پاکستانی ایمبیسیز٬ پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن

 حکیم لقمان ؒ سے منسوب ایک روایت میں تحریر ہے کہ ایک دن ایک گھوڑا جنگی سازوسامان سے لداہوا منہ میں خوبصورت لگام ڈالے جنگل کے راستے جارہا تھا اُس کی آواز سے جنگل اور پہاڑ گونج رہے تھے ایک گدھابھی سامان سے لدا ہوا اس کے آگے آہستہ آہستہ چل رہاتھا گھوڑے نے گدھے کو جا لیا اور فخر وغرور سے بولا راستہ سے ہٹ جاﺅں ورنہ تجھے کچل دوں گا گدھے نے دل میں سوچا کہ میں اس سے جیت نہ سکوں گا اس لیے وہ جلدی سے راستہ سے ہٹ گیا چند دن کے بعد اسی گھوڑے کو لڑائی میں آنکھ پر گولی لگی اوروہ کانا ہوگیا سواری اور لڑائی کے قابل ہی نہ رہا توا س کے مالک نے اس کی کمر سے زین اتارکر او رسارا سازوسامان اتارکر ایک شخص کے ہاتھ بیچ دیا وہ اس پربوجھ لادکرلے جانے لگا ایک دن وہ گھوڑا بھاری بوجھ لادے کہیں جارہاتھا گدھے نے اس کو اس حالت میں دیکھ کر دل میں کہا کہ اس کو طعنے دینے کا یہی مناسب وقت ہے اس وقت اس کے پاس آیا اور بولا
”اے دوست ایک دن تم مجھے اپنے پاﺅں تلے کچلنا چاہتے تھے میں اسی دن سمجھ گیا تھاکہ تمہارے غرور اور تکبر کو نشہ ایک دن اتر جائے گا “

قارئین آج کا کالم ہم ان مجاہدوں اور رضاکار سفیروں کے نام کررہے ہیں کہ جو پاکستان سے دور دیار غیر میں رہ کر اپنے ملک کی خوشحالی اور عزت کے لیے کام کررہے ہیں او ر ان کی آج چوتھی نسل وہاں پروان چڑھ رہی ہے آج ہم کالم میں ایک شخصیت کی کہانی بیان کریں گے مبشر لون میرپور سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان 1980ءکی دہائی میں نیشنل لبریشن فرنٹ سے وابستہ ہوکر آزادی کشمیر کے لیے معصوم اور سچے جذبات کے ساتھ کام کررہا تھا بھارت نے تحریک آزادی کے عظیم ہیرو مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کردیا تو پورے کشمیر اور پاکستان میں رہنے والے کشمیریوں نے غم وغصے کی لہر دوڑ گئی مبشر لون اس وقت میٹرک کا طالب علم تھا اس حادثے نے اس کے دل ودماغ پر بہت گہرا اثر ڈالا اور وہ کئی دن گھر سے غائب رہ کر احتجاجی مظاہروں میں نعرے لگاتارہا جب گھر واپس آیا تو اس کے بڑے بھائی مدثر لون نے ایک تگڑی سی لکڑی لے کر مبشر کو مرغا بنا کر اس کی خاطر تواضع کی مبشر نے اپنے بڑے بھائی کو مارکھانے کے بعدکہا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور آپ کی طرف سے کی گئی مرمت اس لیے برداشت کی ہے کہ تمام مظاہروں میں شرکت کرنے کے لیے میں نے آپ کا موٹر سائیکل استعمال کیا ہے میٹرک کے بعد مبشر لون نے فیصلہ کیا کہ اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے کے لیے بہتر تعلیم اور اچھے روزگار بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ملتان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا اور تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئر حاصل کرنے کے بعدمحکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی اور 1990ءمیں برطانیہ چلاگیا برطانیہ پہنچ کر مبشر لون نے دن رات محنت کی ،مزدور ی کی ،ہر طرح کا کام کیا او رآخر میں اپنا کاروبار قائم کرنے کا سوچا آج برنلے میں مبشر لون ”Personality Of Year“قرار دیا جاچکاہے مبشر لون کی یہ کامیابی اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ برنلے شہر برطانیہ کے ان چند شہروں میں شمار ہوتاہے جہاں معاشرتی سطح پر عصبیت انتہائی خطرنا ک حد تک بڑھ چکی ہے اور اس تعصب کی بنا پر وہاں لڑائی جھگڑے ایک معمول کی بات ہے ۔

