الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 18ویں قومی انتخابات کے ساتھ
آندھرا پردیش، اروناچل پردیش، اڈیشہ اور سکم کی قانون ساز اسمبلیوں کے
انتخابات کا بھی اعلان کردیا لیکن جہاں آندھرا و اڈیشہ کے ووٹ کی گنتی کے
لیے ۴؍جون تو اروناچل اور سکم میں ۲؍ جون کا فیصلہ کرکے فلم سے پہلے ایک
ٹریلر ریلیز کردیاگیا۔ اروناچل مغربی پارلیمانی حلقے میں سب سے زیادہ تبتی
اور برمی نژاد لوگ رہتے ہیں۔ اس صوبے کی 63 فیصد آبادی کا تعلق گالو، نشی،
آدی، کھمٹی، مونپا اور آپاتنی جیسے104 قبائل سے ہے ۔ یہ لوگ انگریزی سمیت
آسامی اور ہندی زبانیں بولتے ہیں۔ اروناچل پردیش کی 60 ؍اسمبلی سیٹوں کے
لیے 19 اپریل کو ہونے والے انتخابات میں بی جے پی نے 46 پر کامیابی حاصل کی
اور اس کی حلیف این پی ای پی نے بھی 5 نشستیں جیت کراین ڈی اے کو 51 پر
پہنچا دیا۔ وہاں این سی پی کو 3، پی پی اے کو 2 اور کانگریس کوصرف ایک سیٹ
پر اکتفاء کرنا پڑا جبکہ 3 آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔ اروناچل پر دیش میں
راہل اور پرینکا گاندھی گئے ہی نہیں مگر9 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے
ایٹا نگر میں روڈ شو کرنے کے بعد ایک خطاب عام میں تقریر کی تھی۔ اس کا
مثبت نتیجہ نکلا۔
ارونا چل پردیش کے وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو کو سیاست اور کانگریس وراثت میں
ملی تھی ۔ 2016میں وہ پہلی بارکانگریس کے وزیر اعلیٰ بنے۔ اس سے قبل وہ
نبام تُکی کی سرکار میں سیاحت ، شہری ترقی اور آب رسانی کے وزیر تھے۔ وزیر
اعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے پیوپلس پارٹی آف ارونا چل پردیش بنائی اور اس
کے تین ماہ بعد بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ مرکز میں جس پارٹی حکومت ہوتی ہے
ارونا چل پردیش میں بھی وہی اقتدار میں آجاتی ہے اس لیےبعید نہیں کہ اگر
مرکز میں حکومت بدل جائے تو کھانڈو کی گھر واپسی ہوجائے ۔ ارونا چل پردیش
کے لوگوں کو رام مندر اور منگل سوتر یا مسلمانوں میں دلچسپی نہیں کیونکہ ان
کی آبادی بہت کم ہے۔ وہاں تو چین کی مصیبت سر پر کھڑی ہوئی ہے ۔ انڈیا
محاذ کے لوگ جب چین کی بات کرتے ہیں تو زعفرانی ٹولہ انہیں ملک دشمن قرار
دے دیتا ہے مگر اروناچل پردیش کی بابت تو خود بی جے پی رکن پارلیمان تاپر
گاؤ نے دو مرتبہ آواز اٹھائی۔ پہلے تو انہوں نے اے این آئی کو انٹرویو
دیا اور پھر ایوان پارلیمان کے اندر اپنی فکرمندی کا برملا اظہار کیا ۔
ہندوستان کی سرزمین پر چینی قبضے کی جب بھی بات ہوتی ہے تو پنڈت نہرو کو
موردِ الزام ٹھہردیاجاتاہے مگر بی جے پی کے رکن پارلیمان نے یہ تقریر وزیر
اعظم نریندر مودی کے دورِ اقتدار میں 19 نومبر 2019 کو کی تھی ۔ تاپر گاؤ
نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اگر وہ اس نازک موقع پر خاموش رہے تو آئندہ
نسلیں انہیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گی۔ انہوں نے خود اپنی پارٹی بلکہ
