یہ عنوان محترم حکیم طارق محمود
صاحب کی مایہ ناز کتاب ”طبی تجربات اور مشاہدات“ صفحہ نمبر 138 پر ہے اس
مضمون میں یورپ کے مشہور ڈاکٹر پروفیسر ٹیمر کا حوالہ دیتے ہیں کھانا کھاؤ
لیکن اس کے ساتھ یا بعد پانی نہ پیو۔ پیٹ میں کھانے اور پانی کی جنگ میں تم
ہی قتل ہوگے‘ کھانے کے بعد پانی جتنا صحت کو نقصان دیتا ہے اتنا کھانے کے
بعد زہر کھالیا جائے تو وہ اتنا نقصان نہیں دے گا جتنا پانی۔ فرق صرف یہ ہے
زہر فوری خاتمہ کرتا ہے پانی آہستہ آہستہ مختلف امراض کی شکل میں۔ کتب
احادیث میں کھانے کا تفصیلی ذکر ہے۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا
کھانا گرم گرم نہ کھائیں‘ جب بالکل ہلکا گرم ہوتب کھائیں‘ ٹھنڈے کھانے میں
برکت ہے اور کم کھایا جاتا ہے۔ پلیٹ کے درمیان میں برکت نہیں ہوتی ہے اس
لیے کناروں سے کھائیں لیکن حضرت انسان عقلی دلیل بھی مانگتا ہے۔ اس کی
مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
نوالہ منہ میں رکھتے ہی ہاضمہ کا عمل شروع ہوجاتا ہے منہ میں تین بڑے اور
لاتعداد چھوٹے چھوٹے غدود ہوتے ہیں جب ہم کھانا نہیں کھاتے تب بھی یہ کام
کررہے ہوتے ہیں۔ منہ کو جراثیم سے پاک کررہے ہوتے ہیں اور جو جراثیم تھوک
سے ختم نہیں ہوتے لیکن تھوک کے اثر سے کمزور ضرور ہوجاتے ہیں معدہ میں جاکر
معدہ کے تیزاب سے مر جاتے ہیں۔ ہماری خوراک جو مختلف قسم کے جراثیم گردو
غبار‘ فضائی آلودگی‘ خراب چکنائی میں پکے ہوئے کھانوں سے تیار ہوتی ہے۔
قدرت نے ان جراثیم کو تھوک (انسانی لعاب) کے ذریعہ دھونے کے عمل سے انتظام
کررکھا ہے یہ اس طرح ہی سمجھیں جیسے گاڑی سروس اسٹیشن میں دھونے کے بعد صاف
ستھری ہوجاتی ہے۔ اس طرح تھوک غذا کے جراثیم کو دھوتا ہے تھوک ایک طرف ان
جراثیم سے جنگ کرتا ہے ساتھ ساتھ غذا کو نرم کرتا ہے اور ہاضم جوس بھی مہیا
کرتا ہے۔ غذا آسانی سے معدہ میں جاتی ہے اس طرح معدہ اپنا کام آسانی سے
کرتا ہے۔ وہ اس صورت میں جب نوالہ چھوٹا ہو اور اچھی طرح چبایا جائے لیکن
ہم اس کے الٹ کرتے ہیں بڑے بڑے نوالے‘ کم چبانا‘ جلدی جلدی کھانا اس طرح
کھانا گلے میں پھنس جاتا ہے۔ پھر پانی یا سوفٹ ڈرنکس کی ضرورت پڑتی ہے۔ کم
چبانے کی وجہ سے غذا کے ساتھ ہاضم جوس بھی کم ہوجاتے ہیں اور جراثیم سے
بھرپور کھانا معدہ میں چلا جاتا ہے۔ معدہ میں غذا تقریباً 30 منٹ سے 4
گھنٹے تک رہتی ہے جب ہم غذا کے ساتھ پانی کا استعمال کرتے ہیں معدہ کا
تیزاب پتلا ہوجاتا ہے یعنی اس کا اثر کم ہوجاتا ہے۔ معدہ میں تیزاب کاکام
غذا کو گلانا یا سڑانا نہیں بلکہ جسم کیلئے انرجی‘ گلوکوز پروٹین میں تبدیل
کرنا ہے جب غذا معدہ سے انتڑیوں میں جاتی ہے تو جگر سے بھی جوس غذا میں
شامل ہوتے ہیں۔
یہ جوس اکھٹے ہوکر غذا کو جسم کیلئے مختلف حالتوں کو بدلنے میں مدد دیتے
ہیں اور غذا کے جذب کرنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ غذا کی اچھی شکل انتڑیوں
میں جذب ہوجاتی ہے باقی فضلہ باہر نکل جاتا ہے۔ ہم جب غذا کے ساتھ پانی
