نوٹ اور ووٹ کا ’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟

دس سال قبل جب وزیر اعظم نریندر مودی نے حلف لیا تو ان پر غیر ملکی دوروں کا جنون سوار ہوگیا ۔ وہ یکے بعد دیگرے سرکاری خرچ پر مختلف ممالک کی سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے تھے ۔ اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور لوگ سوال کرنے لگے تو بھگتوں نے کہا ابھی تو ان کا ’ہنی مون ‘ بھی ختم نہیں ہوا اس لیے کچھ توقف کیا جائے۔ عام لوگوں نے بھی کہا ’پہلا پہلا پیار ہے ، پہلی پہلی بار ہے‘ حالانکہ وہ دوسرا ہنی مون تھا ۔ جسودھا بین کے ساتھ اپنی پہلی شادی کا تو ذکر کرنا بھی وہ گوارہ نہیں کرتے۔ پانچ سال قبل انہوں پھر سے سات پھیرے کرلیے اور اب چوتھے کی تیاری میں ہیں مگر اس سے پہلے ہی راہل گاندھی نے وزیر اعظم پر تیس لاکھ کروڈ کی بدعنوانی کا الزام لگا کر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تفتیش کا مطالبہ کردیا ۔ انہیں اس پر بھی رحم نہیں آیا کہ دس سال قبل جو شخص چھپنّ انچ کی چھاتی لے کر پھیرے کرنے کے لیے آیا تھااس بار وہ بیساکھیوں کی مدد سےلنگڑتے ہوئے آرہا ہے۔ ایسے معذور دولہے پر وواہ (نکاح) سے قبل تو کوئی سنگدل انسان ہی الزام لگا سکتا ہے خیر یہ معاملہ شیئر بازار میں کی جانے والی بدعنوانی سے متعلق ہے اور حلف برداری سے بھی پہلے اس پر آسمان سر پر اٹھایا جاچکا ہے۔

یکم جون کو شام میں آخری ووٹ گرا اور چار جون کی نتائج آنے والے تھے لیکن اس انتخابی اچھل کود کی آڑ میں ایک بہت بڑا معاشی کھیلا ہوگیا جس پر لوگوں نے بہت کم توجہ دی ۔ ہوا یہ کہ ایکزٹ پول کے بعد اچھلنے والا حصص بازار انتخابی رجحانات کے آتے ہی دبکنے لگا اور اس سے شک کی سوئی سرکار کی طرف مڑ گئی ۔ ابتداء میں ہی جبکہ فتح و شکست کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا بلکہ صرف کانٹے کی ٹکر نظر آرہی تھی شیئر بازار کا سانڈ اچانک بھالو کی کھال اوڑھ کر مندی کی جانب رواں دواں ہوگیا ۔ 4؍جون صبح کا آغاز ہی 200 پوائنٹس کی گراوٹ سے ہوا اور دیکھتے دیکھتے 6200 پوائنٹس گر گیا لیکن پھر سنبھل کر 4,390 کے گھاٹے پر بند ہوایعنی جو ایک دن پہلے کمایا تھا وہ اگلے دن ڈوب گیا ۔ نفٹی میں تو600 پوئنٹس کی بڑی گراوٹ شروع ہوا تھا اور بالآخر 1,379پوئنٹس نیچے آگیا ۔ سینسیکس کے30 میں سے 28 شیئرس تو ابتداء میں ہی لڑھکنے لگے تھے ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اور شیئر بازار کا’ یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘۔

ایکزٹ پول کے بعد جن لوگوں نے مونگیری لال کے حسین سپنے دیکھ کر ایک دن میں 14؍ لاکھ کروڈ روپئے حصص بازار میں پھینک دئیے تھے اب ان کا کیا ہوگا؟ ایک معاشی روزنامہ کوانٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ 4 جون 2024 کو اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ بلندیوں کو چھولے گا۔ انہوں نے اس متوقع عروج کے لیے حکومت کےذریعہ حصص بازار کی خاطر موافق اصلاحات کو نافذ کرنابتایا تھا۔ مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک مضبوط اور شفاف مالیاتی نظام بنایا گیا ہے۔ اس نے ہر ہندوستانی کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں حصہ لینا آسان بنا دیا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا تھا کہ 4 جون کو بی جے پی لوک سبھا کی ریکارڈ تعداد میں سیٹیں حاصل کرے گی اور اسٹاک مارکیٹ بھی نئی بلندیوں کو چھو لے گی۔ یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوگئیں اور وزیر اعظم کے جھانسے میں آنے والے لوگوں کے لاکھوں کروڈ روپئے ڈوب گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس لوٹ مار کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ مودی جی اگر کسی طرح جوڑ توڑ کرکے وزیر اعظم بن بھی گئے تو کیا ان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوگا کیونکہ اپنے جن دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے انہوں نے اپنے وفادار گودی میڈیا سے ایکزٹ پول کروایا تھا ان کا تو بھلا ہوچکا۔ مودی اب وزیر اعظم بنیں یا نہ بنیں اپنے کرم فرماوں کے ساتھ عیش کریں گے۔

بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی مصداق مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے تو ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں عوام کو ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ سرمایہ کاروں کو 4 جون سے پہلے حصص خرید لینا چاہیے۔ ان کے مطابق بازاروں میں تیزی آنےوالی تھی جو نہیں آئی بلکہ تباہی آگئی ۔ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ 4 جون کو مارکیٹ میں اضافے کی توقع کر رہے تھے لوگوں کو سرمایہ کاری کرکے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ابھار رہے تھے لیکن عوام کے ساتھ دھوکہ ہوگیا۔ ملک کروڈوں بھولے بھالے لوگوں کی طرح جنہوں نے اس گجراتی جوڑی کے جھانسے میں آکر بی جے پی کو ووٹ دیا پڑھے لکھے سرمایہ دار بھی فریب کھا گئے ۔ وہ بھول گئے کہ کل ان کی جیب کٹنے کے بعد شاہ جی کو ان کا یہ بیانات یاد دلائے جائیں گے تووہ ہنس کر اسے ’ ایک انتخابی جملہ‘ کہہ کر ٹال دیں گے لیکن اس وقت تک کئی لوگوں کا دیوالیہ پٹ چکا ہوگا۔ ہندوستانی رائے دہندگان کو بار بار دھوکہ دینے والے امیت شاہ پر حفیظ میرٹھی کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
شاہ صاحب تمہاری بھی اچھی کٹی
خوب وعدے کیے خوب دھوکے دئیے

آگے بڑھنے سے پہلے عوام کو بیوقوف بنانے کی خاطر ایکزٹ پول کے نام پر جو سازش رچی گئی اس پر ایک نگاہ ڈال لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ہندوستان کی الیکٹرونک میڈیا میں سب سے پہلے نیوز ٹریک کے نام سے انڈیا ٹوڈے نے قدم رکھا تھا۔ ایک زمانے میں وہ ملک کا سب سے معتبر میڈیا ہاوس تھا ۔ اس نے -ایکسس مائی انڈیا کی مدد سے ایکزٹ پول کرواکر شائع کیا۔ اس کے مطابق این ڈی اے کو لوک سبھا انتخابات میں 361-401 سیٹیں جیتنے کی پیش قیاسی کی گئی تھی یعنی اس نے چار سو پار کروا ہی دیا تھا۔ انڈیا ٹوڈے نے انڈیا محاذ کو 131-166 سیٹیں ملنے کی امید جتائی تھی۔ اس سروے میں دیگر جماعتوں کو 8 سے 20 سیٹیں دی گئی تھیں۔ ارنب کا ریپبلک اس بار قدرے محتاط تھا ۔ اس نے پی مارق کے اشتراک سے ایکزٹ پول کرکے 543 میں سے 359 سیٹیں این ڈی اے کو، 154 انڈیا محاذ کو دینے کی جرأت کی جبکہ 30 نشستیں ​​دیگر کو بخش دی گئیں۔ ریپبلک نے میٹرائز پول کے ساتھ بھی ایک جائزہ لیا اس میں این ڈی اے کو 353-368 سیٹیں، انڈیا بلاک کو 118-113 اور دیگر کو 43-48 سیٹیں دی گئیں۔ دی نیوز ایکس ڈائنامکس نے این ڈی اے کو 371، انڈیا بلاک کو 125 اور دیگر کو 47 سیٹیں حاصل ہونے کا امکان جتایا۔ یعنی کوئی بھی این ڈی اے کو350سے کم اور انڈیا کو 175 کے اوپر نہیں لے جاسکا جبکہ یہ دونوں اعداد غلط نکل گئے۔

