آخر کار بلوچ قوم کو بیوقوف بنانے والی ماہ رنگ
بلوچ پاکستان میں ملک دشمن قوتوں کے مذموم مقاصدکی تکمیل کے بعد ناروے پہنچ
گئی’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘ اور وہاں پرملک دشمن ایجنٹ نام
نہاد بلوچ رہنما ماہ رنگ بلوچ نے ناروے میں PEN ورلڈ ایکسپریشن فورم، اور
یوٹیا آئی لینڈ کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر منعقد تین روزہ سیمینار میں
اپنی اشتعال انگیز تقریر میں مسنگ پرسنز کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے پاک
فوج اور سیکورٹی فورسز پر ملبہ ڈالنے کی پوری کوشش کی ۔ ماہ رنگ بلوچ نے
کہا کہ میں 10 سال سے زائد عرصے سے جبری گمشدگیوں کے خلاف مہم چلا رہی ہوں
اورکہا کہ میرے والد کو پاکستانی ریاست کی ایجنسیوں نے جبری لاپتہ کر دیا
تھا اور 2011 ء میں ان کی لاش ملی تھی۔ماہ رنگ بلوچ یہ حقائق بھی بتاتی کہ
اس کے والد عبدالغفار لانگو بلوچ کا بی ایل اے، بی ایس ایف اور بی ایس او
جیسی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رہا جن کو اقوام متحدہ نے بھی دہشت گرد قرار
دے رکھا ہے۔اس کی تقریر جھوٹ کا پلندہ ہے جس میں نام نہاد مظلومیت کا رونا
رویا گیا ۔ماہ رنگ جو خود ڈسٹرکٹ چاغی میں میڈیکل آفیسر ہے اورسرکاری
مراعات لے رہی ہے ۔اس کی ’’بلوچ یک جہتی کمیٹی‘‘ کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں
ہلاکت کے بعد بنائی گئی تھی۔ در حقیقت بلوچستان کی خواتین کا استعمال کیا
گیاکریمہ خود بھی بی ایس او کی فعال رکن تھی اور انڈین پے رول پر کام کر
رہی تھی۔ اسی طرح سمی دین ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ہے‘ وہی ڈاکٹر دین محمد
جو ڈاکٹر اﷲ نذر بلوچ جیسے مسلمہ دہشت گرد کا ساتھی تھا اور جسے اقوام
متحدہ نے بھی دہشت گرد ڈکلیئر کر رکھا ہے۔ بلوچ روایات کے برعکس خواتین کو
سامنے رکھنااور دہشت گردی میں استعمال کرنا اس سارے معاملے کا دوسرا پہلو
ہے۔ کراچی میں چینی سفارتخانے کے حملے میں ایک خاتون ہی کو استعمال کیا گیا
تھا۔بی ایل اے نے کہا ہے کہ سیکڑوں بلوچ نام نہاد فدائین جن میں خواتین بھی
شامل ہیں، مجید بریگیڈ کا حصہ ہیں ۔ ضروری ہے کہ اسلام آباد دھرنا کے پس
پردہ مذموم مقاصد کو بھی بے نقاب کیا جاتا جس میں اعتراف کیا تھا کہ اس میں
ایران دھماکے میں ملوث دہشت گرد موجود ہیں ۔ماہ رنگ بلوچ نے منعقدہ کانفرنس
میں کہا کہ سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور سیکیورٹی فورسز جبری لاپتہ افراد کو
رہا کریں یا کم از کم انہیں کسی عدالت میں پیش کریں۔ وہ یہ بتانا بھول گئی
کہ پاکستان سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2011ء کو اس حوالے سے ایک کمیشن تشکیل
دیا گیا تھا جو اب بھی اپنا کام کر رہا ہے۔ جبکہ ماہ رنگ بلوچ کا جبری
گمشدگیوں کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے سے مسلسل
انکار لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے میں ان کی ساکھ اور مقاصد پر سنگین
سوالات اٹھاتا ہے۔ اس کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق رجسٹرڈ کیسز کی تعداد
10014 ہے جبکہ فیصلہ شدہ کیسز کی تعداد 7749 ہے۔ 2265 ایسے کیس ہیں جو اس
وقت حل طلب ہیں۔ کمیشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ لاپتہ افراد کی
ایک بڑی تعداد نے دہشت گرد تنظیموں جیسے کہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل
اے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)
میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے ۔یہ انکشاف ان لوگوں کے مذموم ایجنڈے کو بے
نقاب کرتا ہے جو لاپتہ افراد کی حالت زار کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے
استعمال کرتے ہیں۔مسنگ پرسنزکے معاملے کو پروپیگنڈے اور دہشت گردی کے ایک
ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر قابل مذمت ہے بلکہ
بلوچستان میں طویل مدتی امن و استحکام کے حصول میں بھی نقصان دہ ہے۔ دراصل
ہیومن رائٹس کمیشن کے نام پر مختلف تنظیموں کے نام پر لاکھوں ڈالر اپنی
جیبوں میں ڈال کر امریکی مفادات کی تکمیل کیلئے ’’لاپتہ افراد‘‘ کی کہانیاں
مخصوص چینلوں کو سنا رہے ہیں۔دوسری جانب اس حقیقت کو بھی کوئی جھٹلا نہیں
سکتا کہ مسنگ پرسنز میں شامل بہت سے افراد پہاڑوں پر دہشت گرد گروہوں کے
ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ بلوچستان کی مسلح دہشت گرد تنظیموں نے بلوچستان میں
قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھاہے اور اس کا نشانہ اردو ،پنجابی بولنے
والے استاد، ڈاکٹر، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے کوئلے کی
کانوں کے مزدور بن رہے ہیں سب کو چن چن کر ویگنوں‘ بسوں اور ریل گاڑیوں سے
اتار کر بے رحمی کے ساتھ گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے۔جب منعقدہ کانفرنس
میں بلوچوں کی وکالت کرنے والی ماہ رنگ کو بلوچستان میں پنجابیوں پہ ظلم و
ستم کی داستان سنائی گئی اورپنجابی مزدوروں کے قتل پر سوالات پوچھے گئے کہ
مئی 2024 میں دہشتگردوں نے ایک گھر پر حملہ کرکے 7 پنجابی مزدوروں کا قتل
کیا جو نائی کی د ْکان چلاتے تھے؟اپریل میں بی ایل اے نے 9 پنجابی جو ایران
سے سفر کر رہے تھے اْن کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ اپریل میں ہی ایک
اور واقعے میں 2 مزید پنجابی مارے گئے۔ اکتوبر 2023 میں دہشتگردوں نے 6
پنجابی مزدوروں کو تربت میں قتل کردیا۔ اپریل 2019 میں دہشتگردوں نے مکران
کوسٹل ہائیوے کے قریب 14 مسافروں کو بسوں سے اْتار کر قتل کردیا۔ نومبر
2017 میں گولیوں سے چلنی 15 لاشیں لیویز نے بلیدہ کے قریب برآمد کیں
۔مذکورہ اینکر نے پوچھا کہ صوبے میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے پیچھے کون
ہے؟ کون ہے جن کو پنجابی مزدوروں کے قتل سے فائدہ ہورہا ہے؟ میڈم کیا
پنجابیوں پر ڈھائے بی ایل اے کے ظلم و ستم کی آپ مذمت کرتی ہیں؟ دنیا نے
دیکھا کہ دشت گرد تنظیموں کی وکالت کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ کی پنجابی
مزدوروں کے قتل پر خاموشی اور بعض گروہوں کے ساتھ اس کی وابستگی ان کی
وکالت میں تعصب کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک جانب وہ ریاستی خلاف ورزیوں کے بارے
میں آواز اٹھاتی ہے، اور دوسری جانب وہ دہشت گرد تنظیم کی پرتشدد
کارروائیوں پر خاموش رہتی ہے۔ اس سے ان دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ، ڈاکٹر
ماہ رنگ کا تعلق دنیا کے سامنے آ گیا ہے ۔دہشت گرد تنظیموں کے ہولناک
کارناموں پر ڈاکٹر ما ہ رنگ کا سکوت اس کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتاہے۔
جہاں وہ ایک طرف پرجوش انداز میں بلوچوں کے حقوق کی کہانیاں سناتی ہیں،
وہیں دوسری طرف دہشت گردوں کے لیے راہیں آسان کر رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ
بلوچستان میں پنجابیوں اور دوسرے آبادکاروں کو روزانہ چن چن کر قتل کیا جا
رہا ہے‘ کوئٹہ، گوادر اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں پنجابی لا پتہ کیے
جا رہے ہیں‘ ان کی سربریدہ لاشیں ملتی ہیں‘ اان کے بوڑھے ماں باپ‘ ان کی
جوان بہنیں‘ ان کی بیوائیں‘ ان کے معصوم یتیم ہونے والے بچے کس سے فریاد
کریں؟ اب یہ حقیقت واضح ہوچکی کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ،بلوچ قوم کو بے وقوف
بنارہی ہے ،اس کے پیچھے اس کے اپنے ذاتی مقاصد ہیں ۔اسلام آباد میں ماہ رنگ
بلوچ کے دھرنوں میں دہشت گرد تنظیموں میں شامل افراد کی شرکت اس بات کا
ثبوت ہیں کہ بلوچ میں بلوچ نسل کشی اور نوجوان نسل کی تباہی کے پیچھے ماہ
رنگ بلوچ جیسے لوگ شامل ہیں۔ |