قارئین یہاں تک کی کہانی مبشر لون کی ذاتی کہانی تھی یہاں سے ہم اس کہانی کا وہ باب شروع کرنے لگے ہیں کہ جو کشمیری قوم کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتاہے جیسا کہ ہم نے بتایا کہ مبشر لون کے برطانیہ جانے کے محرکات کیا تھے کس وجہ سے وہ ملک چھوڑ کر انگلینڈ گئے مقبول بٹ کی شہادت کے بعد ان کے جذبات کیا تھے برطانیہ جاکر بھی مبشر لون کے دل کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تھی اور کشمیری قوم کی آزادی کے لیے اس کا دل تڑپتا تھا برطانیہ میں بھی لبریشن فرنٹ کی طرف سے جہاں بھی میٹنگ کی کال دی جاتی وہ چھلاوے کی طرح وہاں پہنچ جاتا اور مادر وطن کی آزادی کے لیے دامے درمے سخنے قدمے ہرطرح کام کرتا گزشتہ دنوں برطانیہ سے مبشر لون کافون آیا وہ بہت اداس تھا اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور لہجہ آنسوﺅں سے ترتھا ان دنوں لارڈ نذیر احمد بھی پاکستان آئے ہوئے تھے اور ہم چند دوستوں جن میں ڈاکٹر سی ایم حنیف ،ڈاکٹر ریاست علی چوہدری ،ڈاکٹر طاہر محمود ،ڈاکٹر امجد اور ایس ایس پی میرپور چوہدری غلام اکبر کے ہمراہ لارڈ نذیر کی والدہ محترمہ کے وفات کے سلسلہ میں فاتحہ خوانی کے لیے لارڈ نذیر کے ہمراہ ان کے آبائی گھر بمقام میرپور بیٹھے ہوئے تھے مبشر لون کا فون اور اس کی گفتگو اس کے قلبی اضطراب کو ظاہر کررہی تھی اس کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکہ اور صیہونی لابی پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے آج افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کو بدنام کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور کسی دوسرے ملک سے مدد تو بہت بعد کی بات ہے لیکن پاکستان کے سفار ت خانے جو پوری دنیا کے ہر ملک میں اسرائیل چھوڑ کر موجودہیں وہاں موت جیسی خاموشی طاری ہے مبشر لون نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ برطانیہ میں 12لاکھ کے قریب کشمیری تارکین وطن رہتے ہیں ہم کشمیریوں کے ووٹوںسے درجنوں ممبرآف پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں اگر پاکستانی سفارت خانہ اتنی زحمت کرلیتا کہ ان لوگوں کو درست طریقے سے پرامن انداز میں استعمال کرتا تو برطانیہ کے ارکان پارلیمنٹ اس بات پر سٹینڈ لیتے اور امریکہ کو اس کے قریبی ترین اتحادی برطانیہ کی طرف سے ہی ”شٹ اپ کال “مل جاتی مبشر لون کا یہ کہنا تھا کہ برطانیہ میں موجود پاکستانی سفارت کار اور ایمبیسی کا عملہ اخبارات میں تصویریں چھپوانے ،بیانات دینے اور ڈنر اٹینڈ کرنے کے علاوہ کچھ کام نہیں کرتا حتیٰ کہ جس کام کے لیے انہیں وہاں پر رکھا گیا ہے کہ وہ پاکستانیوں کو ویزے جاری کریں یہ کام بھی وہ نہیں کررہے اور اگر کررہے ہیں تو لوگوں کو کئی کئی چکر لگواکر ان کا کام کیا جاتاہے ۔

قارئین مبشر لون کی یہ درد بھری باتیں اور اس کا اداس لہجہ ہمیں بھی غمگین کرگیا ہم پاکستانی حکومت سے آج کے کالم کی وساطت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پوری دنیا بالعموم اور امریکہ وبرطانیہ میں بالخصوص قائم پاکستانی ایمبیسیز کا قبلہ فوری طور پر درست کیا جائے اور سفارت کاروں کو غیر ملکی لیڈی سیکرٹریز بھرتی کرنے اور ڈنر اٹینڈ کرنے کے کام سے ہٹا کر اصل فرائض منصبی کی طرف راغب کیا جائے اور نااہل لوگوں کو فی الفور معطل کردیا جائے ۔

قارئین مبشر لون اس وقت برطانیہ میں لیبر پارٹی کا سرگرم کارکن ہے اور آنے والے دنوں میں وہ برطانوی پارلیمنٹ کا حصہ ہوگا اس وقت لارڈ نذیر احمد سے لے کر شبانہ محمود تک کئی کشمیری اور پاکستانی برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچ چکے ہیں اب یہ ہماری حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنا کام درست طریقے سے انجام دیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق پور ی دنیا میں آباد 50لاکھ کے قریب پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن کی طاقت کو سمجھ کر درست طریقے سے استعمال کرنے کے لیے منصوبہ بندی کریں بھارت آج تک مسئلہ کشمیر کو اگر مکمل طور پر دبانے میں ناکام رہا ہے تو اس کی کلیدی وجہ پوری دنیا میں آباد کشمیری تارکین وطن کا صدائے احتجاج بلند کرنا ہے ۔

قارئین گزشتہ روز راقم نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا انٹرویو کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر میں بھی اپنی شاخ قائم کرنے جارہی ہے تو کشمیر کے حوالے سے ان کی جماعت کیا موقف ہے کرکٹ چیمپیئن عمران خان نے بہت تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کے لیے پاکستان کا فوجی اور معاشی لحاظ سے مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے دوسری بات کشمیر کا حل سیاسی سطح پر ضروری ہے او راس حوالے سے تارکین وطن پاکستانی اور کشمیری انتہائی اہم کردار اداکرسکتے ہیں اس موضوع پر ہم اگلے کالم میں بات کریں گے آج اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور امیدکرتے ہیں کہ پاکستانی سفارت خانے عیاشی کرنے کی بجائے فرائض اداکریں گے بقول غالب

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سی
میری وحشت تری شہرت ہی سی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گھر نہیں غفلت ہی سی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی

قارئین مبشر لون کی کہانی ہر تارک وطن کی کہانی ہے جو پاکستان اور کشمیر سے محبت رکھتا ہے آصف علی زرداری اور چوہدری عبدالمجید ان محبتوں کی قدر کرنا سیکھیں اور دکھتے ہوئے دلوں سے نکلتی آہیں اور آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھیں -

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
باپ نے بیٹے سے کہا تم جیب میں گرم پانی کیوں ڈال رہے ہو
بیٹے نے سفارت کارانہ عقل مندی سے جواب دیا
”ابا جی آپ نے ہی تو کہا تھا کہ جس کی جیب گرم ہو اس کی عزت ہوتی ہے “

قارئین قرض کی ذلت والی دولت کے زریعے جیبیں گرم کرنے والے ہمارے بے غیرت حکمران درویشی کی عزت اور باوقار زندگی سمجھنے سے قاصر ہیں -
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374523 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More