نوجوان کسی قوم کا سب سے قیمتی
اثاثہ اور سرمایہ، اس کا حال اور مستقبل بھی ہوتے ہیں ۔قومی معیشت کا ابھار
اور ملی غیرت کا نشاں بھی سمجھے جاتے ہیں ' ان کی جواں روح اور ولولہ تازہ
انہیں اکساتا ہے کہ وہ نئے جہاں پیدا کریں ' درخشاں مستقبل کے لئے ویران
مگر پرامید آنکھوں میں دیکھے گئے خوابوں کو تعبیر دیں۔ وہ اپنے عزم اور
حوصلے سے ان جہانوں میں پیدا ہونے والے مدوجذر میں ٹھہرائو اور ساکن پانیوں
کی لہروں میں اضطراب اور صفات سیمابی پیدا کریں ' یہ نوجوان اپنے پختہ
ارادوں اور ناقابل تسخیر ولولوں سے ہوائوں ' فضائوں اور خلائوں کو مسخر
کریں ' مہرو ماہ و انجم کو اپنی دسترس میں لائیں ' کرہ ارض کی پہنیائیوں
میں پوشیدہ خزینوں کو اگلوائیں اور قوم کو اقوام عالم کے لئے مینارہ نور
بنائیں ' یہ نوجوان جس شعبے میں بھی جائیں اس کو اپنے علم ' مشاہدہ اور
تجربات کی وہ مہمیز دیں کہ دوسروں کے لئے ایک بے نظیر مثال بن کر رہتی دنیا
تک حیات جاودانی کے ہم نشین ہو جائیں۔
نوجوان اپنے ذہن میں بھی بے شمار خوابوں کے خزینے رکھتے ہیں ' وہ چاہتے ہیں
کہ ان کے ناپختہ خیالات ' نظریات اور قابل عمل فارمولوں کو حیات ابدی و
سرمدی نصیب ہو ' وہ ارباب حل و عقد کی جانب دست تعاون کے طالب ہوتے ہیں۔
فائلوں میں لگے قرطاس پر بکھرے الفاظ کی مالائوں میں پوشیدہ ان کے خیالات و
نظریات اگر زندہ قوم کے ہاتھ لگ جائیں تو وہ دنیائے زندہ کی فاتح اور
ناقابل تسخیر سیاسی ' تمدنی ' سماجی ' اقتصادی ' سائنسی اور دفاعی قوت بن
کر ابھرتی ہے ' یہاں وہ علم و دانش کے چشمے اور جھرنے پھوٹتے ہیں کہ وہ
تخیل کی دنیا کو تعبیر دینے میں کسی تاخیر سے کام نہیں لیتے ' یہاں دانش
گاہیں بانجھ نہیں ہوتیں ' یہاں کے مدارس نوجوان طالبان علم کے وقت کو ضائع
کرنے کے تصور کو بھی گناہ کبیرہ خیال کرتے ہیں ' وہ ایک ایک لمحہ انہیں علم
و آگہی ' دانش و حکمت کی عطائیگی میں صرف کرتے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے
طالبان علم و حکمت کے سروں پر سجنے کے لئے تاج 'جسم پر ریشم و اطلس کے
پہناوے، نشست و برخاست کے لئے تخت طائوس ' ان سے ملاقات کے لئے عصر حاضر کے
حکمران اور ان کے علم و حکمت سے استفادہ کے لئے طالبان حق بے چین و بے قرار
رہتے ہیں۔ مگر جہاں علم و حکمت کو وقت کا زیاں اور دانش گاہوں کو محض ٹائم
پاس کرنے اور دیہاڑی لگانے کا وسیلہ سمجھ لیا جائے ' جس دھرتی پر عیاری و
مکاری کا راج ہو ' ہر خوردوکلاں کا دھیان صرف تجوری بھرنے پر مرکوز ہو تو
دنیا کی کوئی طاقت ' کوئی ذریعہ اور کوئی وسیلہ انہیں پھر قعر مذلت سے
بچانے کا سامان فراہم نہیں کر سکتا… کیوں کہ …اس ملت فاجعہ نے اپنے بے چین
اور کچھ کرنے کے لئے بے قرار شباب کو مایوس کیا ہے ' اسے سیاسی ' اقتصادی
اور سماجی دھوکے ' عیاری اور مکاری کی بھینٹ چڑھا کر اسے باعمل و باکردار
بننے کے بجائے اس کی امیدوں ' تمنائوں اور بے تاب و بے قرار آرزوئوں کا خون
کیا ہے۔
وقت اور زمانہ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ' آج کے وقت اور زمانہ
نے نوجوان کو حالات کے اس میدان حشر میں لاکھڑا کر دیا ہے جہاں ظلم کوچہ و
بازار میں بچے جننے میں مصروف ہے ' گردنیں کاٹی جا رہی ہیں ' خون کے چھٹنے
