ارشادِ ربانی ہے :’’ انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی
باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں‘‘۔ ان چکنی چپڑی
باتوں کی مثال پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے انتخابی مہم کے دوران کہا
تھا کہ "میرے گھرکے آس پاس سارے مسلم خاندان رہتے ہیں۔ ہمارے گھر میں عید
بھی منائی جاتی تھی اور دیگر تہوار بھی۔ میرے گھر میں عید کے دن کھانا نہیں
بنتا تھا بلکہ مسلم خاندانوں سے آجاتا تھا۔ ہم لازمی طورپر تعزیے کے نیچے
سے گزرتے تھے‘‘۔ آگے فرمانِ قرآنی ہے:’’ اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار
خد ا کو گواہ ٹھیرا تا ہے، ‘‘۔اس کا بھی نمونہ مودی سے یہ پوچھے جانے پر
سامنے آیا کہ وہ مسلمانوں کو ‘گھس پیٹھیا’ اور ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والا’
کیوں کہتے ہیں۔ ان کا جواب تھا ، ’ میں نے نہ ہندو کہا ہے ،نہ مسلمان کہا
ہے۔‘میں جس دن ہندو-مسلمان کروں گا، اس دن عوامی زندگی میں رہنے لائق نہیں
رہوں گا۔ میں ہندو مسلم نہیں کروں گا، یہ میرا عزم ہے۔‘لیکن قرآن کا فرمان
ہے :’ ’مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے‘‘۔
اپنی حق دشمنی کا ثبوت وہ اس طرح دیتا ہے کہ :’’ جب اُسے اقتدار حاصل ہو
جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے،
کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالاں کہ اللہ فساد کو ہرگز
پسند نہیں کرتا ‘‘۔ یعنی اپنے بھگتوں کی خوشنودی کے لیے ان کو ہجومی تشدد
اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ اور تحفظ فراہم کرنے والے ظالم حکمراں بھول جاتے
ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قتل و غارتگری کو پسند نہیں کرتا اور ایک دن سب
کو اس کے حضور حاضر ہوکر اپنے سارے اعمال کا حسا ب دینا پڑے گا۔ اس روز
کوئی عہدہ یا اقتدار کام نہیں آئے گا۔ نئی حکومت کے بنتے ہی ملک میں پھر
ایک بار ماب لنچنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ علی گڑھ میں فرید نامی نوجوان پر
چوری کا الزام لگا کر ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جس کی ویڈیو سی سی ٹی
وی میں قید ہوگئی۔
اول توفرید کی چوری کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو کسی ہجوم یا
فرد کو اسے سزا دینے کا حق نہیں ہے۔ ایسا ہو تو پولیس اور عدالت کی کیا
ضرورت ؟ کل کو اگر مقتول کے اعزہ و اقارب الزام لگانے والے سے انتقام لینے
کی خاطر اسے موت کے گھاٹ اتار دیں تو کیا وہ عمل جائز ہوجائے گا ؟اس طرح کا
ظلم و جبر مہذب انسانی سماج میں نہیں بلکہ جنگل راج میں ہوتا ہے ۔ اس طرح
کی انارکی کو رام راج کہنا ڈبل انجن سرکار میں سنگھ پریوار کا شعار ہے۔ دو
ہفتہ قبل اسی طرح کا ایک واقعہ چھتیس گڑھ کے آرنگ میں رونما ہوا جہاں تین
نوجوانوں پر مویشی اسمگلنگ کا الزام لگا کر انہیں ہجومی تشدد کا نشانہ
بنایا گیا ۔ اس بابت مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ مویشیوں کی آمدو رفت عام
سی بات ہے اور زعفرانی گئو رکشک ہفتہ وصول کرتے ہیں مگر اس بار انہوں نے
قتل و غارتگری کرکے تین مسلمانوں کوشہید کردیا ۔اس پر بڑی ردو کد کے بعد
