی حیثیت سے انھوں نے نہ صرف
ادب کی اہمیت اور افادیت کو نہایت خلوص کے ساتھ اجاگر کیا بلکہ ادیب کی عزت
نفس،اور قدر و منزلت اور معاشرتی حیثیت کو تسلیم کرنے کی جانب توجہ دلائی
۔جذبہء انسانیت نوازی کا جو بلند معیار ان کی شخصیت میں موجود تھا وہ
موجودہ زمانے میں عنقا ہے ۔وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انساں کے ساتھ والہانہ
محبت اور قلبی وابستگی ان کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف تھا۔اپنی تحریروں
میں وہ ارتباط و تعمیم کی ایک مسحور کن دلکش فضا پیدا کر لیتے تھے۔ جب وہ
اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو پیرایہء اظہار عطا کرتے تو
قاری ان کے اسلوب کا گرویدہ ہو جاتا۔اسے یہ محسوس ہوتا کہ یہ سب کچھ تو
گویا پہلے سے اس کے دل میں موجود تھا۔فکر و نظر کی صحیح سمت،حق گوئی و بے
باکی تخیلات کی تونگری ،مشاہدات کی ندرت ،اسلوب کی انفرادیت اور مقاصد کی
حکمت کے حسین امتزاج سے وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ۔اس طرح ان کی تحریریں
روح کی تفسیریں بن کرسامنے آتیں اور پتھروں کو بھی موم کر دیتیں ۔ان کے
تمام معمولات ،قول و فعل اور گفتار و کردار میں ان کی شخصیت کے دھنک رنگ
پہلو صاف دکھائی دیتے تھے ۔
عادات اور ارادی اعمال کی تنظیم وہ اس انداز میں کرتے کہ سیرت اور کردار
میں نکھار پیدا ہو جاتا۔ان کا خیال تھا کہ وہ تمام عادات و افعال جو آغاز
کار کے وقت شعوری اور اختیاری صورت میں رو بہ عمل لائے جاتے ہیں بالآخر
وہی انسان کی سیرت اور کردار کے روپ میں جلوہ گر ہو کر اس کی شناخت کا
وسیلہ بن جاتے ہیں سیرت کو وہ کردار کے باطنی پہلو کا نام دیتے تھے ۔سیرت
اور کردار کی تعمیر میں وہ معاشرے اور سماج کو بہت اہم خیال کرتے تھے ۔یہی
وجہ ہے کہ وہ حلقہء احباب کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے ۔ان کی
پہچان ان کی صحبت سے کی جا سکتی ہے ۔ان کے حلقہء احباب میں دنیا کے ممتاز
ادیب ،دانشور ،نقاد ،محقق اور فلسفی شامل تھے ۔وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے
کہ ثبوت اور ناقدانہ بصیرت کے ذریعے فرد کی عدم شناخت کا مسئلہ حل ہو سکتا
ہے ۔انھوں نے زمانہ حال اور ماضی کے اہم واقعات اور نشانیوں کو بہت اہم
گردانتے ہوئے ان کے تحفظ کی تلقین کی ۔ان کی تحریریں جہاں تک مواد کا تعلق
ہے ،اجتماعی نوعیت کی ہیں مگر تخلیقی اسلوب کے لحاظ سے ان کی انفرادیت
مسلمہ ہے ۔ان کی شخصیت کا ایک واضح پرتو ان کے اسلوب میں پرتو فگن ہے جو
انھیں اپنے معاصر اہل قلم سے ممیز کرتا ہے ۔وہ جابر سلطان کے سامنے کلمہء
حق کہنا اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے تھے ۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر
پیش کرنا اور کسی مصلحت کے تحت کلمہء حق ادا کرنے سے گریز کرنا ان کے نزدیک
منافقت اور
