Taxes on Mobile Devices: It’s FBR, Not PTA

(Muhammad Farooq, Islamabad)

Muhammad Farooq

محمد فاروق
پاکستان میں موبائل فونز پرعائد ٹیکسزاور ڈیوٹیز ایک عرصے سے عوامی بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں جہاں ڈیجیٹل سہولیات تیزی سے روزمرہ زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں موبائل فون صرف رابطے کا ذریعہ ہی نہیں رہے بلکہ تعلیم، کاروبار، خریداری اور معلومات تک رسائی کا بنیادی وسیلہ بن چکے ہیں۔ اس وقت ملک میں تقریباً 198ملین موبائل صارفین موجود ہیں، ٹیلی ڈینسٹی 80.10فیصد ہے جبکہ 150ملین سے زائد افراد براڈبینڈ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے میں موبائل فونز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، تاہم ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ موبائل فونز پرعائد ٹیکسزاور ڈیوٹیز کا ذمہ دار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ درحقیقت، موبائل فونز پر تمام ٹیکسزاور ڈیوٹیز ایف بی آر وصول کرتی ہے، جبکہ پی ٹی اے کا اس مالیاتی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ ایف بی آر ہی وہ ادارہ ہے جو موبائل ڈیوائسز پر ٹیکس عائد کرنے، اس کی وضاحت دینے اور اس کی وصولی کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایف بی آر نے کئی قانونی نوٹیفکیشنز جاری کیے ہیں، جن میں ایس آر او 2019/(I)50 2019/(I)51 اور کسٹمز جنرل آرڈر 01آف 2024شامل ہیں۔ جو ان تمام ٹیکسز کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ایف بی آر مختلف ماڈلز اور کیٹیگریز کے لیے وقتاً فوقتاً ٹیکس چارٹس جاری کرتا رہتا ہے، جو ایف بی آر کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوتے ہیں۔ موبائل رجسٹریشن کے دوران جو بھی ادائیگی کی جاتی ہے، وہ براہِ راست ایف بی آر کے اکاو?نٹ میں جمع ہوتی ہے۔
پی ٹی اے پر ٹیکسز کا الزام دینا نہ صرف غلط فہمی کو جنم دیتا ہے بلکہ عوامی بحث کو غلط سمت میں موڑ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی اے نہ تو کوئی ٹیکس عائد کرتا ہے اور نہ ہی کوئی مالی وصولی کرتا ہے۔ پی ٹی اے کا کردار صرف ریگولیٹری ہے، یعنی ٹیلی کام سروسز کی نگرانی، معیار کی جانچ اور صارفین کی شکایات کا ازالہ و رہنمائی تک محدود ہے، نہ کہ ٹیکس وصولی۔ اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے، لیکن عمومی طور پر سوشل میڈیا، مارکیٹوں اور روزمرہ گفتگو میں "پی ٹی اے ٹیکس" جیسی غلط اصطلاح عام طور پر رائج ہو چکی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔
موبائل فونز کی قانونی رجسٹریشن اور ٹیکس ادائیگی کے عمل کو سمجھنے کے لیے ہمیں 2019میں لانچ کیے گئے ڈی آئی آر بی ایس(DIRBS)نظام کو دیکھنا ہوگا۔ یہ نظام ’’ٹیلی کام پالیسی 2015‘‘ کے تحت متعارف کروایا گیا تاکہ پاکستان میں اسمگل شدہ، نان کمپلائینٹ یا جعلی موبائل فونز کو بلاک کیا جا سکے۔ یہ سسٹم GSMA معیارات اور پی ٹی اے کے ٹائپ اپروول اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے۔ DIRBS پی ٹی اے، ایف بی آر، جی ایس ایم اے، موبائل نیٹ ورک آپریٹرز اور صارفین کو ایک خودکار ڈیجیٹل سسٹم کے تحت باہم مربوط کرتا ہے۔ جو رجسٹریشن، تصدیق اور ادائیگی کے تمام مراحل کا احاطہ کرتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے صارفین موبائل فون کی رجسٹریشن (*8484#) یا DIRBSویب پورٹل کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ جب فون کا IMEIنمبر سسٹم میں درج کیا جاتا ہے تو ایف بی آر کی جانب سے مقرر کردہ ٹیکس کے مطابق ایک پیمنٹ سلپ آئی ڈی(PSID)جاری ہوتی ہے۔ صارف یہ رقم براہِ راست بنک کے ذریعے ایف بی آر کو ادا کرتا ہے، اور ادائیگی کی تصدیق کے بعد فون کو وائٹ لسٹ کر کے پاکستانی موبائل نیٹ ورکس پر فعال کر دیا جاتا ہے۔ رجسٹریشن کی حیثیت ایس ایم ایس، ویب سائٹ یا DIRBS ایپ کے ذریعے معلوم کی جا سکتی ہے۔