اپنے وزیر اعظم سے پوچھا تھاکہ آخرپاکستان سے جڑے ایشوز پر سیاست کرنے
والے چین کی داداگری پر خاموش کیوں ہیں؟ اس طرح تاپر گاؤ نے مرکز کی مودی
حکومت پر ایوانِ پارلیمان میں ہلہ بول دیا۔ مشرقی اروناچل سے بی جے پی رکن
پارلیمان نے چین کے وسعت پسندانہ رویہ کوپیش کرکے سنگھ پریوار کے جعلی قوم
پرستی کی قلعی کھول دی۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے کہا تھاکہ اروناچل پردیش
میں لگاتار چین دراندازی کر رہا ہے۔ انھوں نے ایوان میں دعویٰ کیا کہ چین
نے ہندوستان کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ انتہائی سنگین الزام
لگایا کہ حکومت اس طرف دھیان نہیں دے رہی ہے۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ 14 نومبر 2019 کو ملک کے وزیر دفاع راج
ناتھ سنگھ بی آر او کے ایک پل کا افتتاح کرنے کے لیے توانگ گئے تواس پر
چین نے آفیشیل پریس کانفرنس کر کے راج ناتھ سنگھ کے ذریعہ کیے گئے افتتاح
پر اعتراض جتایا۔ صدر جمہوریہ اور پی ایم مودی اروناچل گئے، اس پر بھی چین
نے اعتراض ظاہر کیا۔ وزیر داخلہ امت شاہ اروناچل گئے، اس پر بھی چین نے
بیان جاری کر ناراضگی ظاہر کی مگر حکومت ہند کی جانب اس کا کوئی جواب نہیں
دیا گیا۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ تاپر گاؤ نےدعویٰ کیا کہ ’’آج 50 تا 60
کلو میٹر سے زیادہ ہمارے علاقے پر چین نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس لیے میں
حکومت، ایوان اور میڈیا ہاؤس سے یہ اپیل کرنا چاہوں گا کہ اس مسئلہ کو
اٹھائیں۔ اگر کوئی پاکستان کا ایشو آتا ہے تو وہ اٹھتا ہے، میڈیا میں
خبریں آتی ہیں، لیکن چین اگر اروناچل پردیش میں قبضہ کرتا ہے تو وہ خبر
کہیں نہیں آتی ۔‘‘ یعنی گھر میں گھس کر مارنے کی ڈینگ مارنے والے بِل میں
چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بی جے پی رکن پارلیمان نے کہا تھاکہ اگر مودی حکومت
نےبر وقت اروناچل پردیش پر دھیان نہیں دیا تو وہ دن دور نہیں جب اروناچل
میں دوسرا ڈوکلام بن جائے گا، تب حکومت کے لیے بے حد مشکل ہوگا۔ موصوف کا
یہ اندیشہ درست نکلا اگلے سال ہندوستانی سرحد کے اندر چین کے ذریعہ بسائے
گئے گاوں کی تصویر سیٹیلائٹ پر آگئی مگر مودی سرکار گہری نیند سوتی رہی ۔
اس کما ل غفلت اور ناکامی کے باوجود اگر بی جے پی اور اس کی حلیف 60میں سے
51 نشستیں جیت جاتے ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ ہمارے عوام کو حکومت
کی ناکامیوں سے کوئی خاص پریشانی نہیں ہے اور وہ سرکار کو اس کی نااہلی کا
سبق سکھا نے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ان کے لیے عظیم قومی مفاد کے
مقابلے اپنے نجی اور ہلکے پھلکے مفادات زیادہ اہم ہیں۔ ایک خوددار قوم کے
لیے یہ فکرمندی کی واردات ہے۔اس طرح کہنا پڑے گا فلم کے ٹریلر کا انٹرویل
ایک ناخوشگوار موڑ پر ختم ہوا۔ سکم کی اسمبلی کے کل 32 حلقہ ہائے انتخاب