ریاکاری کی قبیح مثال ہے ۔ظلم کو برداشت کرنا اور اس کے خلاف احتجاج نہ
کرنا ان کے نزدیک بہت اہانت آمیز رویہ ہے ۔اپنی تمام زندگی میں انھوں نے
کبھی کسی باب رعایت سے داخل ہونے کی کوشش نہ کی ۔وہ میرٹ کے زبردست حامی
تھے ۔انھوں نے تعلیمی زندگی میں میرٹ کی بالا دستی کو یقینی بنانے کی مقدور
بھر کوشش کی اور کبھی کسی سفارش یا پرچی پر دھیان نہ دیا۔اب دنیا میں ایسی
ہستیاں کہاں ؟
موت کے جانکاہ صدمے اور اس کے نا قابل اندمال چرکے ازل سے انسان کے مقدر
میں لکھ دیے گئے ہیں ۔موت سے بھلا کس کو رستگاری ہے آج وہ تو اس کے بعد کل
ہماری باری ہے ۔یاں تو سب یار کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔رخش
عمر مسلسل رو میں ہے ،کسی کو کیا معلوم کہ یہ کہاں تھمے گا ؟انسان کا نہ تو
ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی پا رکاب میں ہے ۔بنی نوع انساں کے مقدر میں یہ
روح فرسا المیہ لوح محفوظ پر لکھ دیا گیا ہے کہ تمام نفوس فنا کی زد میں آ
کر رہیں گے اور بقا صرف اللہ کریم کی ذات کو ہے ۔یہ معمہ ایسا ہے جو نہ
سمجھ میں آتاہے اور نہ ہی کوئی دانائے راز اس کی گرہ کشائی کر سکا ہے کہ
وہ لوگ جو سفاک ظلمتوں میں ستارہء سحر کے مانند ضوفشاں رہتے ہیں ،جن کا
وجود انسانیت کی فلاح ، مسرت اور وقار کے لیے عطیہ ء خداوندی ہوتا ہے ،جن
کی زندگی کا مقصد درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت کرنا ہوتا ہے ،جو ایک شجر
سایہ دار کے مانند ہوتے ہیں کہ خود سورج کی جھلسا دینے والی گرمی برداشت
کرتے ہیں مگر دکھی انسانیت کو خنک چھاؤں فراہم کرتے ہیں اچانک اور وقت سے
پہلے ہم ان کی رفاقت سے کیوں محروم ہو جاتے ہیں ۔اجل کے ہاتھ ایسے عطر بیز
گلستانوں کو ویران کیوں کر دیتے ہیں ۔پروفیسر خالد عباس بابر کی وفات نے دل
دہلا دیا ،مایوسی اور محرومی کی جان لیوا کیفیت میں کوئی امید بر نہیں آتی
اور نہ ہی جانگسل تنہائی کی عقوبت سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے
۔زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ کی تفہیم پر کون قادر ہے ۔ فرشتہ ء اجل
ان چارہ گروں اور مسیحا صفت لوگوں کو ہم سے مستقل طور پر جدا کر دیتا ہے
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے وہ ہمیں دائمی مفارقت دے کر ہمیں اس دھوپ بھری
دنیا میں بے یار و مددگار چھوڑ کر کر چلے جاتے ہیں ۔ اور اس کے بعد گل چین
ازل ہمیں ان کی دائمی مفارقت دے کر آہوں ،آنسوؤں اور سسکیوں کی بھینٹ
چڑھا دیتا ہے ۔اس وقت جب کہ ہم اپنے ایک عظیم استاد سے محروم ہو چکے ہیں
ہماری بے بسی اور بے چارگی کا احساس کون کرے گا اور کون یہ کیفیت دیکھے
گا۔۔۔۔۔بقول نور محمد نور کپور تھلوی !
ہیں سب نور ہم منتظر اس گھڑی کے
کسے موت سے اس جہاں میں مفر ہے
_______ __________________________
چن جہیاں صورتاں نوں مٹی نے لکا لیا
جت دی اے موت جہنے ساریاں نوں ڈھا لیا
|