چند سال قبل پاکستان میں برڈ فلو کے بارے
میں میڈیا پر ایسی تشہیری مہم جوئی کی گئی کہ یوں لگتا تھا کہ بس اب ہر
پاکستانی کے دن گنے جا چکے اور برڈ فلوایک ایسا موذی مر ض ہے کہ آن کی آن
میں پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ بہت عرصے تک میڈیا پر اس مرض
کے بارے میں شور و غوغا کیا جاتا رہا ۔اسی شورو غل کے بیچ میں اس وقت کے
وزیر صحت کی تشہیری ایڈورٹائزنگ بھی سامنے آئی کہ پاکستان میں برڈ فلو
انسانی جان کے لیے خطر ہ نہیں اور نہ ہی آگ پر پکائے جانے کے بعد برڈ فلو
کے وائرس مرغی کے گوشت میں رہتے ہیں ۔وزیر صحت کی اس ایڈورٹائزنگ، جس میں
وہ خود بھی چکن کھاتے ہوئے دکھائی دیے ، کا عوام پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ
ہو ا کیوں کہ عوام کو میڈیا کے ذریعے اتنا ڈرا دیا گیا تھا کہ صرف
دارلحکومت پاکستان کی مارکیٹوں میں پچیس روپے کلو مرغی کا گوشت بیچا جا رہا
تھا اور خریدنے والے لوگ ناپید تھے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں برڈ فلو کے جودو وائرسH7N3 اور H9N2موجود تھے ان سے
صرف مرغیاں اور دیگر پرندے متا ثر ہوئے تھے جبکہ انسانی جان کو برڈ فلو کے
ان دونوں وائرسوں سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا یہی نہیں کھانا پکالینے
کے بعد کسی قسم کے وائرس کا کوئی اندیشہ نہیں رہتا تھا مگر اس کے باوجود
عوام الناس کو اتنا ہراساں کر دیا گیا کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی
یہ آسان فہم منطق سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں مچھر کے کاٹنے سے ایک اور بیماری جسے ڈینگی
کا نام دیا گیا ہے ۔ اس بیماری نے صوبہ پنجاب اور کراچی میں بڑے پیمانے پر
عوام الناس کو متا ثر کیا ہے۔ بی بی سی کی معلومات کے مطابق اب تک صوبہ
پنجاب میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ان
چار ہزار مریضوں میں سے تین ہزار پانچ سو تہتر افراد کا تعلق صوبائی
دارلحکومت لاہور سے ہے ۔ یاد رہے کہ اس موذی مرض سے ہلاک ہونے والوں میں
پنجاب کے سیکرٹری معدنیات عطا اللہ صدیقی سمیت آٹھ افراد بھی شامل ہیں ۔
تاحال اس آسمانی آفت پر قابو نہیں پایا جا سکا اوراس وائرس کی وجہ سے
متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کے آنے والے دو یا تین ماہ میں ڈینگی مچھر کی
تعداد کم ہوتے ہوتے دسمبر تک اس مچھر کی افزائش نسل مکمل طور پرختم ہوجائے
گی مگرطبی ماہرین کے مطابق ڈینگی وائرس کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں
کانگو وائرس کے پھیلنے کا اندیشہ بھی ہے کیوں کہ اگلے ایک دوماہ کے دوران
عید قرباں کے موقع پر دور دراز علاقوں سے بھیڑ بکریوں کے بیوپاری شہروں کا
رخ کرتے ہیں اوراس موقع پر اپنے جانور فروخت کرتے ہیں۔ کانگو وائرس دراصل
بھیڑ بکریوں کی بیماری ہے جو بھیڑ بکریوں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے
۔بھیڑ بکریوں کے اجسام میں ایک خاص قسم کا کیڑا، جسے پسو یا ٹک(Tick) کہتے
ہیںموجود ہوتا ہے یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا پسو سے متاثرہ جانور ذبح
کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس
انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ کانگو وائرس کوئی نئی بیماری نہیں بلکہ
