وزیر اعظم نریندر مودی ہر ماہ عوام کو’من کی بات ‘اور
خواص کو ’دھن کی بات ‘ سے فیضیاب کرتے ہیں ۔ جمہوری نظام میں اقتدار کی
گاڑی ووٹ اور نوٹ کے دو پہیوں پر چلتی ہے۔ ستمبر 2020 کے من کی بات میں
’قصہ گوئی ‘کی اہمیت بتاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ کہانیوں کی تاریخ
بھی انسانی تہذیب جتنی پرانی ہے جتنی کیونکہ’جہاں روح ہے وہاں کہانی ہے‘۔
انھوں نے خاندان کے بزرگوں کو کہانی سنانے کی روایت کو جاری رکھنے کی تلقین
تو کی تھی مگر وہ نہیں جانتے کہ شہری زندگی کے اندر سےخاندانی بزرگ کا
کردار غائب ہوچکا ہے اس لیے بچوں کو کارٹوں فلموں پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے ۔
مئی 2002میں باہوبلی، آر آر آر، بجرنگی بھائی جان اور مگدھیرا جیسی بلاک
بسٹر فلموں کا منظر نامہ لکھنے والے مشہور اسکرین رائٹر وی وجیندر پرساد نے
'ماسٹرز رائٹنگ پروسیس'کے موضوع پر فلم فیسٹیول میں خطاب کرتے ہوئے کہانی
کے حوالے سے وہ بات کہی جسے وزیر اعظم نے گرہ سے باندھ لیا ۔ پرساد نے کہا
تھا ’’ آپ کو 'کچھ بھی نہیں' سے 'کچھ' پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو
ایک جھوٹ پیش کرنا ہوتا ہے، جو سچ کی طرح لگتا ہو، جو شخص اچھا جھوٹ بول
سکتا ہے وہ ایک اچھی کہانی کا تخلیق کار بن سکتا ہے‘‘۔
وزیر اعظم نے سوچا ہوگا اس طرح اگر کوئی اچھا کہانی کار بن سکتا ہے تو
کامیاب وزیر اعظم کیوں نہیں ؟ ویسے بھی کذب گوئی کے فن میں ان کا کوئی ثانی
نہیں ہے ۔ بس پھر کیا تھا وہ انتخابی مہم کے دوران جھوٹ کا طلسم کھڑا کرنے
کے چکر میں بھول گئے کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے ۔ وہ کچھ دور کے بعد گر
جاتا ہے اس لیے 240 سے آگے نہیں بڑھ سکا۔وجیندر پر شاد کی یہ بات وزیر
اعظم کو سب سے زیادہ پسند آئی ہوگی کہ ’ میں کہانیاں لکھتا نہیں ہوں، چوری
کرتا ہوں۔ آپ کے ارد گرد کہانیاں موجود ہیں، چاہے وہ مہابھارت، رامائن جیسے
رزمیے ہوں یا حقیقی زندگی کے واقعات، کہانیاں ہر جگہ ہیں‘‘۔ وزیر اعظم پر
انکشاف ہوا کہ عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی خاطر کہانیاں لکھنے یا لکھوانے
کی چنداں ضرورت نہیں وہ تو آس پاس موجود ہیں۔ منگل سوتر ، بھینس یا نل کی
ٹونٹی اور رام مندر ، تالا یا بلڈوزر ان سب کی آمیزش ے جھوٹ گھڑکر کہانی
بناو اور اڈانی کو ٹیمپو میں نوٹ بھر کر راہل گاندھی کو بھیجتا ہوا دکھا دو۔
ایسی احمقانہ کہانی پر عوام سے دادِ تحسین حاصل کرنے کے لیے یا بلا کی
مہارت اور بے شمار دولت درکار ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے پاس اس
کی کوئی کمی نہیں نیز وزیر اعظم کی ہر احمقانہ قصےپر بغیر سمجھے تالیاں
بجانے والی اندھ بھگتوں کی کثیر فوج بھی موجود ہے ۔ یہی نسخۂ کیمیا مودی
سرکار کا زندہ طلسمات ہے۔ فلموں اور کہانیوں کے درمیان چولی دامن کا ساتھ
ہے۔ وجیندر پرساد نے یہ بھی کہا تھا کہ’ آپ کے ارد گرد کہانیاں موجود ہیں،
چاہے وہ مہابھارت، رامائن جیسے رزمیے ہوں یا حقیقی زندگی کے واقعات،
کہانیاں ہر جگہ موجود ہیں‘تووزیر اعظم نے نصیحت کی کہ ’ کہانی سنانے والوں
