غزہ پراسرائیل کا2لاکھ من بارود گراناامت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ

ایوان اقتدارسے

غزہ پراسرائیل نے(2لاکھ من)77 ہزار ٹن بارود گرایا جا چکاہے۔غزہ میں قائم فلسطینی وزارت صحت نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے فلسطینیوں کے اعدادو شمار”اپ ڈیٹ“کیے ہیں۔ چار جون منگل کی صبح تک ہونے والی فلسطینیؤں کی ان ہلاکتوں کی تعداد وزارت صحت کے مطابق 36550 ہو گئی ہے۔یہ تعداد پچھلے تقریبا آٹھ ماہ کے دوران جاری جنگ کے سبب غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق ہے۔ خیال رہے آٹھ ماہ تین دن تک مکمل ہونے جا رہے ہیں۔یہ جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
غزہ کی پٹی میں سرکاری میڈیا کے دفتر نے مسلسل 235ویں دن غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قابض فوج کی طرف سے چھیڑی جانے والی نسل کشی کی جنگ کے اہم ترین اعدادوشمار پر ایک تازہ رپورٹ شائع کی ہے۔انفارمیشن آفس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے جنگ کے آغاز سے اب تک 3,222 اجتماعی قتل عام کیے ہیں اور شہداء اور لاپتہ افراد کی تعداد تقریباً 46,000 تک پہنچ گئی ہے۔
ذیل میں نسل کشی کی جنگ سے متعلق اہم ترین اعدادوشمارپیش کیے جا رہے ہیں۔نسل کشی کے  235 دن میں قابض فوج کے ہاتھوں 3222 قتل عام، 46096 شہید اور لاپتہ، 10000 لاپتہ، 36096 شہداء جو ہسپتالوں میں پہنچے۔ 15328 بچے شہید، 31 قحط کے نتیجے میں شہید ہوئے۔10171 خواتین شہید ہوئیں، طبی عملے کے496 شہداء، سول ڈیفنس کے 69 شہداء، 147 صحافی شہید، 7 ہسپتالوں کے اندر قابض فوج کی طرف سے بنائی گئی اجتماعی قبریں۔
ہسپتالوں کے اندر 7 اجتماعی قبروں سے 520 شہداء برآمد ہوئے۔ 81136 زخمی اور زخمی ہوئے۔ 71 فی صد متاثرین بچے اور خواتین ہیں۔17000 بچے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں سے محروم۔11000 زخمیوں کو آپریشن کرنے کے لیے علاج کے لیے سفر کرنے کی ضرورت ہے۔10000 کینسر کے مریضوں کو موت کا سامنا ہے اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔1095000 نقل مکانی کے نتیجے میں متعدی بیماریوں کا شکار۔نقل مکانی کی وجہ سے وائرل ہیپاٹائٹس انفیکشن کے 20000 کیسز۔صحت کی دیکھ بھال تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے 60000 حاملہ خواتین خطرے میں ہیں۔(350000) دائمی مریضوں کو دواؤں کی کمی کی وجہ سے خطرہ لاحق ہے۔
نسل کشی کی جنگ کے دوران غزہ کی پٹی سے 5000 فلسطینیوں کو قید کیا گیا۔310 محکمہ صحت کے اہلکاروں کی گرفتاری کے کیسز،20 جن صحافیوں کے نام معلوم ہیں ان کی گرفتاری کے مقدمات۔غزہ کی پٹی میں ایک ملین بے گھر افراد دو بار بے گھر۔190 سرکاری ہیڈکوارٹر قابض فوج کی بمباری سے تباہ ہوئیاسرائیلی بمباری میں 109 سکول اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر تباہ۔316 سکول اور یونیورسٹیاں جزوی طور پر تباہ ہو گئیں۔604 مساجد کو قابض فوج نے مکمل طور پر شہید کر دیا گیا۔200 مساجد کو قابض فوج کی طرف سے جزوی طور پر تباہ کر دیا گیا۔3 گرجا گھروں کو قبضے نے نشانہ بنایا اور تباہ کر دیا۔قابض فوج کی بمباری سے 87000مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔قبضے سے ( 297000) ہاؤسنگ یونٹس جزوی طور پر تباہ ہو گئے تھے۔غزہ کی پٹی پر قابض فوج 77 000 ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا گیا۔