فرانس کا بائیکاٹ، سفیر کی ملک بدری کا معاملہ اور عمران خان کی کرسی

مسلمانوں کے لیے اللہ عزوجل کی زات کے بعد عزت و حرمت والی زات خاتم النبیین جانِ جہاں محبوب خدا حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ سلم کی زات ہے. جب عالم کفر ان کی زات، عزت و حرمت پر حملہ کرتا ہے تو اس سے عاشقانِ مصطفیٰ کو دلی تکلیف ہوتی ہے. لیکن عالم اسلام اور مسلمانوں کی آپسی رنجش، تفرقہ اور کمزوری کی وجہ سے عالم کفر آئے روز دینِ اسلام کی بے حرمتی کرتا رہتا ہے. اور اسلامی ممالک کے سربراہان سوئے مزمت کے کچھ بھی نہیں کرتے بلکہ کچھ کو تو یہ بھی توفیق نہیں ہوتی.

اکتوبر 2020 میں، فرانسیسی سیموئیل پیٹی (ملعون) نے پیرس کے قریب مبینہ طور پرحضرتِ محمد صل اللہ علیہ والہ و سلم کے کارٹون دکھائے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون (ملعون) نے بھی ایسے کارٹون شائع کرنے کے حقوق کا دفاع کیا. فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی جانب سے اسلام کے مخالفت کی گئی اور حکومتی سطح پر حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے خاکہ شایع کیے گئے. جس کے بعد اسلامی دنیا میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی کال کے ساتھ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

تحریکِ لبیک پاکستان کے بانی مجاہدِ ختمِ نبوت و ناموسِ رسالت علامہ خادم حسین رضوی رحمۃاللہ علیہ نے پاکستان سے فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا، انہوں نے اپنے پیروکاروں سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کرنے کو کہا۔ کچھ دنوں بعد وہ علالت کے باعث انتقال کر گئے. نومبر 2020 میں علامہ خادم حسین رضوی کے بیٹے سعد حسین رضوی کی سرپرستی میں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے اسلام آباد راولپنڈی کراچی لاہور اور مختلف شہروں میں احتجاج و دھرنا دیا اور فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنے اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔

نومبر 2020 کو حکومت پاکستان(PTI) کی جانب سے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث کے لیے مزید وقت مانگ کر ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ جس کا باضابطہ اعلان عمران خان نے تمام پرائیویٹ ٹی-وی چینلز بشمول سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا.

اپریل 2021 میں جب اس معاہدے کی ڈیڈ لائن کو ہفتہ باقی تھا تو عمرانی حکومت نے معاہدہ پورا کرنے کے بجائے تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ سعد حسین رضوی کو لاہور سے گرفتار کر لیا اور اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں. پارٹی کے رہنما سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد پاکستان بھر میں احتجاج میں شدت آگئی۔

عمرانی حکومت نے عالم کفر کو خوش کرنے کے لیے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف رمضان میں کریک ڈاؤن کیا جس میں پولیس فورس اور رینجرز نے حصہ لیا. تحریک لبیک کے کارکنان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے. اس بد ترین کریک ڈاؤن میں تحریک لبیک پاکستان کے 25 سے زائد کارکنان شہید ہوئے.

پاکستان نے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں 16 اپریل کو سوشل میڈیا پر چار گھنٹے کے لیے عارضی طور پر پابندی لگا دی، کیونکہ TLP سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر رسائی رکھتی ہے۔ شیخ رشید نے 15 اپریل کو ٹی ایل پی پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے پابندی لگا دی کہ ان کے مظاہرین نے سڑکوں پر تشدد اور عوامی قانون نافذ کرنے والوں پر حملہ کیا تھا۔

حکومت نے دوبارہ معاہدہ کیا اور قرارداد پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی اور علامہ سعد حسین کی رہائی پر بھی بات چیت ہوئی. حکومت نے قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق ایک قرارداد پیش کرنے پر اتفاق کیا. ٹی ایل پی کے رکن شفیق امینی نے تمام مظاہرین سے منتشر ہونے اور امن برقرار رکھنے کی درخواست کی۔ تاہم حکومت نے تنظیم پر پابندی ہٹانے سے انکار کر دیا تھا. یہ دھرنا 20 اپریل 2021 کو ختم ہوا.

پھر اکتوبر 2021 میں جب تحریک لبیک پاکستان نے دیکھا کہ حکومت نہ معاہدے کو اہمیت دے رہی تھی. اور ایک بار پھر سے مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے احتجاج شروع ہو گئے جس کا مقصد فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنا اور تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد حسین رضوی کو رہا کرنا تھا۔ ٹی ایل پی نے لاہور میں ملتان روڈ پر دھرنا دیا۔ قرار داد نہ پیش کرنے اور اس کے رہنما سعد حسین رضوی کی رہائی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا۔

اور ایک بار پھر عمرانی حکومت نے یہود و نصاریٰ جن کے ٹکروں پر یہ پلتے ہیں کو خوش کرنے کے لیے کے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف پھر کریک ڈاؤن کیا جس میں پولیس فورسز اور رینجرز نے حصہ لیا. تحریک لبیک کے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سہارا لیا گیا. اس بد ترین کریک ڈاؤن میں تحریک لبیک پاکستان کے پچاس سے زائد کارکنان شہید ہوئے.