ایکزٹ پولس نے جب یہ سبز باغ دکھائے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی این ڈی اے لوک سبھا انتخابات میں 543 میں سے 350 سیٹیں جیت سکتی ہے تو اس کے بعد سینسیکس اور نفٹی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ۔ سینسیکس 2,778 پوائنٹس یعنی تقریبا 4 فیصد بڑھ کر 76,738.89 کے اپنے تمام وقت کی بلند ترین سطح پر چلا گیا اور جب گرا تو دوگنی گراوٹ آئی ۔ نفٹی 808 پوائنٹس، تقریباً 4 فیصد بڑھ کر 23,338.70 کی تازہ ترین بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور وہ بھی گنتی کے دن آٹھ فیصد سے زیادہ نیچے گرا۔سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے اسی وقت مختلف ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے ایکزٹ پولس کو مکمل طور پر مسترد کر تے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ تمام ایکزٹ پول اپنے حق میں کرائے ہیں۔ دو دن بعد اسٹاک مارکیٹ کے کھلنے پر بی جے پی رہنما چپکے سے اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوام کی سمجھداری کو سراہنے کے بعد کہا تھا کہ ملک بھر میں انڈیا اتحاد کی لہر جاری ہے، کارکنان صبر و تحمل سے کام لیں اور اپنی جیت کا انتظار کریں۔ اکھلیش یادو نے ایکزٹ پولز کے پیچھے کی بڑی سازش سے ملک کی عوام کو خبردار کردیا تھا مگر راتوں رات امیر بن جانے کی ہوس سرمایہ کاروں کو لے ڈوبی ۔ ان خواص نے شیئر بازار کے چکر میں پڑ کر اپنا نوٹ گنوایا جبکہ عام آدمی ان کے جھانسے میں آکر اپنا ووٹ گنواتا ہے اور بھی اسی طرح خسارے میں چلا جاتا ہے۔