کو چاہیے کہ ملک کی نئی نسل کو کہانیوں کے ذریعے عظیم شخصیات سے جوڑیں ‘۔
اس پر 110سال قبل عمل کرتے ہوئے 3 مئی 1913ء کو ہندوستانی سنیما کا بابائے
آدم دادا پھالکےنے اپنی پہلی فلم راجہ ہریش چندر کی کہانی پر ریلیز کی ۔
مودی جی اس وقت موجود ہوتے تو بعید نہیں کہ وہ راجہ ہریش چندر کا کردار
انہیں کو سونپتے کیونکہ اس کے لیے ان سے بہتر کوئی اداکار فی الحال ملک تو
دور پوری دنیا میں موجود نہیں ہے اور وہ محنت بھی خوب کرتے ہیں۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ داداصاحب پھالکے نےراجہ ہریش چندر کے چند ماہ بعد
موہنی بھسماسور نامی فلم یکم نومبر 1913ء کوریلیز کردی۔ اس کی کہانی بھی
وزیر اعظم نریندر مودی پر من و عن صادق آتی ہے ۔دادا پھالکے کی دوسری فلم
کا ہیرو بھسماسور ایک ہندوستانی رزمیہ داستانوں کا اساطیری کردار ہے۔ راجہ
ہریش چندر نامی فلم میں، خاتون کا کردار ایک مرد انا سالونکے نے ادا کیا
تھا مگر موہنی بھسماسور وہ پہلی بھارتی فلم تھی جس میں اٹلی کی سربراہ
جارجیا میلونی کی مانند ایک خاتون اداکارہ پردۂ سیمیں پر نظر آئی تھیں
لیکن اس وقت ریلز کی سہولت نہیں تھی ورنہ ’میلوڈی ٹیم‘ بھی نشر ہو جاتی ۔
ہندو اساطیری داستانوں کے مطابق بھسما سور ایک اسور یعنی آفریت دیوتا شیوا
کو اپنی عبادت و ریاضت سے خوش کرکے وردان مانگتا ہے اور اسے ایسی طاقت میسر
آجاتی ہے کہ وہ کسی کے بھی سر کو چھو کر اسے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل
کرسکتا ہے۔
آفریت لاکھ ریاضت کے باوجود شیطان ہی ہوتا ہے اس لیے وہ اپنی فطرت کے
مطابق قوت و حشمت حاصل کرلینے کے بعد خود شیوا پر اس وردان کو آزمانے کا
فیصلہ کرتا ہے۔ فلم میں اس کے اس ارادے سے شیوا گھبرا کر بھاگتا ہےاور اپنے
آپ کو بچانے کی خاطر دیوتا وشنو سے گہار لگاتا ہےجو موہنی کا بھیس بدل کر
بھسماسور کو اپنے اوپر فریفتہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ بھسماسور جب اس
کے سامنے شادی کی پیشکش کرتا ہے تو موہنی اس اس شرط پر راضی ہوجاتی ہے کہ
بھسماسوراس کے ساتھ رقص کرے اور اس کی ہر حرکت کو دوہرائے یعنی اس کے قدموں
کی پیروی کرے۔ یہ چال کامیاب ہوتی ہے رقص کے دوران موہنی اپنا ہاتھ اپنے سر
پر رکھتی ہے اور بھسماسور بھی اس کی نقل کرتے ہوئے وہی حرکت کردیتا ہے۔ اس
کا نتیجہ یہ نکلتا ہے وہ خود کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتا ہے۔
اس کہانی میں شیوا اور وشنو کی جگہ آر ایس ایس کو اور بھسما سور کے مقام
پر وزیر اعظم کو رکھ دیا جائے تو وہ سنگھ پریوار کی موجودہ صورتحال پر من و
عن صادق آجاتی ہے ۔ آر ایس ایس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اٹل بہاری
واجپائی جیسے نرم خو نظر آنے والے رہنما کی جگہ سخت گیر لال کرشن اڈوانی
کو آگے بڑھایا مگر مخلوط حکومت میں انہیں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہیں
کروا سکا۔ اس کے بعد اڈانی کی تاثیر ختم ہوگئی تو ان کی جگہ نریندر مودی کی
حمایت مگر دس سال حکومت کرنے کے بعد وہ بی جے پی کے لیے سرمایہ کے بجائے