اس وقت عمران خان نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ہم فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہیں کر سکتے. فرانس سے تعلقات ختم کرنا مطلب پورے یورپی یونین اور امریکہ سے تعلقات خراب کرنا ہے. اور ملک میں احتجاج کرنے سے لوگوں کو تکلیف اور ملک کا نقصان ہوتا ہے.

سفیر والا معاملے میں نے تھوڑی وضاحت سے پیش کیا ہے تاکہ کوئی شک باکی نہ رہے. عمران خان کی اس بات کو دماغ میں رکھیے گا کہ فرانس سےتعلقات خراب مطلب پورے یورپی یونین سے تعلقات خرب. اب ہم چلتے ہیں عمران خان کے خلاف بہرونی سازش کی طرف.

اپریل 2022 میں عمران خان کو وزیر اعظم کے طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے معزول کر دیا گیا تھا، جسے انہوں نے امریکی حکومت کی بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے شروع کی گئی حکومت کی تبدیلی کی سازش قرار دیا۔

اپنی برطرفی کے بعد بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں، بیکی اینڈرسن کے ساتھ CNN پر، اس نے اپنی پارٹی کے ارکان پر الزام لگایا کہ وہ "جمپنگ شپ" کے لیے امریکی حکام کی طرف سے لاکھوں ڈالر کی پیشکش کر کے اسلام آباد کی حکومت کو کمزور کر رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں مخلوط حکومت جس میں زیادہ تر پاکستان تحریک انصاف (عمران خان کی پارٹی) اور دیگر آزاد امیدواروں اور اتحادی جماعتوں کے ایم این اے شامل تھے۔ نتیجتاً، اس سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی حالانکہ صرف 2 ووٹوں سے (پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے 174 مشترکہ ووٹ تحریک عدم اعتماد کے حق میں تھے)۔

اپنی برطرفی کے بعد، خان نے حکومت پر فوری انتخابات کرانے کے لیے دباؤ ڈالنا جاری رکھا۔

اس دوران عمران خان کے دو جملہ کو بہت پزیرائی ملی ایک (Absolutely Not) اور دوسرا ہم کوئی غلام ہیں آپ جو کہیں ہم کر لیں. اور یہ بات آپ کے زہن نشیں کر دوں کے یہ دونوں جملے امریکہ اور کسی حد تک پاک فوج کے لیے تھے.

اور پھر جب مسلم لیگ نواز نے انتقامی کروائی کی اور عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں اریسٹ کرنے کے احکامات جاری کیے تو اسی عمران خان نے احتجاج کی کال دی. اور 9 مئ 2023 کو جب گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں تحریک انصاف کے کارکنان نے جلاؤ گھیراؤ کیا. جی ایچ کیو، کورکمانڈر ہاؤس لاہور، اور دیگر سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا اور تھوڑ پھوڑ بھی کی. کورکمانڈر ہاؤس کو نظرِ آتش کیا.

اب ایک بات زیرِ غور ہے، جب تحریک لبیک نے سفیر کی ملک بدر کرنے کے لیے احتجاج کیا تو یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے کہا تھا کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے. لیکن صد افسوس کہ یہ درس ان کو صرف ناموس رسالت کے احتجاج و دھرنے پر یاد آتا ہیں، عمران کی کرسی بچانے کے وقت نہیں.

عمران خان جب ناموس رسالت کی بات تھی اس وقت تو کہتا تھا کہ سفیر کو نکالا تو امریکہ اور یورپی یونین سے تعلقات خراب ہو جائیں گے. اور اب اپنی کرسی کی بات آئی تو اس کو Absolutely Not اور ہم کوئی غلام ہیں یاد آگیا. کاش یہی جملے ناموس رسالت کے لیے امریکہ او فرانس کو کہتا تو دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا.

بڑے افسوس کی بات ہے کہ (نعوذبااللہ) شاید عمران خان اور اس کے سپورٹرز کے لیے ناموسِ رسالت سے زیادہ کرسی زیادہ عزیز ہے. جس کے لیے دھرنے، احتجاج اور امریکہ سے ٹکراؤ سب جائز ہو جاتا ہے.

سیاست میں حصہ لینا اور کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنا سب کا حق ہے، کبھی نواز شریف حکومت کرتا ہے، کبھی آصف علی زرداری، کبھی عمران خان اور کبھی شہباز شریف، یہ سب سیاست میں چلتا رہتا ہے لیکن ہم سب کو چاہیے کہ سیاست کریں لیکن دینِ اسلام اور ناموس رسالت کو سیاست پر ترجیح دیں. کسی کو بھی پرکھنے کے لیے ترازو دینِ اسلام رکھیں، جو شخص اپنے دین اپنے نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ مخلص نہیں وہ ہم سے آپ سے مخلص ہو ایسا ناممکن ہے.

اللہ عزوجل ہم سب کو اندھی تقلید سے بچائے. آمین
 

Ahsan Khalil
About the Author: Ahsan Khalil Read More Articles by Ahsan Khalil: 11 Articles with 5208 views (born 13 October 2001) is a Pakistani writer and columnist. He completed his Fsc from Army Public School and College Jarrar Garrison... View More