اوورسیز پاکستانیوں کے لیے حکومت نے رجسٹریشن میں سہولت فراہم کرنے کے لیے خصوصی مراعات بھی متعارف کروائی ہیں، جن میں 60دن کے اندر رجسٹریشن پر 10فیصد ٹیکس رعایت اور ہر وزٹ پر فون کی 120دن کے لیے عارضی طور پر مفت رجسٹریشن شامل ہے۔ ان اقدامات سے قانونی درآمدات کو فروغ اور اوورسیز پاکستانیوں کو مدد فراہم کرنا ہے۔ ٹیکس سے متعلق تمام سوالات کے لیے صارفین ایف بی آر ہیلپ لائن 051111772772 یا ای میل[email protected]پر رابطہ کر سکتے ہیںاس پورے عمل میں پی ٹی اے کا کردار تکنیکی معاونت اور رہنمائی تک محدود ہے، پی ٹی اے روزانہ سینکڑوں شہریوں کی رہنمائی اور مسائل کے حل میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ صرف 2024 میں پی ٹی اے کو DIRBS سے متعلق 1,99,722شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 99.9فیصد کا کامیابی سے ازالہ کیا گیا۔ روزانہ اوسطاً 150سے 200شہری پی ٹی اے کے مرکزی دفتر میں رجوع کرتے ہیں۔ رجسٹریشن یا تکنیکی مسائل کے لیے پی ٹی اے کی ہیلپ لائن 080055055 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ پی ٹی اے اپنی خدمات تمام صارفین کو بغیر کسی فیس کے فراہم کررہا ہے۔
پی ٹی اے نہ صرف ایک فعال ریگولیٹری ادارہ ہے بلکہ ملکی موبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ صرف 2024میں 3۔3 کروڑ موبائل فون پاکستان میں تیار کیے گئے جب کہ 2025کے ابتدائی پانچ ماہ میں مزید 12.81ملین فونز مقامی طور پر بنائے گئے۔ اس سے درآمدی انحصار کم ہونے اور خود کفالت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہ پیش رفت مقامی صنعت اور روزگار کے مواقع میں اضافے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔مزید برآں پی ٹی اے کی جانب سے قومی خزانے میں جمع کی گئی رقوم بھی قابل ذکر ہیں، جن میں2021-22میں 112.71ارب روپے‘ 2022-23 میں 99ارب روپے اور2023-24میں 54ارب روپے شامل ہیں۔ یہ تمام آمدن پی ٹی اے کی لائسنس فیس، اسپیکٹرم نیلامی اور دیگر ضوابطی اقدامات سے حاصل ہوئی اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے ملک بھر میں ٹیلی کام سروسز کے معیار کو جانچنے کے لیے باقاعدہ سروے کرتا ہے، اور خراب کارکردگی کی صورت میں لائسنس یافتہ کمپنیوں کو شوکاز نوٹسز اور جرمانے بھی عائد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ‘‘ (PECA)کے تحت آن لائن مواد کی نگرانی، غیر اخلاقی، فحش، نفرت انگیز اور بچوں کے لیے نقصان دہ مواد کو بلاک کرنے جیسے اہم فرائض میں بھی سرگرم عمل ہے۔
اگرچہ موبائل فونز پرعائد ٹیکس اور ڈیوٹیز قومی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں، تاہم ان ٹیکسز کی شرح پر تنقید ایک فطری عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تنقید اور اصلاحات کا رخ درست سمت میں ہو۔ عوامی سطح پر غلط فہمیوں کے بجائے درست معلومات کا فروغ نہایت اہم ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ پرانے یا درمیانے درجے کے فونز پر ٹیکس کم کیا جائے، جس کے لیے GSMA TACڈیٹابیس کے ذریعے ماڈلز کو کیٹیگرائز کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مہنگے فونز پر ٹیکس کی شرح کو متوازن بنا کر قانونی رجسٹریشن کی ترغیب دی جا سکتی ہے اس سے ٹیکس نیٹ بیس میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
عوام‘ میڈیا اور صارفین کو اس فرق کو سمجھنا چاہیے کہ ٹیکس کا ذمہ دار ادارہ ایف بی آر ہے نہ کہ پی ٹی اے۔ پی ٹی اے ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ملک کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی‘معیار اور تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ درست معلومات پر مبنی مکالمہ ہی ملک کو بہتر پالیسی سازی‘ ڈیجیٹل شمولیت اور قانونی درآمدات کی راہ پر ڈال سکتا ہے باشعور شہری ہی بہتر پالیسی اور مضبوط معیشت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔---

 

Muhammad Farooq
About the Author: Muhammad Farooq Read More Articles by Muhammad Farooq: 5 Articles with 2071 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.