بوجھ بن گئے۔ یہ دراصل مشیت کا کھیل ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت
میں اگر 2014 کے اندر بی جے پی کو 241 نشستیں ملی ہوتیں اور وہ پانچ سال تک
ایک مخلوط حکومت چلا لے جاتے. اس کے بعد 282 نشستوں پر کامیاب ہوکر اپنے
حلیفوں کی حمایت سے بے نیاز ہوجاتے نیز تیسری بار اپنی پارٹی کے 303 ؍
امیدوار کامیاب کرلیتے تو ان کے نام سے ایک تاریخ رقم ہوجاتی لیکن ترتیب
الٹ پلٹ گئی۔
آر ایس ایس کو اس بات کا علم ہے کہ انتخاب جیتنے کے لیے جتنے ہتھکنڈے
استعمال کرنے کے باوجود مودی کا طلسم ٹوٹ گیا اور اگلی مرتبہ وہ کسی صورت
کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ۔ اس صورتحال کے لیے مودی جی ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں
نے اپنے نام پر انتخاب لڑا تھا یہاں تک کہ پارٹی کے منشور پر بھی ’مودی کی
گارنٹی‘ لکھا ہواتھا ۔ اب ناکامی کا ٹھیکرا کسی اور کے سر پھوڑا نہیں
جاسکتا ۔ اس کے باوجود ایک طرف مودی جی اعلان کرتے ہیں کہ ’ہم نہ ہارے تھے
، نہ ہارے ہیں اور نہ ہاریں گے‘ وہیں سنگھ کی جانب سے بار بار اس ہار کی
مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں جن میں گھمنڈ اور بیجا خود اعتمادی کا اطلاق
سب سے زیادہ وزیر اعظم مودی پر ہوتا ہے۔ مودی سے چھٹکارہ پانے کے لیےسنگھ
نے بی جے پی کے ارکان پارلیمان کی نشست میں نیا رہنما منتخب کرکے ان سے
نجات حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہوگا کیونکہ وہاں بیشتر لوگ سنگھ سے آئے
ہوئے ہیں ۔
مودی اور شاہ نے مل کراس منصوبے کو ناکام کرکے براہِ راست این ڈی اے کی
نشست میں رہنما کا انتخاب کروا دیا اور وزیر اعظم بی جے پی کے بجائے ای ڈی
اے سرکار کا اراگ الاپنے لگے حالانکہ اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے ۔
مودی نے اپنی اور وزراء کی حلف برداری کروالی اس طرح مودی جی نےسنگھ نامی
موہنی کی پیروی کرکے بھسماسور کی مانند اپنی تباہی کو ٹال دیا مگر اب سنگھ
پریوار کسی اور طریقہ سے یہ کانٹا نکالنے کی کوشش کرے گا ۔ بی جے پی کا ایک
زمانے میں دعویٰ تھا کہ وہ ایک مختلف سیاسی جماعت ہے۔ اس میں قوم و ملک کا
مفاد سب سے اوپر ہوتا ہے۔ اس کے بعد پارٹی کا فائدہ دیکھا جاتا ہے اور آخر
میں فرد کی باری آتی ہے ۔ دوسری سیاسی جماعتوں میں یہ ترتیب الٹی ہوتی ہے۔
فی الحال سنگھ پریوار پر ایک فرد کی قیادت نے غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ اس کے
بعد جماعت اور سب سے نیچے ملک و قوم کا مفادآتا ہے۔ بی جے پی کی سب سے بڑی
مصیبت فی الحال وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتِ والا صفات سے ہے۔ اس لیے
سنگھ مودی مکت بی جے پی بنانے کی فکر میں غلطاں ہے ۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی
ہے کہ کانگریس مکت بھارت بنانے والے اب حزب اختلاف یعنی کانگریس کے وجود کی
اہمیت پر پروچن دے ہے ہیں ۔ بھسما سور کی کہانی کا کلائمکس یقیناً دلچسپ
اور چونکانے والا ہوگا اور یہ فلم سوپر ڈوپر ہٹ ہوگی۔ |