ایف آئی آر تو درج کی گئی مگر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ۔ اڑیشہ
میں بی جے پی حکومت بنتے ہی بالیشور میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ ڈبل ا نجن
سرکاروں میں یہ سب حکومت کے تحفظ اور اشارے پر سیاسی فائدے کے حصول کی خاطر
کیا جاتا ہے ۔
مدھیہ پردیش میں غنڈوں کے بجائے خو د کی بی جے پی حکومت نے مانڈلا ضلع کے
اندر 11 ؍افراد کے مکان پر بلڈوزر چلا دیا کیونکہ ان کے گھر میں بیف
ملاتھا۔ملک میں بھینس کے گوشت پر کوئی پابندی نہیں ہے اور اس کو برآمد
کرنے والے بیشتر بیوپاری ہندو ہیں۔ گائے اور بھینس کے گوشت کی شناخت کا
کوئی طریقہ موجود نہیں اس کے باوجود ریفریجریٹر میں رکھے گوشت کو گائے کا
کہہ کر کارروائی کرنا کھلی سرکاری دہشت گردی ہے۔ پولس کا یہ الزام کہ گھر
کے عقب میں150 گائے اور جانور کی چربی، چمڑا اور ہڈیاں ملی بے بنیاد ہے اور
انتخاب کے بعد مایوس زعفرانی رائے دہندگان کو گمراہ کرکے خوش کرنے کی ایک
کوشش ہے۔ پچھلے سال نومنتخب وزیر اعلیٰ موہن یادو نے اقتدار سنبھالتے ہی
اجین میں گوشت کی کچھ دکانوں پر بلڈوزر چلا کر ہندووں کو بیوقوف بنانے کی
کوشش کی تھی حالانکہ اسی شہر میں پچھلے سال ہائی کورٹ نے افسران کی بلڈوزر
کارروائی پر سخت پھٹکار لگا کر متاثرہ کو 2 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا فیصلہ
سنایا تھا ۔ عدلیہ اگر اسی طرح کی کارروائی کرے تو سرکاری دھاندلی رک سکتی
ہے لیکن افسوس کہ مقامی عدالتیں اکثر حکومت کے دباو میں امتیاز و تفریق
کاارتکاب کرتی ہیں ۔
کانگریس کی ریاستیں ہماچل پردیش میں ایک مسلمان کی دوکان لوٹ لی گئی اور
آندھر اپردیش کےمیدک میں بھی لوٹ مار کے واقعات ہوئے اور پولیس خاموش
تماشائی بنی رہی۔ ریاستی حکومت نے اگر فسادیوں سمیت افسران پر سخت کارروائی
نہیں کی تو اس سے مسلمانوں کا اعتماد پامال ہو گا اور خود قانون کو ہاتھ
میں لینےپر مجبور جائیں گے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں مسلمان کیا
کریں ؟ ایسے میں صرف ویڈیو پھیلاکراور ماتم کرکے خود کو مطمئن کرلینا کافی
نہیں ہے۔ ان ویڈیوزکو عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے ان عمائدین تک
پہنچانا چاہیے جو ملزمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں ۔
مختلف دینی جماعتیں عدالتی چارہ جوئی کرتی ہیں مگرمقامی وکلاء کا تعاون اسے
سہل بنادیتا ہے۔ اس لیے مقامی سطح پر وکلاء اور سماجی کارکنان کا میدان میں
اترکر ظلم و جبرکے خلاف احتجاج کرنا لازمی ہے۔ باہمی لعنت و ملامت کی بہ
نسبت یہ پتاّ ماری کا کام ہے اس لیے کم لوگ اس جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔
فسادیوں کے بالممقابل سینہ سپر ہوکر اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے والے اہل
ایمان کی بابت آگے کی آیت میں ارشاد ہے:’’ اور انسانوں میں سے کچھ ایسے
بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں (خطرے
میں ڈال دیتے ہیں)‘‘۔ ان جان کھپا دینے والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ ’’ اور
اللہ (ایسے جاں نثار) بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے‘‘۔
|