سیاستدانوں اور سرمایہ داروں پر آنکھیں موند کر جب تک عوام و خواص اعتماد کرتے رہیں انہیں استحصال سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ وہ لوگ دوہری مار کا شکار رہیں۔ کبھی تو مال گنوائیں اور کبھی عزتِ نفس یا جان بھی گنوا دیں گے۔ راہل گاندھی کے سوالات بالکل جائز ہیِں۔ انہوں نے پوچھا، "وزیراعظم نے عوام کو سرمایہ کاری کرنے کا مشورہ کیوں دیا؟ امت شاہ نے لوگوں سے شیئر خریدنے کے لیے کیوں کہا؟ اگر بی جے پی اور ان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان کوئی تعلق ہے، تو کیا ہے ہم جے پی سی جانچ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے نریندر مودی اور امیت شاہ کے کردار کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ بی جے پی جن رہنماوں نے خوردہ سرمایہ کاروں کو اسٹاک خریدنے کی ترغیب دی انہیں اطلاع تھی کہ ایگزٹ پول غلط ہیں اور بی جے پی کو اکثریت نہیں ملے گی، راہل گاندھی نے کہا کہ 30 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے اور اقتدار میں رہنے والوں کو فائدہ ہوا ہے، اس لیے ہم جے پی سی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ جائز تو ہے لیکن مودی کے اقتدار میں اس سے کوئی ٹھوس اس کے درمیان میں تادمِ تحریر رجحانات کے مطابق نہ تو انڈیا محاذ کو اکثریت مل رہی ہے اور بی جے پی کو اس لیے گمان غالب تو یہی ہے کہ این ڈی اے کی سرکار بنے گی الاّ یہ مجبوری کی حالت میں بی جے پی کے ساتھ جانے والے نتیش کمار جیسے حلیف پالا بدل کر انڈیا کے ساتھ آجائیں۔
عوام کو لوٹنے کی یہ سازش کیسے رچی جاتی ہے اس کا انکشاف پچھلے سال اگست ( 2023) کو لندن سے نکلنے والے گارڈین اخبار نے اپنی ایک رپورٹ کردیا تھا ۔ اس کا الزام تھا کہ مالیاتی دستاویزات کے مطابق اڈانی گروپ نے خفیہ طور پر اپنی ہی کمپنیوں کے شیئرز خرید کر بھارتی اسٹاک مارکیٹ میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ دی گارڈین نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے اس حوالے سے کچھ دستاویزات اسے اور فنانشل ٹائمز کے ساتھ شیئر کی تھیں ۔ ان رپورٹس میں انکشاف ہوا تھا کہ ماریشس میں ایک نامعلوم اور پیچیدہ آف شور آپریشن کو اڈانی کے ساتھی کنٹرول کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو 2013 سے 2018 تک اپنی گروپ کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اڈانی گروپ کے ساتھ مودی کی قربت کے سبب اسے سرکاری تحفظ اور سہولت حاصل ہوتی رہی اور اسے ہر معاملے میں کلین چٹ ملتی رہی نیز اس کے خلاف بولنے والے راہل گاندھی اور مہوا موئترا کو خاموش کرنے کی کوشش بھی ہوئی۔

مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق یہ لوگ عوام کے سامنے دانہ ڈالتے ہیں۔ لوگ جب اس کی فریب میں آکر سرمایہ کاری کرنے لگتے ہیں تو یہ اپنا پیسہ نکال لیتے ہیں ۔ اس دھوکہ دھڑی کے کھیل میں اس بار مودی اور شاہ بھی کھلے عام شا مل ہوگئے۔ ان لوگوں نے اڈانی جیسے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے پہلے گمراہ کن بیانات دئیے اور پھر جعلی ایکزٹ پول کے ذریعہ ایک خطرناک جال بچھایا۔ اس سے ایک دن میں اڈانی گروپ کو جملہ1.6 لاکھ کروڈ کا فائدہ ہوگیا ۔ اڈانی کو اس طرح فائدہ پہنچانے کا کام کرنے والے مودی اور شاہ نے اپنی دلالی یقیناً وصول کی ہوگی ۔ اس لیے اکھلیش یادو کا سازش والا الزام درست ہے۔ اڈانی گروپ نے کارڈین کے الزامات کی تردید میں آناً فاناً وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس رپورٹ کو ملک کےخلاف غیر ملکی تنظیموں کی سازش قرار دیا تھا ۔اس کے باوجود اڈانی گروپ کے شیئرز میں زبردست گراوٹ آئی تھی اور اس کی مارکیٹ کیپ 150 بلین ڈالر تک کم ہو گئی تھی۔ ایکزٹ پول والے دن اس نے اڈانی نے اپنا نقصان پورا کیا اور اگلے دن گنوا دیا۔