پاکستان میں سال ۲۰۰۲ ءمیں کانگو وائرس کی وجہ سے سات افراد لقمہ اجل بنے
تھے اور اس وائرس کی۲۰۰۲ءمیں جس طرح سے تشہیر عام کی گئی تھی اس نے عام
شہریوں سمیت ڈاکٹروں اور نرسوں میں بھی شدید خوف وہراس پھیلا دیا۔
اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومت پنجاب انتہائی جان فشانی سے اس قدرتی آفت سے
نبردآزما ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں اور صحافیوں کی موقع پرستی کی پرانی
عادت اسی طور قائم و دائم ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب نے اس بیماری کے حملے کے
بعد سے اب تک ڈینگی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے لاہور کے کئی
ہسپتالوں کے نہ صرف دورہ جات کیے اور ان کی بے جا تشہیر بھی کروائی جس پر
لاکھوں روپے کی لاگت ہی نہیں آئی بلکہ ان کی آمد کے انتظامات کرنے کے لیے
ہسپتال کے عملے نے ڈینگی کے مریضوں پر توجہ کرنے کے بجائے وزیر اعلٰی کے
پروٹوکول کی تیاروں میں قیمتی وقت ضائع کیا۔ وزیر اعلٰی کی جانب سے مستعدی
اور ان کی میڈیا پر تشہیرہ مہم کو دیکھتے ہوئے حکمران جماعت پی پی پی کے
وزیر اعظم نے بھی قومی صحت کانفرنس طلب کر لی جس پر قائد حزب انقلاب رضا
ربانی نے اظہار رائے کرتے ہوئے اس اقدام کو سرے سے ہی غیر آئینی اقدام قرار
دے دیا۔ یہ کانفرنس اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس لاہور میں منعقدکی گئی جس کی صدارت
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کی اور اس کانفرنس میں وزیر اعلٰی شہباز شریف
بھی اپنی تمام تر مصروفیات اور ہسپتالوں کے ہنگامی دورے ترک کر کے شریک
ہوئے ۔ اس کانفرنس میں نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ کے عملے نے بھی شرکت کی اور
دیگر متعلقہ اداروں کے افراد بھی سیاست دانوں کے ہمراہ اپنے اپنے اداروں کی
جانب سے نمائندگی کی اور میڈیا کی تشہیری مہم میں اہم کردار ادا کیا۔
جب سے ڈینگی وائرس نے صوبہ پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں حملہ کیا
ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جہاں اس وائرس کے خاتمے اور
متاثرین کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کی جا رہی
ہیں وہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قدرتی آفت کے ذریعے دونوں سیاسی جماعتیں
عوام دوستی اور انسانی ہمدردی میں ایک دوسرے پرفوقیت لینے کے لیے اخبارات
کے سرورق پر اپنے اپنے اقدامات کی تشہیر کر رہی ہیں۔ان اخبارات میں پورے
پورے صفحوں پر مشتمل اشتہارات سے عوام سیاسی جماعت کی انسانیت پرستی اور
عوام دوستی سے متاثر ہوں یا نہ ہوں ان اشتہارات نے عام عوام اور خواص کے دل
میں اس وائرس کا اتنا خوف پیدا کر دیا ہے کہ اگر کسی کوہلکا سا بخار یا
تھکاوٹ بھی محسوس ہو وہ فوراً ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کے چکر لگانے لگتا
ہے۔ پاکستان میں برڈ فلو، ڈینگی بخار، کانگو وائرس اور اس طرح کی تمام
بیماریوں اور آسمانی آفتوں سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں معلومات
کی فراہمی کو سہل اور یقینی ضرور بنایا جائے مگر اس بات کا خیال رہے کہ
غریب اور بے کس عوام کو مصیبت کی اس گھڑی میں کسی قسم کی آزمائش سے دوچار
نہ کیا جائے اور نہ ہی مصیبت کی اس گھڑی میں اپنی سیاست چمکانے کے لیے
اشتہاری مہم جوئی کی جائے ۔ |