ہیں ان میں سے 31حلقوں میں بی جے پی نے اپنے امیدوار کھڑے کیے مگر نِل بٹا
سناٹا یعنی اس کو ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی۔ اس کے برعکس وہاں بی جے
پی سابق حلیف سکم کرانتی کاری مورچہ نے 32 میں سے 31 پر کامیابی حاصل کرکے
بی جے پی کو بیوفائی کی بہت بڑی سزا دی۔
سکم میں حکمراں پارٹی ایس کے ایم کی یہ مسلسل دوسری مگر زبردست جیت ہے۔ ایک
سیٹ پرسکم ڈیموکریٹک فرنٹ کا امیدوار کامیاب ہوا ورنہ اسمبلی کے اندر حزب
اختلاف کا وجود ہی مٹ ہوتااور ایک تاریخ رقم ہوجاتی ۔ گزشتہ اسمبلی
انتخابات میں ایس کے ایم کے ساتھ مل کر بی جے پی نے الیکشن لڑ ااور اس وقت
بھی اسے اسی طرح کی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس کی حلیف ایس کے ایم نے
17 اور حزب اقتدار ایس ڈی ایف کو 15نشستوں پر کامیابی ملی تھی اس طرح ایک
کے فرق سے پریم سنگھ تمانگ نے اقتدار سنبھال لیا تھا ۔پریم سنگھ تمانگ نے
جب ایس ڈی ایف سے بغاوت کرکے نئی پارٹی بنائی تو بی جے پی نے موقع غنیمت
جان کر ان کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ۔ انتخابی میدان میں ناکامی کے بعد اس نے
حزب اختلاف ایس ڈی ایف کے دس ارکان کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا ۔ اس طرح
سکم جیسی چھوٹی اور نازک ریاست میں بھی بی جے پی نے بھی وہی کیا جو
مہاراشٹر اور ایم پی جیسے صوبوں میں کرتی رہی ہے۔ اس کے بعد جب دو حلقوں
میں ضمنی الیکشن ہوا تو اس نے ایس کے ایم کو ڈرا دھمکا کر اس پر اپنے
امیدوار کامیاب کروا دئیے۔ اب اس چوری چکاری کے بعد اس کے 12 ؍ ارکان
اسمبلی ہوگئے جبکہ ایس کے ایم کے بھی 15؍ ہی تھے
اس انتخاب سے قبل بی جے پی کو گھمنڈ آ گیا اور اس نے ایس کے ایم سے بڑا
حصہ مانگا۔ پریم سنگھ تمانگ نےاسے دینے سے انکار کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا
کہ بی جے پی کے 5؍ ارکان اسمبلی پارٹی چھوڑ کر ایس کے ایم میں چلے گئے ۔ بی
جے پی اکیلے میدان میں تو اتر گئی مگر اسے احساس ہوگیا کہ یہ چوری کا مال
نہیں بکے گااس لیے اس نے ۷؍ میں سے صرف ۲؍ کو ٹکٹ دیا اور وہ دونوں بھی ہار
گئے۔ اس پارٹی کے صوبائی صدر دلی رام تھاپا کو بھی ہار کا سامنا کرنا پڑا۔
سکم کے انتخاب میں یہ سبق ہے کہ ایس ڈی ایف لیڈر پون کمار چاملنگ 25 سال
اقتدار میں رہنے کے باوجود 2019 میں انتخاب ہار گئے ۔ اس بار انہوں نے دو
حلقوں سے قسمت آزمائی کی اور دونوں جگہ شکست کھا گئے ۔ اس لیے دس سال
اقتدار میں رہ کر خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے والوں کو چاملنگ سے عبرت
پکڑنا چاہیے۔ سکم کے خود دار لوگوں نے بی جے پی کو جو پٹخنی دی ہے اس کی
ٹیس وہ بہت دنوں تک محسوس کرتی رہے گی ۔ بی جے پی کو اگر راحت اندوری کا یہ
شعر یاد ہوتا تو وہ سکم کے اندر ایسی فاش غلطی کرکے رسوا نہیں ہوتی ؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں مالک مکان تھوڑی ہے
|