کھیلوں میں جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے — سپورٹس پالیسی کی کھلی خلاف ورزیاں
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
صوبہ خیبر پختونخوا میں کھیلوں کی ترقی کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سپورٹس پالیسی کے مطابق کوئی بھی فرد اگر ایک بار ایسوسی ایشن یا کھیلوں کے کسی فورم پر منتخب ہو جائے، تو وہ دوسری بار اسی عہدے پر منتخب نہیں ہو سکتا۔ مگر بدقسمتی سے اس اصول کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔بیشتر سپورٹس ایسوسی ایشنز کو اس پالیسی کی نہ تو پروا ہے اور نہ ہی کوئی ضابطہ اخلاق ان پر لاگو ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ متعدد ایسوسی ایشنز نے انتخابات خفیہ طریقے سے کرائے، جس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکار بھی شریک رہے۔ انتخابات کے بعد اچانک سامنے آنے والی تصاویر سے معلوم ہوا کہ مخصوص افراد دوبارہ انہی عہدوں پر تعینات ہو چکے ہیں، جن پر پہلے بھی وہ براجمان تھے۔
سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی زیادہ تر کھیلوں کی ایسوسی ایشنز پاکستان اسپورٹس بورڈ یا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کسی بھی سرکاری ادارے کیساتھ رجسٹرڈ ہی نہیں۔ اس کے باوجود، وہ خود کو "قومی نمائندے" ظاہر کرتی ہیں اور فنڈز و مراعات حاصل کرتی ہیں۔کھیلوں کی کئی ایسوسی ایشنز ایسے افراد چلا رہے ہیں جو نسل در نسل انہی اداروں سے وابستہ ہیں۔ بعض نے اپنے رشتہ داروں کو عہدوں پر بٹھا رکھا ہے، کچھ خود ہی برسوں سے مختلف حیثیتوں میں سرگرم ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ایسوسی ایشنز میں تو ایک ہی خاندان کے افراد مسلسل کئی برسوں سے اہم ترین عہدوں پر قابض ہیں۔
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور پاکستان سپورٹس بورڈ ان سب خلاف ورزیوں پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ نہ کسی سے پوچھ گچھ، نہ کوئی نوٹس، اور نہ ہی کوئی کارروائی۔"کے پی او" یعنی کھیلو پختونخوا اولمپک جو کہ ایک چھتری تنظیم ہے، نے آج تک کسی بھی ایسوسی ایشن سے یہ پوچھنے کی زحمت تک نہیں کی کہ ان کے انتخابات کب ہوئے؟ اور کیسے وہی لوگ مسلسل ایک ہی عہدے پر قابض ہیں؟ یہی غفلت ادارے کی جانبداری اور بے عملی کو ظاہر کرتی ہے۔
خیبر پختونخوا کے 35 اضلاع میں کھیلوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی اکثر ایسوسی ایشنز درحقیقت صرف پشاور، مردان، نوشہرہ اور چارسدہ تک محدود ہیں۔ انہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو مسلسل اہم کھیلوں کے عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے، جبکہ باقی اضلاع مکمل طور پر نظر انداز ہیں۔بعض ایسوسی ایشنز نے تو انتخابات کرانا بھی گوارا نہیں کیا، لیکن وہ خود کو بدستور "نمائندہ" ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف میڈیا میں سرگرم ہیں بلکہ پالیسی سازی کے عمل میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ غیر جمہوری طرزعمل کھیلوں کے میدان میں شخصی اجارہ داری کا واضح ثبوت ہے۔
پاکستان سپورٹس پالیسی 2005 اور اس کی ترامیم وفاقی حکومت کی National Sports Policy 2005 کے تحت: (Clause 3.7 & 3.8 – Tenure Restriction): "No office-bearer of any National Sports Federation or Association shall hold office for more than two consecutive terms." (Clause 3.9 – Democratic Norms): "Elections must be conducted in a fair, democratic, and transparent manner as per the approved constitution of the federation." (Clause 6.2 – Registration & Recognition): "Only registered and recognized sports bodies shall be eligible for government support, funding or representation." خیبر پختونخوا اسپورٹس پالیسی 2016/2022 Tenure Limits: "No individual shall hold the same office for more than two terms. Democratic transition in leadership is essential for growth of sports." District Representation: "Associations must have genuine representation from a majority of districts to claim provincial status." Mandatory Registration: "Unregistered associations shall not be eligible for grants, recognition, or representation."
قانون کے مطابق دو سے زیادہ بار عہدے پر براجمان رہنا = پالیسی کی صریح خلاف ورزی ہے اسی طر ح غیر رجسٹرڈ ایسوسی ایشنز کا سرکاری سطح پر نمائندگی حاصل کرنا = مفاداتی بدنظمی (maladministration)بغیر شفاف انتخابی عمل کے عہدوں پر قبضہ = جمہوریت کی نفی بھی ہے اور خاندانی اجارہ داری = مفاداتی ٹکراو(conflict of interest) بھی ہے
اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ، کے پی او، یا پاکستان سپورٹس بورڈ ان خلاف ورزیوں پر نوٹس نہیں لیتے، تو یہ بھی غفلت، جانبداری اور پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔یہ صورتِ حال نہ صرف صوبائی کھیلوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ یہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ جمہوری اصول، شفافیت اور میرٹ کو کھیلوں کے نظام میں بری طرح روندا جا رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سپورٹس ادارے صرف نمائشی بیانات کی بجائے عملی اصلاحات کریں۔
#sportspolicy #kpk #2timetenure #sportnews #mojo #kikxnow #digitalcreator #musarratullahjan #event
|