33 ہسپتالوں کو بمباری سے سروس سے باہر کردیا گیا۔55 صحت کے مراکز جنہیں قبضے نے سروس سے محروم کر دیا۔160 صحت کے اداروں کو قبضے کا نشانہ بنایا گیا۔130 ایمبولینسوں کو قابض نے نشانہ بنا کر تباہ کیا۔206 آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے کے مقامات تباہ۔33 بلین ڈالرغزہ کی پٹی پر تباہی کی جنگ کا براہ راست ابتدائی نقصان ہوا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب حماس کے جنگجو سات اکتوبر کو اسرائیل پر طوفان الاقصیٰ کے نام سے چڑھ دوڑے کہ اسرائیلیوں کو ہلاک کریں اور ہرعمر کے سینکڑوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنائیں تو امریکی صدر جوبائیڈن نے حماس کے حملے کو سنگین برائی کا نام دیتے ہوئے اپنے شدید غصے کا فوری اظہار کیا۔جو بائیڈن جہاز پکڑ کر اسرائیل پہنچے اور اسرائیل سے یہ کہتے ہوئے اپنی ہر طرح کی امداد پیش کرنے کا اعلان کیا کہ یہ اسرائیل کے حق دفاع کے لیے ہے۔ اس موقع پر جو بائیڈن نے یہ بھی کہا اگرخود امریکہ کو اس قسم کے حملے کا سامنا ہوتا تو امریکی جواب بھی تیز، فیصلہ کن اور بہت زبردست ہوتا۔ گویا سات اکتوبر کے حملے کے ساتھ ہی امریکی صدرکا یہ واضح اعلان تھا کہ ”امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے۔“
غزہ پر اسرائیل کی غیر معمولی بمباری کے بعد اسرائیل کے لیے امریکہ کی دل بستہ حمایت میں کمی کا احساس ہوا۔ یہ تاثر تب ابھرا جب غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد بہت اوپر چلی گئی اور امدادی اداروں نے خبر دار کیا کہ غزہ میں پانی، خوراک، ادویات، بجلی اور ایندھن کی شدید کمی ہو چکی ہے۔اس لیے امریکہ نے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی کہ وہ جنگ بندی کے لیے اتفاق کرے۔ نیز یہ کہ غزہ میں زیادہ تعداد میں امدادی گاڑیوں کو آنے دینے کے علاوہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی اسیران کی رہائی کی اجازت دے۔
اسرائیل شروع میں جنگ بندی کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھا، اس کا خیال یہ تھا کہ جنگ بندی کے نتیجے میں حماس اس وقت کو دوبارہ حملوں کی تیاری کے لیے استعمال کرے گا اور اپنا دفاع مستحکم کر لے گا۔ اس کے باوجود اسرائیل کو آگے بڑھ کر جنگ بندی کرنا پڑی۔ کیونکہ اس پر اندرونی دباؤ کے ساتھ ساتھ امریکی دباؤ بھی تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائی جائے۔ جبکہ بیرونی دباؤ میں مغربی ملک بھی شامل تھے۔
صدر جوبائیڈن نے خود کو حماس کے خاتمے کے لیے اسرائیلی حمایت کا پابند بنا رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حماس کا یہ خاتمہ تیزی سے ہو، فیصلہ کن ہو اور زبردست ہو۔ اسرائیل نے فوجی ایکشن جس طرح سے شروع کیا ہے وہ شکوک و شبہات کی زد میں آچکا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جنگ شمالی غزہ سے جنوبی غزہ میں منتقل ہو چکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شہری مسلسل جنگ کی زد میں ہیں۔ اس صورت حال میں جوبائیڈن کو بین الاقوامی اور مقامی دباؤ کا سامنا کرنا ہو گا کہ وہ کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ ان کا دوبارہ الیکشن جیتنے کا امکان بن سکے اور خطرات ٹل جائیں۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 21 Articles with 14166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.