پیتے ہیں تو تیزاب پتلا ہونے سے معدہ میں سٹرائڈ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اس
سے بے شمار بیماریاں جنم لیتی ہیں جسم میں عموماً دو قسم کی گیس بنتی ہے۔
سلفر ڈائی آکسائیڈ‘ میتھائیل مرکرٹیان۔ یہ گیسیں نہایت بدبودار ہوتی ہیں اس
کی بدبو کی وجہ سے اسے قدرتی گیس (سوئی گیس) میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ اگر
کہیں گیس لیک ہورہی ہے تو فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ جب یہ گیس جسم میں بننا
شروع ہوجائے قبض یا آنتوں کی خرابی (بادی بواسیر یا خونی بواسیر) کی وجہ سے
باہر نہیں نکلتی تو یہ بھی غذا کے ساتھ آنتوں میں جذب ہوجاتی ہے۔ پھر خون
میں شامل ہوکر جسم میں گردش کرتی ہے جسم کا جو حصہ کمزور ہوتا ہے وہاں ڈیرہ
ڈال دیتی ہے۔ مثلاً دل کی طرف رخ کرے توتمام علامات دل کے امراض جیسی پیدا
کرتی ہے۔ حالانکہ بندہ دل کا مریض نہیں ہوتا۔ مریض فوراً ماہر امراض دل کی
طرف بھاگتے ہیں اچھا معالج تشخیص سے پتا چلاتا ہے اصل درد دل ہے یا گیس کی
کارستانی ہے۔ اس طرح درد گردہ‘ سر کا درد‘ گھبراہٹ دماغ میں چڑھنا وغیرہ
وغیرہ ۔حاصل کلام یہ ہے کھانے کے ساتھ جتنا تیزاب ہمیں درکار ہوتا ہے کھانے
کے ساتھ پانی پینے سے تیزاب ہلکا ہوتا ہے جس سے غذا مکمل حالت میں ہضم نہیں
ہوتی مختلف امراض جنم لیتے ہیں مرض کا باپ کوئی بھی ہو لیکن خراب غذا اس کی
ماں ضرور ہے۔ (جارج ہربڑٹ)
کھانے کے ساتھ سوفٹ ڈرنکس کا استعمال بھی مختلف امراض پیدا کرتا ہے خصوصاً
بچوں میں ہڈیوں کی مخصوص بیماری اوسٹیو پوروس (ہڈیوں کا گھلنا) میں مبتلا
ہوتے ہیں۔
البتہ جو لوگ کھانے میں لال مرچ کا استعمال بے حد کرتے ہیں ان کیلئے پانی
کھانے کے ساتھ ضروری ہے۔ سرخ مرچ پسی ہوئی جسم میں اسی حساب سے تیزابیت بھی
پیدا کرتی ہے یعنی جتنی مرچ تیز ہوگی اتنی ہی تیزابیت زیادہ ہوگی۔ سب سے
زیادہ نقصان پسی ہوئی لال مرچ کرتی ہے اس سے کم لال مرچ یا ہری مرچ تازہ
کرتی ہے۔ سب سے کم کالی مرچ کرتی ہے مہنگی تو ہے لیکن صحت سے مہنگی نہیں
ہے۔
انسانی معدہ ایک ہی وقت میں دو مختلف مزاج کی غذاکو ہضم نہیں کرتا اور سخت
ردعمل ظاہر کرتا ہے مثلاً مچھلی کے ساتھ دودھ‘ مرغ کے ساتھ مولی‘ چاولوں کے
ساتھ سرکہ اچار وغیرہ‘ عبقری 2011ءمیں ایک قاری نے کافی چیزوں کے متعلق
لکھا ہے عبقری کے شمارے میں کسی خط پر محترم حکیم صاحب نے لکھا ہے کہ علامہ
اقبال رحمة اللہ علیہ کا مزاج بلغمی تھا آپ سویاں کے ساتھ دہی کے شوقین
تھے۔ گرم کھانے کے ساتھ دہی کا استعمال اچھا نہیں تھا جس سے آپ کا گلا خراب
ہوگیا اس وقت حکیم نابینا دھلوی نے آپ کو سردا کھانے کا مشورہ دیا۔
گرم روٹی یا گرم گرم چاولوں کے ساتھ دہی میں فائدہ مند بیکٹیریا مر جاتے
ہیں ترشی بڑھ جاتی ہے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے۔ ایک کہاوت ہے: جو شخص
دوا کھاتا ہے لیکن غذا کا خیال نہیں رکھتا وہ اپنے معالج کی قابلیت کو خاک
میں ملا دیتا ہے۔ |