معیشت کی دنیا کا ایک دلچسپ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ایکزٹ پول نے جہاں شیئر مارکیٹ میں اچھال پیداکیا وہیں سونے و چاندی کی قیمتوں میں گراوٹ کا سبب بنا۔ اس کا مظاہرہ ملٹی کموڈیٹی ایکسچنج (ایم سی ایکس) پر سونے اور چاندی کی قیمتوں میں گراوٹ سے کیا جاسکتا ہے۔ وہ چاندی جس کی قیمت 31 مئی کو 91,570 کو روپے فی کلو تھی ایکزٹ پول والے دن تقریباً 1400 روپے کم ہو کر 90121 روپے فی کلو پرآ گئی ۔ اسی طرح سونا جو 71,886 روپے فی 10 گرام تھاایکزٹ پول کے بعد 600 روپے گر کر 71295 روپے فی 10 گرام پر آ گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کار شیئر بازار کے سراب کی جانب آنکھ موند کر بھاگنے لگے اور ان کی نظر میں ٹھوس سونا چاندی ہلکا ہوگیا۔ سیاست میں بھی یہی ہوا۔ ملک کے رائے دہندگان نے مودی کی جعلی چکا چوند سے متاثر ہو کر بنیادی مسائل کو اٹھانے والے انڈیا محاذ کی جانب سے منہ پھیر لیا ۔ حصص بازار میں یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اگر بی جے پی کو ایکزٹ پول میں 280 سے کم سیٹیں ملتی ہیں تو اسٹاک مارکیٹ میں بڑی گراوٹ ہوسکتی ہے۔ اس کو تو انہوں نے جعلی جائزے کے ذریعہ چھپایا مگر جب دودن بعد جب یہ حقیقت کھل گئی تو اسے ڈھائی سو سیٹ بھی نہیں آرہی ہے تو تباہی مچ گئی۔

بی جے پی چونکہ برہمن اور بنیا لوگوں کی پارٹی ہے اس لیے بازار کے استحکام کی خاطر اس کا اکثریت میں آنا یعنی 272 سے آگے بڑھنا ضروری تھا۔ بی جے پی کی سیٹیں اگر 270 سے 300 کے رینج میں ہوتیں تب تومارکیٹ میں تیزی نہ سہی تو مندی بھی نہیں آتی بلکہ معمولی اتار چڑھاؤ جاری رہتا لیکن مودی اور شاہ نے اڈانی جیسے بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے چکر میں متوسط سرمایہ کاروں کی لٹیا ڈبو دی۔ فی الحال رجحانات کے مطابق بی جے پی کو 240 سے 250 کے درمیان سیٹیں ملتی نظر آرہی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی اور این ڈی اے کی مخلوط حکومت بن سکتی ہے لیکن شرد پوار کے ذریعہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو پر ڈورے ڈالے جارہے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں انڈیا محاذ کی سرکار بھی بن سکتی ہے اور اگر این ڈی اے کی حکومت بن بھی جائے تو مارکیٹ میں استحکام نہیں آئے گا اور سرمایہ کاری متاثر رہے گی ۔ اس کا مظاہرہ ووٹ کی گنتی کے ساتھ ہی ہوچکا ہے۔ بی جے پی کے بلااکثریت دوسروں کے ساتھ حکومت بنانے کی صورت میں مارکیٹ کے تقریباً 10 فیصدگرنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا جو ۸ فیصد سے کچھ زیادہ ہی گرا۔

کمل کے مرجھاتے ہی حصص بازار کے لڑکھڑانے کا معاملہ اپریل 2021 میں ہوچکا ہے جب مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے ایکزٹ پول سے شیئر بازار کے سرمایہ کار مایوس ہوگئے تھے اور چوطرفہ فروخت کے سبب سینسیکس دو فیصد گر گیا تھا ۔ بی ایس ای کا 30 شیئروں والا سینسیکس 405 پوائنٹ کی گراوٹ کے ساتھ کھلا تھا اور شام تک 983.58 پوائنٹ یعنی 1.98فیصد نیچے 48,782.36 پوائنٹ پر بند ہوا تھا جبکہ اس سے چار دن پہلے جب بی جے پی کی کامیابی کے خواب بیچے جارہے تھے تو سینسیکس 1,885 پوائنٹ چڑھا تھا۔ اس وقت نیشنل اسٹاک ایکسچنج کا نفٹی بھی 263.80 پوائنٹ یعنی 1.77فیصد کی گراوٹ میں 14,631.10 پوائنٹ پر بند ہوا تھا۔ مغربی بنگال تو خیر ایک صوبہ ہے اس لیے قومی سیاست و بازار پر اس کے اثرات محدود تھے لیکن پارلیمانی انتخاب میں مودی کی رسوائی نے تو شب خون ماردیا ۔