اڑ رہے ہیں ' جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہے ۔ جہاں مفادات، جذبات و
احساسات مروت سے زندگی کھینچ کھینچ کر نکال رہے ہیں ' ہر گزرنے والا لمحہ
نوجوان کو نئے چیلنجوں سے معرکہ آرائی پر مجبور کر رہا ہے ' کوہ ہندوکش کے
اس پار افغانوں کے دشت و بیابان ہوں یا کوہساروں کی چوٹیاں اور تنگ درے '
جو فاتح عالم سکندر سے لیکر پینٹا گان کے مہاسورمائوں کے پیش قدمی اور ذلت
آمیز شکست کے بھی امین ہیں ' آواز حال سے چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ
تہذیبوں کے تصادم ' اقوام کے ٹکرائو اور عہد حاضر کی سیاسی ' تمدنی '
تہذیبی ' مذہبی' اقتصادی اور دفاعی کشمکش میں وہی فرد اور قوم زندگی کی
جانب لوٹ سکتی ہے جس کے نوجوان تھک ہار کر پناہ گاہیں نہ تلاشیں ' ان کا
نعرہ مستانہ… ہر ملک ملک ما است کہ ملک خدائے ما است… کے سرمدی الفاظ و
معانی کا پیکر ہو ' جس کے نوجوان اتنے پرعزم و پرامید ہوں کہ وہ دشت و
دریائوں کے علاوہ بحر ظلمات میں بھی گھوڑے دوڑانے کی جرأت سے سرشار ہوں '
وہ کسی راون سے خوفزادہ ہوں نہ اہرمن سے لرزاں ' ان کا وژن اور نصب العین
اتنا پاکیزہ ' ارفع ' بلند اور اس کی تعبیر اتنی خوشگوار ہو کہ ظاہراًٰٰ بے
آب و گیاہ اس وادی سیاہ کی طرح… اسے بھی آسماں جھک جھک کر سلام پیش کرنے کے
تمنائی ہوں۔
مذہب ہو یا سماج' دفاع ہو یا اقتصاد ' اس کو رواں رکھنے ' سربلندی عطاء
کرنے اور قومی تشخص کو منوانے کا واحد وسیلہ یہی نوجوان ہیں' دور طفولیت
اور عہید پیری انسان کا آغاز و انجام ہے ' پر یکٹیکل زندگی کا نام ہی عہد
شباب ہے۔ راتوں کے پچھلے پہر عہد جوانی میں کی جانے والی عبادت کو شیوہ
پیغمبری کہا گیا ہے ۔ ورنہ ایک ظالم بھیڑیا اور ایک فرعون زمانہ بھی اپنے
بڑھاپے میں مسجد و مندر و کلیسا کا رخ کر ہی لیا کرتا ہے کیونکہ اس کے پاس
اس کے علاوہ آپشن ہی نہیں بچتا ' انسانی بچہ کیا ' ہر جانور کا بچہ دھیرے
دھیرے طفونیت اور پھر شباب کی طرف بڑھتے ہوئے کس قدر حسین ' پررونق ' معصوم
اور زندہ و پائندہ دلچسپیوں کا باعث ہوتا ہے اور پھر جب یہ شباب میں ڈھلنا
شروع ہوجاتا ہے تو فرزانگی ' بے قراری ' بے تابی اور امنگوں کی سیمابیت اس
کے انگ انگ سے پھوٹ رہی ہوتی ہے۔ ' زندہ ' سنجیدہ اور اپنے مآل سے آگاہ و
بیدار قومیں اپنے اس شباب کو تعمیری ' توصیفی ' علم وفن اور دانش و حکمت کے
پریکٹیکل سانچے میں ڈھالنے کا ایک قابل عمل ' قابل بھروسا اور قابل تحسین
نظام وضع کرتی ہیں ' جہاں ان کے شباب کی فضل گل کو اندیشہ زوال نہیں ہوتا ۔
جہاں کا نوجوان وطن کے وقار کے لئے سرتسلیم خم نہیں کرتا اور دانش و حکمت
کی اسے وہ سرفرازی ملتی ہے کہ اس کی زندگانی اس کے لئے وبال یا جرم نہیں
ہوتی اور نہ ہی اسے مستقبل یہ کچوکے لگاتا ہے کہ اسے اپنی لاش اپنے ہی
کندھوں پر لاد کر شہر خموشاں لے جانی پڑے گی۔
پاکستان نے اپنے نوجوانوں کو بہت کچھ دیا اور دے بھی رہا ہے…اس کے نوجوان
پرعزم و ہمت ہیں …آج وطن کو عالمی خونخوار بھیڑیوں کی طرف سے دھمکیاں مل
رہی ہیں…وطن کے اندر و باہر میرجعفر اور میرصادق سازشوں میں مصروف ہیں…وطن
اپنے نوجوان کو پکار رہا ہے کہ … اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ' پھر دیکھ خدا
کیا کرتا ہے۔ |