حصص بازار میں تو خیر مٹھی بھر خوشحال لوگ ملوث ہوتے ہیں عام آدمی اس سے متاثر نہیں ہوتا لیکن مودی سرکار نے ایکزٹ پول سے خوش ہوکر اپنے رائے دہندگان پر مہنگائی کا کوڑا چلا دیا ۔ ووٹوں کی گنتی کے ایک دن پہلے امول اور مدر ڈیری نے دودھ کی قیمتوں میں 2 روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا ۔ دودھ ہر خاص و عام کی ضرورت ہے ۔ اس کی قیمتیں بڑھواکر بی جے پی نے اپنے رائے دہندگان کے ساتھ کمال احسان فراموشی کا سلوک کیا۔ اس کے علاوہ روز مرہ کے استعمال کی تمام اشیاء کو مہنگا کرنے کی خاطر ملک کے تمام ٹول پلازوں پر 5 فیصد اضافی ٹول ٹیکس لاگو کردیا ۔ بی جے پی سرکار تو یکم اپریل سے ہی یہ ٹیکس لگانا چاہتی تھی ۔ انتخابات میں ناراضی سے بچنے کی خاطر اس اضافہ کو عارضی طور پر ملتوی کیا گیا مگر مطلب نکلتے ہی اسے نافذ کردیا ۔ دودھ کی قیمت اور ٹول کی شرح میں اضافے کے بعد بی جے پی کے اندھے بھگتوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہوگا مگر اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ بی جے پی عوام کا ووٹ لے کر سرمایہ داروں کو نوٹ کمانے کا موقع دینے والی دھوکے باز پارٹی ہے ۔ اس کے باوجود عام لوگ زعفرانی نعروں سے مرعوب ہوکر اسے ووٹ دے کر اپنے معاشی استحصا ل کی راہ آسان ہموار کرتے ہیں۔ان انتخابی نتائج کا یہ سب سے اہم سبق ہے بشرطیکہ لوگ اسے اگلے الیکشن تک یاد رکھیں ۔

لوک سبھا انتخابات کے اختتام کے بعد کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اسٹاک مارکیٹ کے کریش کو لے کر نریندر مودی اور امیت شاہ کو شدید نشانہ بنایا۔ یکم جون 2024 کو لوک سبھا انتخابات کے ایگزٹ پول کے جاری ہونے کے بعد، اسٹاک مارکیٹ نے 3 جون کو تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ 4 جون کو نتائج آنے کے بعد اسٹاک مارکیٹ گر گئی۔ راہل گاندھی نے اس حوالے سے بڑے الزامات لگائے ہیں۔

تین جون کو اسٹاک مارکیٹ نے تمام ریکارڈ توڑ دیے
کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا، "انتخابات کے وقت، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ نے اسٹاک مارکیٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ تیزی سے اوپر جائے گا اور لوگوں کو شیئرز خریدنا چاہیے۔ یکم جون کو ایگزٹ پولز کے اندرونی سروے میں بی جے پی کو 220 سیٹیں تھیں، ایجنسیوں نے 200 سے 220 سیٹیں بھی بتائی تھیں، 3 جون کو اسٹاک مارکیٹ نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
وزیراعظم نے سرمایہ کاری کا مشورہ کیوں دیا؟

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2075 Articles with 1279338 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.